آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
ایک عامی بھی جانتا ہے کہ یہ معاشی عدم استحکام ہے۔ اسلام کو ریاستی مذہب قرار دینے والی ریاست کا مسئلہ اس کے سوا ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے مسائل حل کرے بلکہ دنیا کو بھی غربت و افلاس سے نجات کے لیے راہ دکھائے۔ چشمِ فلک نے دیکھا ہے کہ جس ریاست نے اسلام سے وابستگی کا عملی مظاہرہ کیا‘ اس کاخوف‘ امن اور بدحالی‘ خوشحالی میں بدل گئی۔ عمر ابن خطابؓ کوئی افسانوی کردار نہیں۔ تاریخ کے صفحات پر ان کا نام اور کام اس طرح روشن ہے کہ اس کا انکار عملاً محال ہے۔ ہم اگر ایک اسلامی ریاست ہونے کے دعویدار ہیں تو عہدِ فاروقی کی کوئی جھلک یہاں کیوں دکھائی نہیں دیتی؟
برادرم انیق احمد کو اس کا ادراک بھی ہے اور احساس بھی۔ وزارتِ مذہبی امور نے اس بار ربیع الاوّل میں حسبِ روایت سیرت کانفرنس کا اہتمام کیا تو اسی معاشی استحکام کو موضوع بنایا۔ ملک بھر سے اہلِ علم کو مدعو کیا گیا۔ ان کے سامنے ایک سوال تھا: اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی سیرت کی روشنی میں پاکستان کی معیشت کیسے مستحکم ہو سکتی ہے؟ سیدنا عمرؓ نے کیسے اس سیرت سے اخذ و استفادہ کرتے ہوئے عوام کو ایک فلاحی ریاست دی۔ ہم اس روشنی سے کیوں اپنے اندھیرے دور نہیں کر سکتے؟
ملک بھر سے اہلِ علم نے اس کانفرنس میں اپنے نتائجِ فکر پیش کیے اور اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ ان کی گفتگو میں سیرت کے حوالے تھے اور سیرت کی روشنی میں بہتری کے لیے تجاویز بھی تھیں۔ وسائل کی تقسیم سے لے کر نظامِ محاصل تک‘ معاشی حکمتِ عملی کے بہت سے پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ نظری باتیں ہوئیں اور عملی بھی۔ کانفرنس میں سنجیدگی غالب رہی۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ تجاویز حکومتی پالیسی میں متشکل ہو سکیں گی؟
اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سوال انیق احمد صاحب کے پیشِ نظر تھا۔ اس لیے انہوں نے وزیر خزانہ کو خاص طور پرمدعو کیا۔ مقصود یہ تھا کہ یہ تجاویز بلا واسطہ ان کے گوش گزار کی جائیں تاکہ وہ ان سے ایسے نکات کشید کر سکیں جو موجود معاشی نظام کی اصلاح کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں۔ انیق صاحب کا کہنا تھا کہ وزیر صاحبہ نے اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا اور آنے کا وعدہ کیا۔ سوئے اتفاق کہ عین وقت پر وہ بیمار پڑ گئیں اور کانفرنس میں شریک نہ ہو سکیں۔ میرا خیال ہے کہ وزارت نے اس بات کا اہتمام کیا ہوگا کہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی تجاویز تحریری شکل میں ان تک پہنچ جائیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارا معاشی نظم اس عالمی اقتصادی نظام کا ایک حصہ ہے جو سرمایہ دارانہ تصورِ معیشت کی بنیاد پر استوار ہے۔ یہ جوہری طور پر اسلام کے دیے ہوئے تصورِ معیشت سے مختلف ہے۔ انیسویں صدی میں جب نئے عالمی نظام کی تشکیل ہو رہی تھی تو دو نظام ہائے معیشت کا بہت غلغلہ تھا: سرمایہ داری اور اشتراکیت۔ کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کا جس طرح تجزیہ کیا‘ اس نے اس نظام کی قلعی کھول دی اور ابنِ آدم پر یہ واضح ہو گیا کہ اس کو اختیار کرنے کا ناگزیر نتیجہ سرمایے کا ارتکاز ہے۔ یہ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بناتا ہے۔
مارکس نے اس کا متبادل تصور پیش کیا۔ اس متبادل کو جن معاشروں میں اختیار کیا گیا ان کا تجربہ بھی یہ بتاتا ہے کہ اپنی سنگ دلی میں یہ متبادل نظام بھی سرمایہ داری سے کم نہیں۔ آنجہانی سوویت یونین اس کا علم برادر تھا جو ظلم کی اَن گنت داستانیں رقم کر نے کے بعد وفات پا گیا۔ مارکس عملاً اس سے بری ہیں اور اپنے دردِ دل کے باعث ان کا ہمیشہ احترام کیا جاتا رہے گا‘ تاہم ان کے نام لیواؤں نے جب ان کے افکار کو اپنا کر سیاسی نظام بنایا تو انسانوں کی محرومیوں میں کمی نہیں آئی۔
اسی دوران انسانوں نے ایک تیسرے نظام کی آواز سنی۔ بعض مسلمان اہلِ علم نے یہ دعویٰ کیا کہ اسلام بھی ایک نظام دیتا ہے اور وہ ان دونوں سے مختلف ہے۔ ان میں سے چند وہ تھے جو اشراکیت سے متاثر تھے مگر اس کی مذہب بیزاری کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ جیسے مولانا عبیداللہ سندھی یا جیسے علی شریعتی۔ بعض نے سرمایہ داری اور اشتراکیت پر نقد کرتے ہوئے اسلام کے ماخذ سے ایک تیسرا نظامِ معیشت کشید کیا۔ ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی شامل تھے۔
یہاں ان نظام ہائے معیشت کا تنقیدی جائزہ مقصود نہیں۔ صرف یہ پس منظر واضح کرنا تھا کہ 'اسلام کے نظامِ معیشت‘ کے عنوان سے جو تیسرا ماڈل سامنے آیا اسے امرِ واقع میں بدلنا مسلمان ریاستوں کی ذمہ داری تھی۔ تاریخ یہ ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اشتراکی نظام کا خاتمہ ہوا تو سرمایہ دارانہ نظام کو واحد متبادل کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ اشتراکیت کے زیرِ اثر اس نے 'سرمایے‘ کے ساتھ 'محنت‘ کو بھی ایک حد تک نفع میں شریک کر لیا۔ سابقہ اشتراکی ریاستوں نے بھی ریاست کے کنٹرول کوکسی حد تک باقی رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا لیا۔
پاکستان کا معاملہ تو سنگین تر ہے۔ یہاں عملاً سرمایہ دارانہ نظام اپنایا گیا لیکن اس میں اسلام کا پیوند لگانے کی کوشش کی گئی۔ نااہلی کے سبب‘ جو علم اور عمل دونوں کو محیط تھی‘ ہم کوئی واضح نظام نہ بنا سکے۔ اس پر مستزاد بدانتظامی اور کرپشن۔ جو کمی رہ گئی تھی وہ سیاسی عدم استحکام نے پوری کر دی یا پھر عالمی معاشی حالات نے۔ ہمارے پاس اصلاحِ احوال کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا کہ دریوزہ گری کو بطور معاشی حکمتِ عملی اختیار کر لیا جائے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہم نے عالمی مالیاتی اداروں کو قرض دینے پر آمادہ کر لیا۔
آج معاشی زبوں حالی اس سطح پر ہے کہ اسلامی تشخص کا احساس پس منظر میں چلا گیا ہے۔ ہم ایک متبادل معاشی نظام رکھنے کے دعویدار تھے اور ہم پر واجب تھا کہ نہ صرف اپنے معاشی مسائل کا حل اپنے آئیڈیلز کی روشنی میں تلاش کرتے بلکہ دنیا کو بھی ایک نئی راہ دکھاتے۔ وزارتِ مذہبی امور نے ہمیں اس جانب متوجہ کیا تو لازم ہے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے اور ہم نہ صرف اپنے بلکہ دنیا بھر کی ترقی پذیر اور افلاس زدہ اقوام کی اقتصادی بحالی اور معاشی استحکام کے لیے راہ نما بنیں۔
برادرم انیق احمد نے اس 'بحر الکاہل‘ میں پتھر پھینک کر ایک ارتعاش پیدا کیا ہے۔ ان کا وزیر بننا ایک نیک شگون تھا۔ سیرت کانفرنس اس کا عملی اظہار ہے۔ وہ دین کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں اور اہلِ علم سے ان کا مستقل رابطہ بھی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کون سے علما اور سکالرز اس باب میں رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ اگر سیرت کانفرنس کی سفارشات کو بنیاد بنا کر اس سلسلے کو دراز کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کوئی راستہ نکل آئے۔
عارضی حل اپنی جگہ مگر ہمیں اقتصادی مسائل کے حل کے لیے ایک مستقل لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ یہ لائحہ عمل اگر اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی سیرت سے ماخوذ ہو تو اس کی برکات اس دنیا میں ظاہر ہوں گی اورکوشش کرنے والوں کو آخرت میں بھی اجر ملے گا۔ وزارتِ مذہبی امور‘ وزارتِ خارجہ کے ساتھ مل کر اگر اس عمل کو آگے بڑھائے تو متبادل معاشی نظام کا دعویٰ امرِ واقعہ بن سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی جیسے ادارے اس میں معاون ہو سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved