تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     09-10-2023

یوم کپور پر طوفان الاقصیٰ نے گولائتھ کا غرور توڑ ڈالا

اسرائیلی کیلنڈر پر سب سے بڑی عید قومی چھٹی کے طور پر منائی جاتی ہے۔ اسے ہیبرو زبان میں یومِ کپور کہتے ہیں یعنی ایسی فتح جب دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا گیا ہو۔ سات اکتوبر 2023ء بروز ہفتہ اسرائیلی کیلنڈر کی اسی عید کا دن تھا۔ اگر ہم انیسویں صدی کے آغاز میں جائیں تو اس وقت خاموش فلموں کا دور تھا۔ مغرب کی فلم انڈسٹری امریکہ اور انگلینڈ تک محدود تھی۔ ان دونوں ممالک میں جو خاموش فلمیں بنتی تھیں‘ ان میں اسرائیل کے ریمبو کو گولائتھ (Goliath) بنا کر پیش کیا گیا جو ایک مہذب قبیلے کا نوخیز جنگجو ہے۔ گولائتھ کا مقابلہ فلسطین سے ہے جو غیرمہذب اور جنگلی غاروں میں رہنے والا ہجوم ہے‘ تہذیب سے کٹا ہوا‘ انتہائی بزدل۔ اس موضوع پر ابھی گوگل کریں توآپ کو لا تعداد پروپیگنڈا فلمیں ملیں گی جس کا پہلا مقصد پوری دنیا سے یہودی آباد کاروں کو فلسطین کی زمینوں پر قبضے کی طرف مائل کرنا تھا۔ سال 1929ء سے شروع کرکے 1945ء تک اسرائیل محض ایک نقشے یا خیال سے زمینی حقیقت کی طرف سفر مکمل کر چکا تھا۔
مغرب کے اس ناجائز بچے کے فادر آف دی نیشن کے طور پر ایک یہودی صحافی کا انتخاب کیا گیا جو برطانیہ سے عبرانی زبان میں اخبار شائع کرتا تھا۔ سال 1948ء میں برطانیہ کی رائل ایئر فورس کے جہاز میں بیٹھ کر بن گورین فلسطین کے شہر تل ابیب میں اُترا اور اسرائیلی ریاست کا اوّلین سربراہ بنا دیا گیا۔ دوسری جانب فلسطین مزاحمت کاروں نے نئے صہیونی آبادکاروں کے خلاف فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنا شروع کر دی۔ ان گوریلا کارروائیوں کے حوالے سے فلسطینی مردوں میں جناب یاسر عرفات الفتح کے سربراہ کے طور پر عالمی شخصیت بن کر ابھرے جبکہ خواتین میں سے لیلیٰ خالد سب سے معروف فلسطینی گوریلا لیڈر کے طور پر عالمی توجہ کا مرکز بنی۔ آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد کا اگلا لینڈ مارک 1967ء کا سال ہے۔ جب اسرائیل نے بیت المقدس کے شہر پر قبضہ کیا۔ پھر 1973ء میں اُردن‘ مصر اور شام نے اسرائیل کے خلاف چوتھی عرب جنگ لڑی۔ مصری اسے حرب الرمضان کہتے ہیں جس کے بعد سے اسرائیل سکیورٹی کے اعتبار سے دنیا کا ناقابلِ تسخیر ملک کہلانے لگا۔ اس وقت فلسطین کے جس علاقے میں حماس کی حکومت قائم ہے وہاں سے اسرائیلی گولائتھ کے خلاف تین جنگیں فلسطین کی آزادی کے لیے پچھلے دس سال میں لڑی جا چکی ہیں جس میں سے آخری جنگ رواں سال مارچ میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں اسرائیل کے مظالم نے اسرائیلی گولائتھ کا ساری دنیا میں منہ کالا کر دیا کیونکہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں غزہ کی پٹی اور یروشلم شہر میں خالی ہاتھ مسلمان بچوں اور عورتوں کو کیمروں کے سامنے بِلا جواز بے رحمی سے قتل کیا۔ اس جنگ کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ پہلی بار سوشل میڈیا نے مغرب کے متعصب مین سٹریم میڈیا کی بالا دستی اور مناپلی کا جنازہ نکال کے دکھا دیا۔
حالیہ یومِ کپور پر یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کیونکہ تاثر اور دعویٰ یہ تھا کہ اسرائیل پہ کہیں سے بھی کوئی حملہ نہیں کر سکتا۔ سپیریئر ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر صہیونی اسرائیلی لیڈروں کا کہنا تھا کہ اسرائیل Impregnable اور Impenetrable ریاست بن چکا ہے۔ خاص طور سے غزہ کی پٹی مغربی کنارے پر اسرائیل نے 10‘ 11ماہ میں اندر جا کر جو بے رحمانہ حملے اور انتقامی عسکری کارروائیاں کیں اور فلسطینی شہری قتل کیے۔ ان کے بعد تاثر یہی بنایا گیا کہ فلسطینی مزاحمت کی کمر توڑ دی گئی ہے مگر دو دن پہلے ہفتے کی صبح ناقابلِ تسخیر ہونے کا سارا بھرم بھک سے اُڑ گیا۔ مغربی میڈیا نے اسرائیل پر فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملے پر جو سرخیاں جمائی اُن میں سے چند یوں ہیں۔ سال ہا سال بعد فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے اندر زمینی‘ فضائی اور بحری حملہ کر دکھایا۔ ایک اور سرخی میں کہا گیا اسرائیل فلسطینیوں کے سرپرائز پر حیران اور ہکا بکا رہ گیا۔ فلسطین کی آزادی کے متوالوں نے اسرائیل کے اندر جو حیران کُن الاقصیٰ طوفان آپریشن کیا اُس کے چند ناقابلِ یقین پہلو یہ ہیں۔
الاقصیٰ آپریشن کا پہلا ناقابلِ یقین پہلو:آزادی پسند فلسطینیوں کی جانب سے سات ہزار سے زیادہ راکٹ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں برسائے گئے۔ اس طرح اسرائیل کے اندر مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں پہلی بڑی جنگ شروع ہے جسے مختلف سوشل میڈیا سائٹ اور ٹی وی چینل ہفتے اور اتوار کی درمیانی پوری رات لائیو دکھاتے رہے۔ صرف ہفتے کے دن تین سو سے زیادہ اسرائیلی اس جنگ میں مارے گئے اور اڑھائی سو سے زیادہ فلسطینی شہری اس جہاد میں شہید ہوئے۔ عالمی انگریزی نیوز ایجنسیوں اور اخباروں کے مطابق یہ جنگ اسرائیل کے اندر 25سے زیادہ مقامات پر لڑی جا رہی ہے جس میں اسرائیل کے چار ملٹری ائیر بیس بھی شامل ہیں۔ کئی کمانڈ سینٹر حملے کی زَد میں ہیں اور 20کے قریب اہم فوجی اہداف پر فلسطین مجاہد حملہ آور ہیں۔ اس جنگ میں اسرائیل کس قدر بد حواس اور پریشان ہے اس کا اند ازہ امریکہ‘ انگلستان اور بعض پرو اسرائیل یورپی ملکوں کی طرف سے اسرائیل کی یک طرفہ حمایت اور مالی امداد کے فوری اعلانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
الاقصیٰ آپریشن کا دوسرا ناقابلِ یقین پہلو: حماس کے لیڈر نے ویسٹ بینک اور عرب ممالک سے اس جد و جہد میں عملی طور پر شامل ہونے کا مطالبہ کیا۔ حماس کے ڈپٹی چیف صالح الاروری نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اسرائیلی فوج کے جو 70سے زیادہ لوگ پکڑے ہیں‘ ان میں جرنیل بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اپنے ایک جرنیل نمرود الوانی کی گرفتاری سمیت اپنے فوجیوں کو جنگی قیدی بنائے جانے کا دعویٰ تسلیم کر لیا ہے۔ اسرائیل کے کوسٹل ٹائون ذکیم کی نیول بیس پر بھی حماس کے لڑاکوں نے قبضہ کر لیا۔ تاریخ میں پہلی بار غزہ کی پٹی سے دُور دراز علاقے یروشلم اور سعودی عرب کے تبوق بارڈر کے عین سامنے شہر تل ابیب پر بھی دن اور رات کو حملے جاری رکھے۔ لڑاکوں نے اسرائیلی گن شِپ ہیلی کاپٹر گرائے جانے کی بھی وڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی۔
اتوار کے روز علی الصباح اسرائیل کے پولیس چیف یعقوب شب تائی نے پریس بریفنگ میں بتایا ابھی تک اسرائیل کے اندر مختلف شہروں سمیت21مقامات پر لڑائی جاری ہے جس میں فلسطینی مزاحمت کار بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ایک خبر رساں ایجنسی کے رپورٹرز نے گواہی دی ہے کہ انہوں نے غزہ میں مقبوضہ اسرائیلی ٹینک اور مقبوضہ اسرائیلی بکتر بند گاڑیاں حماس کے مجاہدوں کے زیر استعمال دیکھی ہیں۔
قصہ مختصر۔ فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ کبھی بھی حتمی ہے نہ مستحکم۔ حضرتِ اقبال آج ہوتے تو اپنے اس شعر پر سرشار ہوتے۔
اُٹھا ساقیا! پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved