طاغوتی قوتیں روزِ اوّل سے اہلِ حق کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی رہی ہیں۔ مردانِ حر اور علمائے حق نے ہمیشہ طاغوت اور اس کے نظام کو للکارا ہے۔ علما کی تو ذمہ داری ہی یہ ہے کہ وہ کارِ نبوت کی تکمیل کے لیے خود کو وقف کر دیں۔ قابلِ رشک ہیں وہ علما جو اس فرض کی تکمیل کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علمائے حق انبیا کے وارث ہیں۔
اَلْعُلْمَائُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَائِ وَالْاَنْبِیَائُ قَدْ تَعَلَّمُوا مِنَ اللّٰہ
علما انبیا کے (حقیقی) وارث ہیں اور وہ (انبیائے کرام) براہِ راست اللہ سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ (جامع ترمذی)
علمِ دین ایک عظیم نعمت اور انمول خزانہ ہے۔ اس علم کے مطابق اپنی زندگی گزارنا اور پھر خلقِ خدا کو اس علم سے روشناس کرانا، ان کی زندگیوں کو اس کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے تعلیم و تدریس اور تربیت و تزکیہ علمائے ربّانین ہی کا کام ہے۔ اہلِ علم نے ہر دور میں مشکل ترین حالات میں بھی یہ کام کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس علم دین ہوتا بھی نہیں مگر ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہی علما ہیں۔ یہ بہت افسوسناک، جہالت اور بہت بڑا المیہ ہے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس علم تو ہوتا ہے مگر اس کی ترویج و اشاعت کا شوق اور جذبہ مفقود ہوتا ہے، پھر انتہائی افسوسناک صورت حال یہ ہوتی ہے کہ کچھ لوگ جانتے بوجھتے باطل کا ساتھ دیتے ہیں، طاغوتی قوتوں اور ظالم حکمرانوں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔
مولانا دلاور حسین سعیدی ان نایاب ہیروں کی مانند ہیں جو بے سروسامانی کے باوجود طاغوتی قوتوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہیروں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزِ حشر فخر کریں گے۔اس اعزاز کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کی کیا قیمت اور حیثیت ہے؟ اسلامی تاریخ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کلمۂ حق بلند کرنے والے علمائے ربّانّین سے مزین و مالا مال ہے۔ متقدمین کے کردار سے ہمیشہ متاخرین نے حوصلہ پایا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ،امام مالکؒ،امام احمد بن حنبلؒ، امام سرخسیؒ، امام ابن تیمیہؒ، امام مجدد الف ثانیؒ، سید احمد شہیدؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، سید مودودیؒ، سید حسن البناؒ، بدیع الزمان سعید نورسیؒ، سید قطبؒ شہید، پروفیسر غلام اعظمؒ، مولانا مطیع الرحمن نظامیؒ شہید اور دلاور حسین سعیدیؒ وہ چند نام ہیں جو عظیم الشان کہکشانِ حق کے لاتعداد درخشاں ستاروں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
دورِ جدید میں برصغیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کلمۂ حق کی بلندی اور حکومت الہٰیہ کے قیام کے لیے جماعت اسلامی قائم کی تھی۔ اس قافلۂ سخت جان میں لوگوں کی شمولیت روایتی اور رواجی انداز میں نہیں ہوتی بلکہ پوری طرح سوچ سمجھ کر اور شعوری طور پر لوگ اس میں آتے ہیں، یہاں کشتیاں جلا کر آنا پڑتا ہے، قدم قدم پر بلائوں سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ جان کی بازی لگانی اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کا فرض ادا کرنا پڑتا ہے۔
سید مودودیؒ نے 1941ء میں جماعت اسلامی ہند کی بنیاد رکھی۔ آزادی کے بعد جماعت اسلامی پاکستان اور جماعت اسلامی ہند اپنے اپنے حالات کے مطابق اللہ کے دین کی ترویج اور نفاذ کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں کام کرتی رہیں۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان الگ ہوا تو وہاں جماعت اسلامی پر پابندی لگ گئی۔
کئی دوستوں نے سوچ بچار کی کہ کسی نئے نام سے تنظیم بنا لی جائے۔ شیخ مجیب الرحمن کے قتل اور جنرل ضیا الرحمن کے مارشل لا کے بعد مولانا عبدالرحیمؒ (سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان) نے اسلامک ڈیموکریٹک لیگ (IDL) کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس تنظیم میں تمام 'پروپاکستان‘ پارٹیوں جماعت اسلامی، مسلم لیگ، نظام اسلام پارٹی کے لوگ شامل تھے۔ جماعت کے قائدین میں سے چند ایک ہی اس پارٹی کے اندر گئے، مگر پارٹی کی قیادت مولانا عبدالرحیم صاحب کے پاس تھی۔ اس پارٹی نے جنرل ضیاء الرحمن(بنگلہ دیشی) کے دور میں قومی اسمبلی میں پہلی بار 1982ء میں چھ اور دوسری بار 1986ء میں دس نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ پروفیسر غلام اعظمؒ صاحب اس وقت ملک سے باہر تھے۔ آپ کا غیر متزلزل موقف تھا کہ ہم جماعت اسلامی کا نام نہیں چھوڑ سکتے۔ چنانچہ چند سال بعد 27مئی 1979ء میں جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش میں اپنے نام سے جدوجہد شروع کی۔
اس روز سے اب تک ساری مشکلات کے باوجود جماعت اسلامی بنگلہ دیش اپنے راستے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈٹی ہوئی ہے۔ اسی طرح سری لنکا میں بھی جماعت اسلامی سری لنکا مشکلات کے باوجود دعوت و تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی وہاں کے حالات کے مطابق اپنی آزاد حیثیت میں جدوجہد میں مصروف ہے۔ ہر علاقے میں جماعت کو وقتاً فوقتاً پیش آمدہ مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نصرت سے اہلِ حق اپنی منزل کی طرف گامزن رہے ہیں۔ ہر جگہ قیمتی ہیرے جماعت کی صفوں میں شامل ہو کر کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے ہیں۔ مولانا دلاور حسین سعیدی شہید ایسے ہی قیمتی قائدین میں سے ایک تھے۔ ان کی یادیں لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
مولانا دلاور حسین سعیدی شہید کے مستقل دروس میں سے چند ایک کا تذکرہ یہاں ریکارڈ کے لیے نذرِ قارئین ہے:
آپ نے ہر موضوع پر تقاریر اور دروس کا اہتمام کیا۔ آپ کو بنگلہ، عربی، فارسی اور اردو اشعار کا بھی خاصا استحضار تھا۔ آپ علامہ اقبال کے اشعار جھوم جھوم کر پڑھتے تھے۔ پھر عوام الناس کی تفہیم کے لیے عربی اشعار کی طرح اردو اشعار کی بھی تشریح فرما دیتے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے منصوبہ بندی کے تحت آپ کے پروگراموں کو منظم کیا۔ بنگلہ دیش میں اس وقت 64 اضلاع ہیں۔ سعیدی صاحب کی گرفتاری سے قبل ان اضلاع کی تعداد 48تھی۔ اس وقت کے اضلاع میں سے کوئی ضلعی صدر مقام ایسا نہیں تھا جہاں آپ کا کوئی سلسلہ وار درس نہ ہوا ہو۔ مندرجہ ذیل پروگرام تو مستقل طور پر سالہاسال چلتے رہے۔
ڈھاکہ پلٹن میدان اور کملاپور ریلوے میدان میں 34 برس تک ہر سال تین، تین روز درسِ قرآن پروگرام کرتے رہے، جن میں لاکھوں سامعین شرکت کرتے۔ ہر جگہ خواتین کی شرکت کے لیے الگ سے انتظامات کیے جاتے جنہیں وہاں کے اہلِ خیر مل کر یقینی بناتے۔ راج شاہی کے گورنمنٹ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل 35 برس تک، ہر سال 3 دن درس دیتے رہے۔ کھلنا کے سرکٹ ہائوس میں 38 برس تک، ہر سال 3 روز درسِ قرآن دیتے رہے۔ بوگرہ شہر کے مرکزی میدان میں 25 برس تک 3 روز تک درسِ قرآن دیتے رہے۔ چٹاگانگ پریڈ گرائونڈ میں 29 سال تک 5 دن باقاعدہ قرآن کا پیغام ہر خاص و عام تک پہنچاتے اور شرکا کی تعداد بلامبالغہ چھ‘ سات لاکھ سے زیادہ سامعین پر مشتمل ہوتی۔ سلہٹ، گورنمنٹ عالیہ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل 33 برس تک 3 روزہ محفلِ قرآن کے پروگرام کرتے۔
ماہِ ربیع الاوّل میں پورے ملک میں ہر بڑے شہر میں سعیدی صاحب سیرت النبیﷺ پر عوامی جلسوں میں خطاب فرماتے۔ بعض اوقات ایک دن میں کئی مقامات پر آپ کو جانا پڑتا۔ آپ جسمانی و ذہنی طور پر بہت مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام کاوشوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔ مولانا محض خطیب نہیں ادیب اور مصنف بھی تھے۔ مجالس میں گفتگو کے دوران دانشمندانہ دلائل سے حاضرین کو اپنے موقف اور نظریے کا قائل کر لیتے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سینئر ساتھیوں کے مطابق مجالس شوریٰ و عاملہ میں ہر موضوع پر جامع اور مدلّل رائے پیش کرتے، اگر مشاورت میں فیصلہ آپ کی رائے کے خلاف ہوتا تو بڑی خوش دلی سے اجتماعی فیصلے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے۔
آپ کی تصانیف بھی بڑی تعداد میں چھپ کر عوام کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں۔ ان میں بیشتر کتابیں مقامی زبانوں میں ہیں؛ البتہ اکثر کے ترجمے دوسری زبانوں بالخصوص انگریزی میں بھی ہو چکے ہیں۔ بعض کتب تو آپ نے خود تصنیف کیں جبکہ کئی ایک آپ کے خطابات سے مرتب کی گئیں جن کی ایڈیٹنگ کر کے آپ نے اشاعت کی اجازت دی۔ چند کتب کے نام درجِ ذیل ہیں:
زندگی بعداز موت، رسول اللہﷺ کی نمازیں، میں کیوں جماعت اسلامی میں شامل ہوا؟ کرپشن سے پاک سیاست کے لیے بنیادی اصول، اسلام میں دہشت گردی کی اجازت نہیں، قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پردلائل، قرآن پاک کے معجزات، اسلام کی روشنی میں عائلی ذمہ داریاں، تربیتِ اولاد کے مؤثر طریقے، کھلا خط سب کے نام، دینی سیاست پر پابندیوں کا مطالبہ اور اس کا جواب، حصولِ جنت کا آسان راستہ، مثالی ایمان، حدیث رسولﷺ کی روشنی میں سماجی زندگی، دیارِ مغرب میں (سفرنامہ مغربی دنیا)
آپ کی کتب کی قبولیت کا عالم یہ تھا کہ ادھر کتاب چھپی، اُدھر چند دنوں میں پورا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ اس قبولیت کی وجہ سے ہر پبلشر کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ سعیدی صاحب کی کوئی کتاب اسے مل جائے۔ سعیدی صاحب درویش صفت انسان تھے اور انہوں نے اپنی کتب تحریکی اداروں کے سپرد کر دی تھیں۔ بنگلہ دیش کے تحریکی ساتھیوں کے مطابق کم و بیش آپ کی تمام کتب جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved