تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     08-10-2023

استقبال کی تیاریاں

یہ 1986ء کی بات ہے۔ اپریل کا پہلا ہفتہ گزر چکا تھا لیکن فضا میں موسمِ بہار کی خوشگوار کیفیت ابھی باقی تھی۔ پیپلز پارٹی کی شریک چیئر پرسن بے نظیر بھٹو تین سالہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آ رہی تھیں۔ ان کے سیاسی کارکن اور حامی اُن کے وطن واپسی پر استقبال کے لیے بے چین ہوئے چلے جا رہے تھے۔ پھر 10اپریل 1986ء کا دن طلوع ہوا‘ اس روز جب بینظیر بھٹو لاہور ایئر پورٹ پر اُتریں تو جو منظر دیکھنے میں آیا وہ ان کے اپنے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ ایئر پورٹ سے لے کر مینارِ پاکستان تک سر ہی سر تھے۔ کسی نے ہجوم کا تخمینہ دو لاکھ لگایا تو کسی نے دس لاکھ کہا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کے رُکے ہوئے جذبات کا یہ طوفان اس قدر حقیقی اور بے ساختہ تھا کہ اسے اعداد و شمار میں بیان کرنا مشکل تھا۔ اس فقید المثال استقبال نے ثابت کر دیا تھا کہ بے نظیر بھٹو اُس وقت عوام کی مقبول ترین لیڈر تھیں۔ یہ تاریخی استقبال صرف ایک فرد کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ اس تبدیلی کا استقبال تھا جو عوام اُس وقت چاہتے تھے۔ اسی طرح جب پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز پانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سال کی جلا وطنی ختم کرکے 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی ایئر پورٹ پہنچیں تو ان کا پھر سے فقید المثال استقبال ہوا۔ محترمہ کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پر عوام کا ایک جم غفیر موجود تھا۔ بے نظیر بھٹو کو طے شدہ پلان کے تحت کراچی ائیرپورٹ سے بلاول ہاؤس جانا تھا لیکن جیالوں کا ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرنے مختصرسے فاصلے کو انتہائی طویل بنا دیا۔ ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے جیالے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے کراچی پہنچے ہوئے تھے۔ دن بھر سفر کے بعد نصف شب کے قریب بے نظیر بھٹو کا قافلہ شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر پہنچا تو ایک زور دار دھماکے ہوا جس کے بعد یہ جشن ماتم میں تبدیل ہوگیا۔ 130کے قریب جیالوں نے اپنی جانیں گنوائیں لیکن اس استقبال نے ثابت کر دیا کہ عوام ایک بار پھر ملک کی قیادت محترمہ بینظیر بھٹو کے ہاتھ میں دینے کے لیے کس قدر بے چین تھے۔
ان دنوں ایک اور سیاسی شخصیت کی وطن واپسی اور استقبال کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ جدھر جدھر نظر پڑتی ہے‘ بڑے بڑے بل بورڈز‘ ہورڈنگز اور خوش رنگ بینرز سمیت اشتہارات کی بھر مار دکھائی دیتی ہے۔ دور دراز شہروں سے سیاسی کارکنوں کو استقبال کے لیے لاہور لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔یہ ہوتا ہے لیڈر سے عشق کہ لوگ تین ہفتے پہلے ہی گھروں سے باہر نکل آئے ہیں۔ وہ بھی کیا منظر ہو گا جب دیکھتی آنکھیں دیکھ رہی ہوں گی کہ پاکستان کے ہر شہر‘ تحصیل‘ قصبے اور گاؤں سے عوام لاہور ایئر پورٹ سے مینارِ پاکستان کی جانب رواں دواں ہوں گے۔ اکیس اکتوبرکا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی لاہور کی ہر نکڑ‘گلی اور سڑک پہلے سے بھی زیادہ جگمگ کر رہی ہو گی۔ سنا ہے کہ اس روز شہرِ اقتدار سے بھی سینکڑوں خاندان یہ تاریخی استقبال دیکھنے کے لیے لاہور پہنچیں گے تا کہ دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بتا سکیں کہ استقبال کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی اور ان سرویز کی کوئی حیثیت نہیں جو سیاستدانوں کی مقبولیت جاننے کے لیے کروائے جاتے رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی لگتا ہے کہ اسی جماعت کے اپنے کچھ لوگوں کو باہر سے آنے والی اس شخصیت کے آنے کی کوئی خاص خوشی نہیں بلکہ وہ تو شاید چاہتے ہیں کہ جس مہمان کا 1450 سے زائد دنوں سے انتظار کیا جا رہا تھا‘ اس کو خوفزدہ کرکے تمام پروگرام ناکام بنا دیے جائیں۔ بھلا یہ بھی کوئی تُک تھی کہ ایک ایسی لیڈر‘ جس کے گرد پوری جماعت کی سیاست گھومتی ہو‘ اس کے لاہور مینارِ پاکستان جلسۂ عام سے پہلے وارم اپ جلسے کے لیے لاہور کے مضافات میں ایک ایسی سڑک کا انتخاب کیا جائے جس کے ارد گرد کی ہر گلی‘ ہر چوک‘ ہر گھر کی دہلیز گزشتہ ڈیڑھ سال سے کھدائی کرکے کھلی چھوڑ رکھی ہو جس میں اب تک نہ جانے کتنے بچے‘ بوڑھے اور خواتین گر کر اپنی ہڈیاں‘ پسلیاں تڑوا چکے ہیں۔ آئے روز کی بارشوں سے گندے نالے کی شکل اختیار کرنے والی ان گلیوں کے مکینوں کے پہلو میں واقع سڑک پر یہ جلسہ رکھوانے کی کیا تُک تھی۔ پھر وہی نتیجہ نکلنا تھا جو سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ اب تو وہ صحافی بھی‘ جو اس جماعت کے کارکنوں سے بھی زیا دہ اس کے ہمدرد اور حامی ہیں‘ کفِ افسوس ملتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ لگتا ہے کہ جماعت کے اندر کے یہ لوگ تماشا دیکھنے کے موڈ میں ہیں کہ باہر سے آنے والی شخصیت کے بے پایاں استقبال کے لیے پارٹی کارکنان کیسے ایک دوسرے سے بازی لے جاتے ہیں۔ ایک شخص نے تو ترنگ میں آ کر یا اپنے بیان میں محض دلچسپی پیدا کرنے کے لیے یہاں تک کہہ دیا کہ جو بھی زیادہ بندے لے کر مینارِ پاکستان پہنچے گا اسے موٹر سائیکل دیا جائے گا۔ اس اعلان سے ان کی جماعت کی سیاست کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے کیونکہ کل تک ارد گرد کی آبادیوں کے سینکڑوں لوگ جو لاہور میں اس لیے اکٹھے ہو جایا کرتے تھے کہ انہیں بریانی کی بڑی پلیٹ اور مشروب کی بوتل ملنے کی آس ہوتی تھی‘ جس کے لیے وہ صبح سے ہی جلسہ گاہ میں آ کر بیٹھ جاتے تھے لیکن بات چونکہ اب بریانی سے بڑھ کر تین لاکھ روپے مالیت کی موٹر سائیکل تک چلی گئی ہے تو پورے کے پورے خاندانوں نے مینارِ پاکستان جانے کے لیے اکٹھ کر لیا ہے‘ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ان کے حصے میں موٹر سائیکل آ جائے۔
موٹر سائیکل کا اعلان کیا ہوا کہ لاہور کے دو ایسے ادارے جن کے پاس درجہ چہارم کے بیس ہزار سے زائد ملازم کام کرتے ہیں‘ ان کے عہدیداورں نے اپنے اپنے بندوں کے فون نمبر لے کر ان کی فہرستیں مرتب کرنا شروع کر دی ہیں تاکہ موٹر سائیکل کا انعام ان کے حصے میں آ جائے۔ گوگا دانشور کہتا ہے کہ موٹر سائیکل دینے کا اعلان سوائے ایک جھانسے کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ وہ کہتا ہے کہ دیکھتے رہنا یہ اسی طرح ہو گا جیسے آئے روز کسی نہ کسی سپر سٹور پر بڑی گاڑی سمیت کئی موٹر سائیکلوں کا لالچ دے کر تین ماہ تک اپنے سٹور کی ہر ناکارہ شے بیچ دی جاتی ہے لیکن جب انعام نکالا جاتا ہے تو پتہ ہی نہیں چلتا کون سا خوش قسمت ہے جس کا انعام نکلا ہے‘ جس کی ایک مثال تین ہفتے پہلے کوئٹہ کے ایک سپر سٹور میں دیکھی جا چکی ہے۔ گوگے کے بقول یہ سب مینارِ پاکستان کے جلسہ میں عوام کا رش بڑھانے کی چالیں ہیں۔ اس کی بات اپنی جگہ لیکن شنید ہے کہ لاہور جلسے میں تین ہزار بندے لانے والے کے لیے 660 سی سی اور پانچ ہزار بندے لانے والے کے لیے ہزار سی سی گاڑی تحفے میں دینے کا اعلان ہونے والا ہے۔ فیصل آباد میں تو سننے میں آ رہا ہے کہ اگر کوئی شخص جلسے میں گنتی کروا کر پانچ سو بندے لے کر شریک ہو گا تو اسے عمرے کا ٹکٹ دیا جائے گا۔ موٹر سائیکلوں‘ گاڑیوں اور عمرے کے ٹکٹ جیسی خوش کن ترغیبات پر مشتمل انعامی سکیموں کی خبریں سننے کے بعد کھڑپینچ قسم کے لوگ انگلیوں پر حساب کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ اگر وہ اپنی پوری برادری کا منت ترلا کریں تو کتنے لوگ مینارِ پاکستان جلسے یا فیصل آباد کے لیڈر کے جلوس کا حصہ بن سکتے ہیں جس سے ایک نئی گاڑی اس کے گھر کے باہر کھڑی ہو جائے گی لیکن یہ بیوقوف بھول جاتے ہیں کہ ان کے شریک ان کے گھر کے باہر کھڑی نئی گاڑی کیسے برداشت کریں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved