انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ کے حصول کے لیے ہرسیاسی جماعت کوشاں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو لگتا ہے کہ اب اس کے لیے راہ ہموار ہورہی ہے اور شاید اسی لیے اس کے قائد میاں نوازشریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے ابھی تک شک و شبہ بھی پایا جاتا ہے کہ کیا میاں نواز شریف واقعتاً21 اکتوبر کو واپس آئیں گے؟ جمعہ کے روز یہ سوال ایک بار پھر سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے پریس کانفرنس کے دوران پوچھا گیاجس پر انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بار بار ایک سوال نہ پوچھا جائے، نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آ کر مینار پاکستان پر جلسہ کریں گے۔نواز شریف قانون کے سامنے پیش ہوں گے اورمقابلہ کریں گے اور معاشی خاکہ بتائیں گے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ قانونی ماہرین نے نواز شریف کو گرین سگنل دیا ہے۔رانا ثنا اللہ نے بھی یہی کہا ہے کہ نواز شریف کے کیسز میں حفاظتی ضمانت لینے کا ارادہ ہے۔ان کی حفاظتی ضمانت سے متعلق قانونی ٹیم نے تیاری کرلی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عوام کی بڑی تعدادجلسے میں نواز شریف کا استقبال کرے گی۔
اب ایک طرف نوازشریف کی واپسی کی تیاریوں کی باتیں کی رہی ہے تو وہیں ان کی صحت سے متعلق پھر سے تشویشناک خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔سابق وزیر اعظم کی بیماری سے متعلق رپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروادی گئی ہے۔ برطانوی ہسپتال کی طرف سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہاگیا تھا کہ نوازشریف کے سینے میں درد اٹھتا ہے‘ انہیں لندن اور پاکستان میں چیک اَپ کرانے کی ضرورت ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے وکیل امجد پرویز نے رجسٹرار آفس میں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ جمع کرائی جسے برطانیہ کے رائل برمپٹن ہسپتال نے جاری کیاہے۔رپورٹ میں ڈاکٹر نے کہا کہ نواز شریف کو دل کے عارضے کے مسائل لاحق ہیں۔ نواز شریف کوکورونا اور دل کی تکلیف کے سبب پاکستان کے لیے سفرسے روکا گیا ۔ نواز شریف کو لندن اور پاکستان میں فالو اَپ چیک اَپ کی ضرورت ہے۔
اس وقت حقیقت یہ ہے کہ( ن) لیگ کو لیول پلینگ فیلڈ کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو فی الحال مسلم لیگ (ن) کے پاس نہیں۔جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے تو وہ بھی لیول پلینگ فیلڈ چاہتی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت مسلسل بحرانوں کی زد میں ہے۔ایک کے بعد ایک کیس ان کاتعاقب کر رہا ہے۔توشہ خانہ کے بعد سائفر کیس اور پھرسانحہ نو مئی سے چیئرمین پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔سانحہ نو مئی کے معاملے میں تو ایک کے بعد ایک گواہ سامنے آرہاہے۔ حال ہی میں عثمان ڈار اچانک سے ''دنیا نیوز‘‘ کے پروگرام ''آن دی فرنٹ‘‘ میں اینکر پرسن کامران شاہد کے ساتھ ایک انٹر ویو میں نمودار ہوئے اور سیاست اورتحریک انصاف سے اپنی راہیں جدا کرلیںاور سانحہ نو مئی سے متعلق عمران خان کے خلاف چارج شیٹ پیش کردی۔وہ عمران خان پر سنگین الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ سانحہ نو مئی کا حکم عمران خان نے دیا جس کا مقصد جنرل عاصم منیر کا تختہ الٹنا تھا۔عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے کارکنوں کی ذہن سازی کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کی صورت میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔حساس تنصیبات کونشانہ بنانے کی ہدایت چیئرمین پی ٹی آئی کی تھی۔بقول اُن کے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد اور زمان پارک میں جو کچھ ہوا اسی ذہن سازی کانتیجہ تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ہیومن شیلڈاستعمال کی۔وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ نو مئی کے واقعات کی پلاننگ چیئرمین پی ٹی آئی کی صدارت میں زمان پارک میں ہوئی۔نومئی افسوسناک سانحہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ ایک ایسا دھبہ ہے جسے دھلنے میں وقت لگے گا۔عثمان ڈار کے بیان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نے عثمان ڈار کے اچانک منظر عام پر آنے اور انٹرویو دینے کو'' نئی بوتل میں پرانی شراب‘‘ قرار دیا ۔ دوسری جانب اس انٹرویو کے بعد عثمان ڈار کی والدہ نے عمران خان کے ساتھ کھڑا رہنے کا اعلان کیا ہے ‘کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول یہ گڈ کاپ ‘ بیڈکاپ والا ٹول ہے جس کو استعمال کیا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری نے الیکشن کمیشن کے حلقہ بندیاں کروانے کے معاملے میں بھی یہ استعمال کیا۔لیکن جو بھی ہو عثمان ڈار کا انٹر ویو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ بہت سے شواہد ایسے ہیں جن سے ثابت ہورہا ہے کہ نو مئی کے واقعے میں عمران خان ملوث تھے اور سب کچھ انہی کے ایماپر ہوا۔عمران خان کے خلاف کوئی جرم ہوا تو انہیں عدالت سے سزا ملے گی ‘لیکن پوری تحریک انصاف پر پابندی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔
بہرحال جو صورتحال نظر آرہی ہے وہ یہی ہے کہ ہر جماعت چاہتی ہے کہ اس کو کھل کرکھیلنے کی آزادی ہو‘ لیکن اس کی حریف جماعت پرپابندی لگ جائے۔اس وقت بیانیے کی جنگ چل رہی ہے منشور کو کوئی بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھ رہا۔ وطن واپسی پر میاں نوازشریف اگر مینار پاکستان میں بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو( ن) لیگ کا سیاسی مورال بلند ہوگا اور یہ انتخابات لڑنے کی پوزیشن میںآجائے گی۔تحریک انصاف نے بھی لاہور میں جلسہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیاہے ۔ وہ15 اکتوبر کو لبرٹی چوک میں جلسہ کرناچاہتی ہے۔اس سلسلے میں تحریک انصاف نے انتظامیہ سے جلسہ کرنے کی اجازت بھی مانگ لی ہے۔ تحریک انصاف جلسہ کرکے (ن) لیگ کو پیغام دینا چاہتی ہے کہ لاہور میں اب بھی وہ اپنا وجود رکھتی ہے۔ ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ شاید وہ نوازشریف کے ممکنہ جلسے سے خائف ہے۔ پی ٹی آئی یہ سوچ نہیں رہی کہ جلسے کی قیادت کون کرے گا۔عمران خان اور شاہ محمود قریشی تو جیل میں ہیں۔اسد عمر کی پوزیشن اب مستحکم نہیں رہی۔ایسے میں تحریک انصاف میں کوئی ایسا لیڈر ہے جو کراوڈ پلر ہوسکے؟سب جانتے ہیں تحریک انصاف عمران خان کی وجہ سے ہے اور اگر یہ نہیں رہتا توپارٹی ختم ہوجائے۔اگر تحریک انصاف بڑے بڑے جلسے نہیں کرسکتی تو پھر مقبولیت کے دعوے ہوا ہوجائیں گے۔بدقسمتی سے کوئی بیانیے بنانے کی کوششوں میں ہے کوئی مقبول ہونے کی کوشش میں‘ لیکن کوئی گرتی معیشت کا حل دینے کو تیار نہیں۔کوئی عوامی مسائل کو اپنی ترجیح بنانے کو تیار نہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کی کہ منشور کا کوئی ذکرنہیں کر رہا سب کا فوکس بیانیہ بنانے پر مرکوز ہے ۔ایسے میں عوام غم و غصے کا شکار ہے۔پٹرول مہنگا‘بجلی بہت مہنگی اور اب گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیاہے۔غریب عوام کا جینا دوبھر ہوچکا۔ایسے میں عام عوام کو نہ بیانیے سے غرض ہے نہ کسی کی مقبولیت سے‘انہیں دو وقت کی روٹی سے سروکار ہے جو پورا کرنا وبال جان بن چکا ہے۔رہبروں کو بیانیہ بنانے،کیسز سے نجات اورلیول پلینگ فیلڈ مانگنے کے ساتھ ساتھ عوام کے مسائل کو بھی حل کرنا ہوگا ورنہ عوام کسی کو لیول پلینگ فیلڈ دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved