کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ یہ درویش آسٹریلیا میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد واپس آرہا تھا۔ جہاز نے سنگاپور لینڈ کیا جہاں سے ہم دوسری پرواز کے ذریعے چند گھنٹے قیام کرنے کے بعد کراچی کی طرف روانہ ہو گئے۔ جہاز ہوا میں فراٹے بھر رہا تھا جب ہلکے سے دھماکے کی آواز سنائی دی۔ کپتان نے جہاز کا رُخ فوراً تبدیل کر کے واپسی کا اعلان کر دیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ 20منٹ تک ہر طرف خاموشی طاری رہی۔ سب خوف زدہ اور انجانے خدشات میں گھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر مسافر اپنی سیٹ کے ساتھ چمٹ کر بیٹھا ہوا ہے‘ اپنی جگہ سے جنبش کرنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔ یہ سفر ہمارے طویل فاصلے کے سفروں میں سے ایک تھا اور ہم نے ہوائی جہازوں کو کئی طرح کے موسمی حالات میں سے گزرتے‘ ہچکولے کھاتے‘ اوپر نیچے جاتے جیسے گاڑی ہمارے دیہات کی سڑکوں پر فُل سپیڈ کے ساتھ گزرتی ہے تو ایسے جھٹکے لگتے ہیں‘ دیکھا تھا۔ ایسے میں بندہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ بس خود کو تقدیر کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑتا ہے۔
میرے ساتھ والی سیٹ پر سوٹ میں ملبوس‘ گرچہ کوئی زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں مگر آسٹریلیا میں کئی دہائیوں سے آباد مسافر اپنے پرانے وطن کا خواب آنکھوں میں سجائے واپس آ رہا تھا۔ کپتان کے اعلان کے ساتھ خاموشی طاری ہونے سے پہلے جو ہم نے باتیں کیں‘ اس میں اس کے گاؤں کی یادیں‘ پرانے دوست عزیزوں اور رشتہ داروں کو دوبارہ دیکھنے کا اشتیاق نمایاں تھا۔ کچھ دیر وہ بھی خاموش رہا پھر اس نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا کہ ہمارا مقدر ہی ایسا تھا۔ ایسے بے بسی کے عالم میں کوئی اور کیا کہہ سکتا ہے یا کر سکتا ہے۔ جہاز کو چلانے والے کچھ فیصلہ کرتے ہیں کہ طوفان میں گھر جائیں یا فنی خرابی ہو جائے تو وہ کیا کریں گے۔ مسافر تو اس معاملے میں بے بس ہوتے ہیں۔ خدا خدا کر کے جہاز واپس سنگاپور اُترا۔ چند گھنٹوں تک ہماری خاطر مدارت کی گئی اور پھر کمپنی نے ایک اور جہازکا بندوبست کرکے ہمیں کراچی پہنچا دیا۔ ہمارا مقدر اچھا تھا کہ تقریباً 35سال بعد بھی ہم زندہ ہیں۔
مگر قوم کی بے بسی دیکھ کر اس جہاز میں بیٹھے مسافروں کی حالت زار کا نقشہ ذہن میں اُبھر آتا ہے۔ ہمارے سیاسی جہاز اور کپتان بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ سنا ہے کہ اب سب پرانے کپتانوں کو جہاز میں بار بار فنی خرابیاں پیدا کرنے کی پاداش میں فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اعلان کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اندر ہی اندر سب کچھ آسانی سے طے کرنے کی سب سہولیات موجود ہیں۔ پرانے والے کتنا شور کریں گے اور کر ہی کیا سکتے ہیں کیوں کہ کل تک وہ خود زیر ملازمت تھے۔ انہوں نے خوب اپنے حق میں قانون سازی کی تاکہ سب داغ دھبے‘ قانون‘ عوام اور عدالت کی نظر سے ہمیشہ کے لیے دور کر دیے جائیں۔ یہ رعایت دی گئی تھی مگر پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح نیب قانون کی آڑ میں دفن کردہ مقدمات دوبارہ اپنی جگہ موجود ہیں۔ اور یہ بھی تو ہے کہ ملازمت کو باعثِ عزت و وقار سمجھ کر اختیار کرنے والے اب عوام کے سامنے کیا بیانیہ تراش سکتے ہیں؟ اب ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے کیا جواز بچا ہے؟ آج کے دور میں عوام کو بیوقوف سمجھنے والوں سے زیادہ کوئی اور بیوقوف نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ملک کے عوام اب یہ ملازمتوں‘ حکومتوں اور ان کی کرپشن اور بالا دست لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرکے کھوکھلی نعرے بازی اور بے تکے بیانوں سے خوب واقف ہو چکے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر کسی نام نہاد بڑے لیڈر کی باتوں میں تضادات ہی تضادات ہوں اور میڈیا پرانے اور نئے بیانوں کو ایک ہی سکرین پر بار بار دکھا رہا ہو تو کوئی عقل کا اندھا ہی اس پر بھروسا کرے گا۔ یہ صورتحال ہمارے بڑے سیاسی گھرانوں کو اور نظریۂ ضرورت کا اٹوٹ انگ بنا کر کام چلانے والے ماہرین کو بخوبی معلوم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی افادیت ایک حد تک‘ ایک وقت تک اور کچھ مخصوص حالات تک رہتی ہے۔ تازہ دم سیاسی دستے ہر وقت سیاسی نوکری کے لیے جیبوں میں درخواستیں‘ سفارشوں کے ٹیلی فون نمبر اور کہاں کس سے بات کرنی ہے‘ تمام معلومات ساتھ رکھتے ہیں اور ملازمتوں کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ اس وقت جو صورتحال نظر آرہی ہے اس میں 16ماہی حکمرانوں کے ستارے گردش میں ہیں۔ وہ خود کئی تضادات اور کنفیوژن کا شکار ہیں کہ سامنے سمندر ہے جس میں چھلانگ لگائیں تو بچ نہیں سکتے اور پیچھے عوام کا طوفان ہے جو خاموشی میں بھی پُراسرار طاقت کا مظہر ہے ۔ اور اس کی باگیں جس کے ہاتھ میں اب ہیں‘ اس کے بارے میں اب بات کرنا اور نام لینا خطرے سے خالی نہیں۔ عقل‘ دانش مندی‘ باصلاحیت لیڈر شپ اور ایمانداری کے جو مظاہرے 16ماہ میں دکھائی دیے‘ اس کی نشانیاں بہت دیر تک ہماری معیشت اور حکومتی اداروں کی کارکردگی میں نظر آتی رہیں گی۔ ایسے حالات ہوں تو وہ بھی اپنی درخواستیں تو ضرور جمع کروائیں گے کہ دیکھیں ان پر کتنا غور ہوتا ہے۔
اشارے ایسے مل رہے ہیں کہ جنہوں نے طوفان کا مقابلہ کرنا ہے وہ اپنی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ ابھی تک کر رہے ہیں۔ تو پھر یہ فیصلہ بھی وہ خود کریں گے کہ اگلے سال کون ملک کا سیاسی جہاز چلائے گا۔ کچھ دن تو ہلکی پھلکی خبریں آپ نے دیکھی کہ ایک پارٹی کے تیسرے درجے کے رہنما اپنے گلوں میں نئے رنگوں کے مفلر ڈال کر تصویریں بنا رہے تھے۔ اچانک ہی یہ سلسلہ تھم گیا۔ بلوچستان کی طرف تو ایک پارٹی نظریں جمائے ہوئے تھی کہ وہاں کی اکثریت کو وڈیروں کی طرح رنگین ٹوپی پہنا کر تعداد قومی اسمبلی میں بڑھا دی جائے گی۔ وہ سلسلہ بھی اب دم توڑ گیا۔ ہر طرف نئی دھڑے بندی اور اس کا عمل خاموشی سے جاری ہے جس کا نتیجہ اس کے علاوہ کیا ہوگا کہ کسی جماعت کی نہ اکثریت ہو اور نہ وہ عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ کر سکے۔ یاد ہے نا 16 ماہ کی حکومت میں 13جماعتیں اور 80وزیر مشیر تھے۔ پارلیمان اور اسمبلی میں گروہ اور دھڑے ہی رہ جائیں تو ان کے قانونی طور پر جائز ہونے کا دائرہ محدود اور حالات کو قابو میں رکھنے اور ملک کو کوئی سمت دینے اور ضروری اصلاحات کرنے کی صلاحیت کسی اور کی محتاج ہو کررہ جائے گی۔
ملاوٹی نظاموں میں ایسا ہی ہوتا ہے جس طرح یہاں ہوتا آ رہا ہے۔ ایسے نظام میں سب بظاہر بااختیار ہوتے ہیں مگر درحقیقت کوئی بھی نہیں ہوتا۔ بظاہر فیصلے پارلیمان میں‘ قانون سازی بھی وہاں اور پالیسیوں کا تعین بھی وہیں ہوتا ہے مگر اصل طاقت کہیں اور ہوتی ہے۔ یہ کام ایسے ہی چلتا ہے اور ہمارے سب حکمران طبقات لگتا ہے کہ نہ صرف اسی ایک صفحے پر ہیں بلکہ کئی بار اس پر دستخط بھی کر چکے ہیں‘ اس لیے کسی کو دُم مارنے کی مجال نہیں۔ تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہم صرف باتیں کرتے وہ جب تک کچھ سکت باقی ہے‘ کرتے رہیں گے۔ ہمارا مقدر ہی ایسا تھا۔ آخری بات پر ذرا غور کریں۔ یہ چیز جو مقدر ہوتی ہے وہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے سیاسی لوگ گماشتے سامنے لانے کے بجائے جمہوریت اور ملک کے مفاد میں چند آئینی اصولوں پر اتفاق کرکے ان بحرانوں سے نکالیں۔ دنیا بدل چکی ہے‘ وقت بدل چکا ہے۔ ہمیں بھی تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔ شاید مقدر سنوارنے کا لمحہ اب بھی موجود ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved