لندن میں چار سال تک مظاہرہ کرنے
والے پاکستانیوں کو کیا ملا: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''لندن میں چار سال تک مظاہرہ کرنے والے پاکستانیوں کو کیا ملا‘‘ وہ بے سود ہی رہے کیونکہ جن کے خلاف مظاہرے کیے جاتے تھے وہ اب بھی ویسے ہی قائم ودائم ہیں اور ان کی واپسی کا سوال بھی کیسے پیدا ہو سکتا ہے جو شبانہ روز محنت کے بعد بنائے گئے ہیں اس لیے یہ یونہی کے یونہی رہیں گے‘ کوئی انہیں ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اگر کوئی ایسا کرے گا بھی تو کسی کی صحت اور حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا نیز حسد کا علاج تو کسی کے پاس بھی نہیں ہے جبکہ مظاہرے کرنے والے خود محنت کرکے ایسے اثاثے بنا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہیں یہ مظاہرے پاکستان جا کر کرنے چاہئیں لندن میں نہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں پاکستانی صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نوازشریف کی واپسی بارے بار بار
نہ پوچھا جائے : شہبازشریف
سابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کی واپسی بارے بار بار نہ پوچھا جائے‘‘ کہ عدالت میں جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ کے مطابق انہیں اب بھی دل کے مسائل کا سامنا ہے اور پلیٹ لیٹس کی طرح دل کی دھڑکن بھی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اس لیے معمولی سوجھ بوجھ والا آدمی بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ دل کی ایسی صورتحال میں ہوائی جہاز کا سفر کس قدر خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے اس لیے نواز شریف کی واپسی بارے بار بار پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ اس کے بجائے ان کی کُلی صحت کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ وہی کام کرنا چاہیے جو بے حد ضروری ہو اور سوالات میں وقت ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے جبکہ پاکستان میں تو دل کی بیماریوں کا ویسے بھی کوئی علاج نہیں ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ہر آنے والا دن ہمارے گزرے
ہوئے دن سے بہتر ہے: انیق احمد
نگران وزیر مذہبی امور انیق احمد نے کہا ہے کہ ''ہر آنے والا دن ہمارے گزرے دن سے بہتر ہے‘‘ کیونکہ مہنگائی 37فیصد سے بھی اوپر پہنچ چکی ہے اور عوام نے اشیائے صرف خریدنی ہی بند کر دی ہیں جس وجہ سے انہوں نے کھانا پینا بھی چھوڑ رکھا ہے اور ہر وقت فاقے کی حالت میں رہتے ہیں اور اس طرح انہیں اپنی عافیت کا سامان کرنے کا بھی موقع ملا ہے اور جس کا ثواب ہمیں بھی پہنچ رہا ہے اور ہماری عاقبت بھی سدھر رہی ہے کیونکہ ہم نے مہنگائی کو اس کے حال پر چھوڑ رکھا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہمیں نگران حکومت کا جو موقع ملا ہے‘ اس سے ہماری عاقبت کا سدھار ہی مطلوب تھا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کی صحت کو اب بھی مسائل
درپیش‘ سفر میں مشکل ہوگی: ذاتی معالج
نواز شریف کے ذاتی معالج نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی صحت کو اب بھی مسائل در پیش ہیں‘ سفر میں مشکل ہوگی‘‘ اس لیے امید ہے کہ نہ تو پارٹی انہیں مشکل میں ڈالنا چاہے گی اور نہ وہ خود ایسا چاہیں گے‘ وہ صرف پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں میں آسانی سے سفر کر سکتے ہیں اس لیے ڈاکٹر بھی انہیں اس خطرے سے دوچار ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے‘ چنانچہ جونہی وہ سفر کے اہل ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر انہیں اس کی کھلے دل سے اجازت دے دیں گے جبکہ پاکستان پہنچنے پر بھی انہیں مقدمات کا خطرہ درپیش ہے‘ اس لیے اس خطرے کا بھی سدباب ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سیاست میں ڈرامے سے بھی
زیادہ ڈرامہ ہو رہا ہے: مائرہ خان
اداکارہ مائرہ خان نے کہا ہے کہ ''سیاست میں ڈرامے سے بھی زیادہ ڈرامہ ہو رہا ہے‘‘ کیونکہ یہ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نے واپس نہیں آنا لیکن بار بار ان کی واپسی کی تاریخیں دیتے چلے جا رہے ہیں اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اداکاری ہے جو ہمیں بے روزگار کرنے کی ایک سازش ہو سکتی ہے‘ تاہم اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم لوگ اداکاری چھوڑ کر سیاست شروع کر دیں جبکہ الیکشن کا ڈرامہ اس کے علاوہ ہے جس کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں حالانکہ خواتین و حضرات کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ محض ایک ڈرامے ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک ٹاک شو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
آنکھیں ترس گئی ہیں
اس گھر میں یا اس گھر میں تو کہیں نہیں ہے
دروازے بجتے ہیں
خالی کمرے
تیری باتوں کی مہکار سے بھر جاتے ہیں
دیواروں میں تیری سانسیں سوئی ہیں
میں جاگ رہا ہوں
کانوں میں
کوئی گونج سی چکراتی پھرتی ہے
بھولے بسرے گیتوں کی
چاندنی رات میں کھلتے ہوئے
پھولوں کی دمک ہے‘ یہیں کہیں
تیرے خواب مری بے سایہ زندگی پر
بادل کی صورت جھکے ہوئے ہیں
یاد کے دشت میں آنکھیں کانٹے چنتی ہیں
میرے ہاتھ ترے ہاتھوں کی ٹھنڈک میں
ڈوبے رہتے ہیں
آخر... تیری مٹی سے مل جانے تک
کتنے پل ‘کتنی صدیاں ہیں
اس سرحد سے اس سرحد تک
کتنی مسافت اور پڑی ہے
ان رستوں میں
کتنی بارشیں برس گئی ہیں
آنکھیں مری
تیری راتوں کو ترس گئی ہیں
آج کا مطلع
سمٹنے کی ہوس کیا تھی بکھرنا کس لیے ہے
وہ جینا کس کی خاطر تھا یہ مرنا کس لیے ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved