غیررجسٹرڈ اور غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر 2023 ء تک ملک چھوڑنے کا حکم دینے کی تازہ ترین پالیسی کی وجہ سے سیاسی توجہ ایک بار پھر افغان پناہ گزینوں پر مرکوز ہے۔ حکومتِ پاکستان نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ تمام غیر قانونی غیر ملکی جو رضاکارانہ طور پر جانے کی آخری تاریخ کی تعمیل نہیں کرتے انہیں گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا جائے گا۔ اس مقصد سے یکم نومبر سے سرچ آپریشن شروع کیا جائے گا۔ چونکہ افغان مہاجرین پاکستان میں رہنے والے غیر ملکیوں کا تقریباً 97 فیصد ہیں‘ لہٰذا توجہ غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی افغان مہاجرین پر مرکوز ہے۔ کچھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان میں سے ایک چھوٹی سی تعداد افغانستان جانے لگی ہے۔ تاہم‘ بہت سے لوگوں سے رضاکارانہ طور پر جانے کی توقع نہیں کی جاتی ہے کیونکہ ان میں سے ایک بڑی تعداد پچھلے بیس سالوں سے پاکستان میں رہ رہی ہے۔ کچھ غیر رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو ان کے پاکستانی رشتہ داروں اور دوستوں کی حمایت حاصل ہے جو انہیں اپنے توسیعی خاندانوں کے ممبروں کے طور پرظاہر کریں گے۔
پاکستان کا غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ردِعمل ہے جس میں افغانستان سے دہشت گرد شامل ہیں۔ پاکستان کو اگست اور ستمبر میں ماضی کی صورتحال کے مقابلے میں زیادہ دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان واقعات کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر خودکش بمبار‘ سڑک کے کنارے یا موٹرسائیکل بم نصب کرنے والے افغانستان سے آئے تھے۔ ان سب کے مقامی روابط اور معاونت کا نظام موجود تھا جس میں افغان مہاجرین اور مقامی پاکستانی شامل تھے۔ جب حکومت نے یہ مسئلہ افغان حکومت کے سامنے اٹھایا اور مطالبہ کیا کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال نہ کیا جائے‘ حکومتِ پاکستان نے ٹی ٹی پی ‘داعش اور ان سے وابستہ گروہوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی کفالت کرنے کیلئے نامزد کیا تو کابل میں افغان طالبان کی حکومت کا ردِعمل پاکستان کے لیے مددگار نہیں تھا کیونکہ اس نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں پر قابو پانے کا عہد نہیں کیا تھا۔ کابل حکومت کے ترجمان نے استدلال کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اگرچہ پاکستان کابل حکومت سے یہ مطالبہ کرتا رہا کہ وہ کسی بھی گروپ کو پاکستان میں براہ ِراست یا بالواسطہ طور پر دہشت گردی کی سرگرمیوں کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔ اس کے بعد حکومتِ پاکستان نے پاک افغان سرحدی سلامتی کیساتھ ساتھ داخلی سلامتی کو مضبوط بنانے کیلئے کچھ اقدامات اپنانے کا فیصلہ کیا۔ غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ بہر حال نئی پناہ گزین پالیسی کو نافذ کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔
موجودہ پناہ گزینوں کے مسئلے کا سراغ 1978-79ء میں لگایا جا سکتا ہے۔ اپریل 1978ء میں نور محمد ترکئی کے کابل حکومت پر قبضے کے ایک سال کے اندر ہی کم تعداد میں افغان پناہ گزینوں نے پاکستان آنا شروع کر دیاتھا۔ وہ ترکئی حکومت کی مارکسسٹ پر مبنی سماجی و اقتصادی پالیسیوں سے الگ تھلگ تھے۔ تاہم‘ زیادہ تر افغان پناہ گزین 1980ء کی دہائی میں آئے تھے۔ دسمبر 1979ء کے آخری ہفتے میں سوویت فوجیوں نے افغانستان میں مارچ کیا اور حفیظ اللہ امین کو نکال کر اور ببرک کارمل کو افغانستان کا صدر مقرر کرکے حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا۔ سوویت فوجیوں کے خلاف اسلامی- افغان مزاحمت پاکستان نے امریکہ اور قدامت پسند عرب ریاستوں‘ خاص طور پر سعودی عرب کے تعاون سے بنائی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 1980-89ء میں تقریباً 40 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے۔ ان افغان مہاجرین کا پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری مہمان نوازی کے ساتھ جوش و خروش سے استقبال کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کی ملحقہ تنظیموں نے ان پناہ گزینوں کو رجسٹر کرنے‘ اپنے کیمپ قائم کرنے اور انسانی امداد فراہم کرنے کیلئے پاکستانی حکام کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ افغانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے رشتہ داروں اور دوستوں اور کئی غیر سرکاری تنظیموں‘ خاص طور پر کچھ مذہبی جماعتوں کے ساتھ رہی‘ اس امر نے بھی ان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کی۔ سوویت فوجیوں کا انخلا مئی 1988 ء میں شروع ہوا جو فروری 1989 ء میں مکمل ہوا۔ انخلا کے بعد کی مدت میں‘ افغان پناہ گزینوں کی سست واپسی شروع ہوئی جو پہلی طالبان حکومت (1996-2001ء) کے سالوں کے دوران جاری رہی۔ تاہم‘ زیادہ تر افغان پناہ گزین پاکستان میں پناہ گزین کیمپوں کے اندر اور باہر رہے۔ دہشت گردی کے خلاف اپنی خود ساختہ جنگ کے ایک حصے کے طور پر‘ اکتوبر 2001 ء میں امریکہ کی افغانستان میں فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد افغان مہاجرین کی ایک نئی لہر پاکستان میں آئی۔ اس کے بعد سے‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مہاجرین کی دو طرفہ ٹریفک جاری ہے۔ سرکاری معلومات کے مطابق 2023ء میں پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے نظام کے ساتھ 13 لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے علاوہ آٹھ لاکھ اسی ہزارافغان مہاجرین کو افغان شہریت کارڈ دیے گئے ہیں۔ وہ نئی پالیسی کا ہدف نہیں ہیں۔ تاہم‘ پاکستان میں غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی افغان مہاجرین کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ایسے افغان بھی ہیں جو پاسپورٹ اور ویزا پر پاکستان آئے تھے لیکن اپنی منظور شدہ مدت سے زیادہ رہے۔ غیر سرکاری ذرائع کا تخمینہ ہے کہ پورے پاکستان میں تقریباً دس لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان رہ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے پاکستانی شہریت کا دعویٰ کرنے کیلئے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسی پاکستانی دستاویزات حاصل کی ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے یہاں جائیداد خریدی ہے اور زراعت اور تجارتی سرگرمیوں‘ ملازمتوں اور مزدوری جیسے کام کیے ہیں۔
غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو ٹریک کرنا ایک مشکل کام ہوگا کیونکہ وہ تمام صوبوں میں رہ رہے ہیں۔ سرچ آپریشن کا پیچھا کرنا آسان کام نہیں ہوگا کیونکہ وہ پاکستانی پشتونوں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ پاکستان نے 2017ء میں مختلف شہروں میں غیر قانونی افغانوں کا سراغ لگانے کی ناکام کوشش کی تھی جس کی وجہ سے پاکستانی پشتونوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ پولیس نے ان سے پوچھ گچھ بھی کی تھی۔ اس کی وجہ سے کے پی کے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ''نسلی پروفائلنگ‘‘ کی شکایت ہوئی۔ حکومت پاکستان نے کچھ وقت کے بعد اس مشق کو ترک کر دیا۔ نئی افغان پناہ گزین پالیسی کو‘ 2017ء میں درپیش مسائل کی طرح‘ مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایک اہم چیلنج ایک افغان مہاجر کو ایک مقامی پاکستانی پشتون سے ممتاز کرنا ہو گا ۔ پاکستان نے ٹرانزٹ لاگت کو پورا کرنے کیساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ ٹرانزٹ میں موجود سامان پاکستانی مارکیٹ کیلئے ٹرکوں سے باہر نہ نکلے‘ پاکستان کے راستے افغان ٹرانزٹ تجارت کیلئے نیا ضابطہ جاری کیا ہے۔ افغانستان پہنچنے کے بعد کچھ ٹرانزٹ ٹریڈ سامان پاکستان میں سمگل کیا جاتا ہے۔ دونوں طریقوں سے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان سے افغانستان میں کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان کی سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔ یہ غیر قانونی سرگرمیاں پاکستانی کاروباری شخصیات اور عہدیداروں کی شمولیت کے بغیر نہیں ہو سکتیں‘ خاص طور پر وہ جو دونوں ممالک کی سرحد کا انتظام دیکھتی ہیں۔ مذکورہ بالا مسائل کو دیکھتے ہوئے‘ نئی افغان پالیسی کا نفاذ پالیسی سازوں اور عمل درآمد کرنے والوں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved