علم و فن کی دنیا میں تازہ ترین انٹری مصنوعی ذہانت کی ہے۔ ویسے تو مصنوعی ذہانت کم و پیش پانچ عشروں سے ہمارے ساتھ ہے مگر اب معاملہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والے آن لائن اور فزیکل ٹُولز نے انسان کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کام کا مستقبل کیا ہوگا۔ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ بات کچھ یوں بھی ہے کہ چار پانچ عشروں تک انسانوں کو تخلیقی جوہر سے کام لینے کی عادت نہیں رہی تھی۔ سب کچھ ٹیکنالوجیز کے حوالے کرنے کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ اب اچانک یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکتا ہے یا نہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ تخلیقی انداز سے سوچنے کے قابل رہا بھی ہے یا نہیں۔
امریکا کی معروف ماہرِ نفسیات لورین لیفر نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مصنوعی ذہانت بہت تیزی سے پَر پھیلارہی ہے اور اس حوالے سے شدید اضطراب کا پیدا ہونا بھی فطری امر ہے۔ خبریں آرہی ہیں کہ مصنوعی ذہانت ملازمتیں کھارہی ہیں۔ دفاتر میں بہت سے کام مصنوعی ذہانت والے ٹُولز کی مدد سے کیے جانے لگے ہیں۔ اسکے نتیجے میں متعلقہ افراد کو رخصت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مصنوعی ذہانت تمام ہی انسانوں کی چُھٹّی کردے گی مگر ہاں‘ اس حوالے سے شدید تحفظات ضرور پائے جاتے ہیں۔
کئی تجربات سے ثابت ہوچکا ہے کہ مصنوعی ذہانت والے ٹُولز انسانی ذہانت کے مقابلے میں زیادہ کارگر انداز سے کام کرتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں تنوع بھی غیر معمولی ہے۔ معروف جریدے ''سائنٹیفک رپورٹس‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ایک آن لائن تجربے میں 256 افراد کو چار چیزیں دے کر 30 سیکنڈز دیے گئے جن کے دوران انہیں بتانا تھا کہ ان چار چیزوں کی مدد سے وہ کیا چیز تیار کرنا تجویز کرسکتے ہیں۔ بکس‘ رَسی‘ پنسل اور موم بتی کے بارے میں وسیع البنیاد لینگویج ماڈلز سے بھی رائے طلب کی گئی۔ انسانوں اور مشینوں کے درمیان اس مقابلے کا جائزہ مشینوں اور انسانوں کو الگ الگ لینا تھا۔ دونوں نے اتفاقِ رائے سے وسیع البنیاد لینگویج ماڈلز کی کارکردگی کو زیادہ متاثر کن قرار دیا کیونکہ ان کی تخلیقی صلاحیت زیادہ اجاگر ہوئی تھی جبکہ آن لائن شرکا اپنا تخلیقی جوہر نمایاں طور پر پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
بہت سے شعبوں میں مصنوعی ذہانت والے آلات زیادہ نمایاں طور پر بہتر کارکردگی کا اظہار کر رہے ہیں۔انسانوں کیلئے ان سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ مشین بہرحال جذبات سے عاری ہوتی ہے جبکہ انسان خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔ کام کے دوران بھی ذہن الجھا ہوا رہتا ہے۔ مشینوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ کسی کمپیوٹر کو اگر کسی کام پر لگائیے تو وہ اپنا کام کرتا چلا جاتا ہے۔ یہی حال روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کے حامل دیگر آلات کا بھی ہے۔ روبوٹ کو جو حکم دیا جائے یا جو پروگرام فیڈ کردیا جائے اسکے مطابق کام کرتا رہتا ہے۔ وہ ادھر اُدھر کی کسی بھی بات میں اُلجھتا ہے نہ بے جا خدشات ہی پالتا ہے۔ دنیا بھر میں علم و فن سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پروفیشنلز شدید ذہنی دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ انکے کریئر داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ شوبز‘ میڈیا اور تعلیم کے شعبوں سے وابستہ ہزاروں پروفیشنلز کی ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انکے مقابلے میں مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کام کرنے والے آلات کی کارکردگی عمدہ رہی ہے۔ اب نیوز اینکر بھی مصنوعی ذہانت والے آگئے ہیں اور وائس اوور کیلئے بھی انسانوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہاں‘ مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کرائے جانے والے وائس اوور میں جذبات نہیں ہوتے۔ مشینی سرد مہری صاف محسوس ہوتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے حوالے سے شدید ذہنی دباؤ محض ملازمت جانے کے خوف کی بنیاد پر نہیں‘ بہت سوں کو ایسا لگتا ہے کہ پوری زندگی ہی داؤ پر لگ رہی ہے۔ یہ تاثر کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ مصنوعی ذہانت پنجے گاڑتی جارہی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی ایریا میں کام کرنے والی ماہرِ نفسیات میری ایلورڈ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے لوگ بڑی تعداد میں آرہے ہیں جو مصنوعی ذہانت سے بہت پریشان اور شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ انہیں ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے آن لائن ڈیٹا کے چرائے جانے اور غیر قانونی یا غیر اخلاقی طور پر بروئے کار لائے جانے کا خوف بھی لاحق ہے۔ وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ کہیں ان کی انسانیت ہی داؤ پر نہ لگ جائے۔ یہ شدید ذہنی دباؤ دل پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ میری ایلورڈ کا کہنا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز دینے کیلئے تھوڑا سا ذہنی دباؤ کارگر ثابت ہوتا ہے تاہم یہ دباؤ حد سے بڑھے تو سبھی کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔
مصنوعی ذہانت ڈرانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس سے ڈرنا فطری امر ہے۔ یہ خوف بہت کچھ دے بھی سکتا ہے۔ انسان اگر اپنے تخلیقی جوہر کو بروئے کار لانا چاہتا ہے تو اسے جاگنا ہوگا‘ ہوش مندی کے ساتھ اس بحران کا سامنا کرنا ہوگا۔ جو کچھ انسانی ذہن کے پردے پر ابھر سکتا ہے وہ کسی اور کیلئے ممکن نہیں۔ مصنوعی ذہانت بھی تو انسان ہی کی پیدا کردہ ہے۔ مشینی کلچر کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہر اعتبار سے انسان کی شان کے خلاف ہے۔ مصنوعی ذہانت سے اتنا ہی خوف محسوس کرنا چاہیے جو ذہن کو متحرک کرنے اور تخلیقی جوہر کو بروئے کار لانے کی راہ دکھانے کیلئے کافی ہو۔
نیدر لینڈز (ہالینڈ) کی یونائٹیڈ نیشنز یونیورسٹی میں اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ انسٹیٹیوٹ آن انوویشن اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرِ نفسیات سانائے اوکاموتو کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق خوف کے معاملے میں سیاق و سباق بہت اہم ہے۔ انسانی مزاج کا معاملہ یہ ہے کہ جب بھی علم و فن کے حوالے سے کوئی نیا بحران سامنے آتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیتا ہے۔ ڈھائی سو سال قبل جب یورپ میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا تھا تب بھی انسان پریشان ہو اٹھا تھا کہ اب اس کا کیا ہوگا۔ اسے ایسا لگا تھا کہ مشینیں اس کے تمام امکانات کو نگل لیں گی۔ مشینی پیداوار کا حجم بھی زیادہ تھا اور معیار بھی بلند تھا۔ انسان کا پریشان ہونا فطری تھا مگر تمام خدشات درست ثابت نہ ہوئے۔ مشینوں نے انسان کیلئے الجھنیں پیدا کیں تاہم انسان کیلئے اپنے آپ کو ثابت کرتے رہنے کا موقع موجود رہا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب صنعتی انقلاب کی رفتار تیز ہوئی تب بھی ایسے ہی خدشات نے جنم لیا۔ اس کے بعد 1950ء کے عشرے میں کمپیوٹرز نے انٹری دی تو انسان پھر گھبرا اٹھا۔ اسے ایسا لگنے لگا کہ کمپیوٹر سارے کام سنبھال لیں گے اور انسان صرف منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائی مرحلے میں کمپیوٹرز نے انسانوں کے بہت سے کام سنبھالے اور بخوبی انجام دینا شروع کیا تاہم انتہائی بُری صورتِ حال کے حوالے سے ذہنوں میں جو کچھ پایا جارہا تھا ویسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب آئی ٹی میں غیر معمولی پیش رفت نے ہائی ٹیک کے شعبے میں قیامت خیز نوعیت کی تیزی اور قطعیت پیدا کردی ہے۔ اب یہ سوچا جارہا ہے کہ انسان کہیں گوشہ نشین ہی ہوکر نہ رہ جائیں۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ انسان بہرحال انسان ہے اور مشینوں سے افضل ہے۔ مشینیں اسی کی بنائی ہوئی ہیں۔ اس دنیا کی سکیم میں ''ہیومن فیکٹر‘‘ مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ مشینوں سے کام لینا انسان کا کام ہے۔ انسان ہی کو طے کرنا ہے کہ مصنوعی ذہانت اور دیگر جدتوں کو کس طور بروئے کار لانا ہے کہ دنیا مزید خوبصورتی سے ہمکنار ہو۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی ایسی پیش رفت ضرور ہوتی ہے جو انسان کو ڈراتی ہے‘ پریشان کرتی ہے۔ اس وقت ہائی ٹیک اور مصنوعی ذہانت نے مورچہ سنبھال رکھا ہے۔ انسان کیلئے ایک بار پھر فیصلہ کن مرحلہ آیا ہے۔ اسے ثابت کرنا ہے کہ یہ کائنات اس کیلئے مسخر کردی گئی ہے۔ کوئی بھی چیز انسان سے بڑھ کر نہیں‘ اس کا متبادل نہیں۔ مشینی ذہانت اس دنیا کی رنگینی بڑھانے کے معاملے میں انسانی ذہانت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved