بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ لمحوں کی خطاؤں کی سزا کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بھگتتے چلے جا رہے ہیں بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ نصف صدی ہونے کو آئی لیکن ان فیصلوں کی قیمت برابر ادائیگیوں کے باوجود چکائی نہیں جارہی۔ ایک مرتبہ افغان جہاد کے نام پر تو ایک مرتبہ ڈو مور کے مطالبے پر مملکتِ خداداد کے کرتا دھرتاؤں نے نظریۂ ضرورت کے نام پر ضرورت مندی کا ایسا ایسا منظر قوم کو دکھایا کہ غیرتِ قومی سے لے کر اَنا اور خود داری جیسے الفاظ بھی گم سم ہو گئے۔ ایک بار پرو افغان تو دوسری بار اینٹی افغان۔ دونوں مرتبہ فرمائش کرنے والے وہی تھے لیکن ان کی ضرورت بدلنے کے ساتھ ہماری ترجیحات اور ضروریات بھی بدل گئیں۔ 1979ء میں روس کا افغانستان پر حملہ ہو یا نائن الیون کا واقعہ‘ دونوں کے اثراتِ بد مملکتِ خداداد کے کونے کونے میں آج بھی دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ پہلی بار افغانستان کی کھلی مدد اور بھرپور معاونت کا مطالبہ آیا تو دوسری بار افغانستان کے خلاف سبھی کارروائیوں میں برابر شریک ہونا پڑا۔ پہلی بار سرحدوں کے ساتھ ساتھ دل کے دروازے کھول کر افغان مہاجرین کو پناہ تو دے دی لیکن دھرتی ماں آج بھی پناہ مانگ رہی ہے۔ جنہیں مصیبت کے ایام ٹالنے کے لیے ارضِ پاک پر بسایا وہ اس طرح رَچ بس گئے کہ ان کی تیسری نسل سسٹم کو اس طرح جکڑ چکی ہے کہ پاکستان کی شہریت سے لے کر معیشت تک سبھی راستے آسان ہوتے اور دروازے کھلتے چلے گئے۔ افغان مہاجرین کی آبادکاری اور بحالی کے فیصلے سے بیرونی داد اور امداد تو مل گئی لیکن ارضِ پاک اُجڑ گئی۔ اسی طرح ڈو مور کے مطالبے کو پورا کرتے کرتے پورا ملک انگار وادی بن گیا۔ فضا میں بارود کی بو اس طرح رَچ بس گئی کہ سانسیں آج بھی جل رہی ہیں۔
امریکی کارروائیوں کے سبھی ردِعمل خون کی ہولی کی صورت میں اس خطے میں بسنے والوں کو بھگتنا پڑے۔ قتل و غارت گری سے لے کر دہشت گردی کی کارروائیوں تک نے پورے ملک کو طویل عرصے تک اس طرح سوگوار بنائے رکھا کہ آئے روز بم دھماکے اور خونریزی کی ہولناک وارداتیں معمول بن گئیں۔ پرو افغان لائن ہو یا اینٹی افغان‘ دونوں کے فیصلہ ساز آمر تھے۔ امریکی خوشنودی کے حامل ان فیصلوں کے پس پردہ دراصل دونوں کی اپنی اپنی ضرورتیں تھیں۔ ان دونوں نے ملک و قوم کو کیسی کیسی آزمائشوں سے دوچار نہیں کیا۔ صدر ضیاالحق نے افغان جہاد کی دنیا بھر میں ایسی برانڈنگ کی کہ پناہ گزین ضرورت بنتے چلے گئے۔ مہاجرین کے نام پر عالمی برادری کی توجہ سے لے کر امداد اور مراعات کی ایسی لت پڑی کہ پتا ہی نہ چلا کہ قوم کی بڑی تعداد بالخصوص نوجوان طبقہ ہیروئن جیسی لعنت کی لت کا شکار ہو چکا ہے۔ ممنوعہ بور کے اسلحہ کی بھرمار نے گھر گھر اسلحہ بارود پہنچا ڈالا۔ جن ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہیے تھیں ان ہاتھوں نے پستول پکڑ لیے۔ افغان مہاجرین کی آبادکاری میں مجرمانہ بے احتیاطی اور ایثار کی قیمت یوں بھی چکائی جا رہی ہے کہ ان کا مضبوط اور ملک گیر نیٹ ورک معیشت کے کئی شعبوں پر اجارہ داری قائم کر چکا ہے۔
پانچویں دہائی پوری ہونے کو ہے لیکن کسی کو اس پھیلتے ہوئے عفریت کا خیال تک نہ آیا کہ ان کو شہریت دینے سے لے کر کاروبار بڑھانے اور جائیدادیں بنانے کی کھلی چھٹی دینے کا خمیازہ اگلی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ فرقہ واریت اور قوم پرستی کے فتنے کو پالنے اور پروان چڑھانے والوں کو فقط اپنا ٹارگٹ ہی عزیز تھا۔ پناہ گزین بتدریج مہاجر کیمپوں سے نکل کر شہری آبادیوں میں نہ صرف نقل مکانی کرتے گئے بلکہ اب یہ عالم ہے کہ وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ آپس میں متحد اور قوم پرستی پر یقین رکھنے والے اکثر معاملات میں مقامی آبادی پر بھاری پڑ جاتے ہیں۔ وسیع و عریض جائیدادیں‘ فیکٹریوں اور لمبے چوڑے کاروبار ان کے حفاظتی حصار بن چکے ہیں۔ ان کی کئی نسلیں جہاں رزقِ خاک بن چکی ہیں وہاں تیسری نسل پاکستان کو اپنا ہی وطن تصور کرتی ہے۔ ایسے میں آن کی آن میں ان سبھی کا انخلا قطعی آسان مرحلہ نہ ہوگا۔
ذاتی مفادات اور خواہشات پر مبنی فیصلے آج ملک و قوم کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ مہاجرین کی واپسی نہ صرف کٹھن مرحلہ بن سکتا ہے بلکہ کسی بحران سے دوچار کرنے کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ ان افغانوں کے بچوں اور جواں سال نسل کو کیا معلوم کہ ان کا اصل وطن کون سا ہے۔ غلطی ضرور سدھاریں لیکن خیال رہے کہ ایسی غلطیاں نہ سرزرد ہو جائیں کہ جن کا ازالہ بھی نہ ہو سکے۔ افغانستان کی جغرافیائی اہمیت اور ہمسائیگی سے ہرگز انکار نہیں لیکن پاکستان کو افغانستان کی طرف سے کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آئی۔ بدظن اور بدگمان رہنے والے افغانستان سے نہ کبھی دوستانہ تعلقات رہے نہ ہی برادرانہ۔ بس ہمسایہ ہونے کی مجبوری اور امریکی ترجیحات کے تناظر میں ہم ہمیشہ سے استعمال ہی ہوتے رہے۔ افغان سرحد سے کبھی خیر کی خبر آئی نہ ہی افغانیوں سے خیر سگالی کی۔ غیرتِ قومی کو ترجیحات میں شامل کیے بغیر سبھی اقدامات اور فیصلے مصلحتوں اور مجبوریوں کی نذر نہ ہو جائیں۔ سبھی قربانیوں اور ایثار کا صلہ ہم کئی بار بھگت چکے ہیں۔ ملکی مفادات کے برعکس اور سہولت کاری نے پناہ گزینوں کو دستاویزی طور پر مساوی حقوق دے ڈالے ہیں۔
انہیں شہریت دینے والے ہوں یا جانتے بوجھتے آنکھیں بند کرنے والے‘ انہیں کھلی چھٹی اور مواقع دینے والے ہوں یا سہولت کاری کرنے والے‘ وہ بھی اس متوقع بحران اور ردِ عمل کے بجا طور پر ذمہ دار ہوں گے جنہوں نے اس عفریت کو پالا اور پروان چڑھایا ہے۔ مہاجرین کو ان کے وطن ضرور جانا چاہیے۔ انخلا کا فیصلہ جوں جوں تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا‘ مہاجر کیمپوں میں مقیم پناہ گزین ہمارے کمزور سسٹم اور سہولت کاری کے ماہرین کے ہتھے چڑھتے چلے گئے۔ ان ماہرین نے انہیں اس طرح آباد کیا کہ ہمارے کلچر سے لے کر سماجی اقدار سمیت نہ جانے کیا کچھ برباد کر ڈالا۔ ضیاء الحق کے بعد پرویز مشرف کو بھی ایسے حالات میسر آگئے کہ وہ اقتدار کے استحکام کے علاوہ امریکہ سے مزید کئی فائدے بٹورتے رہے۔ اپنی خدمات کے عوض من چاہی مرادیں پوری کرتے رہے۔
تاریخ کو دہرانے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ اگر افغان مہاجرین کے انخلا کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو ان سہولت کاروں پر بھی نظر رکھی جائے جو مائنس پلس کی گیم کے خوب ماہر ہیں۔ اتنا بڑا فیصلہ چھوٹی بڑی خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ بلا لحاظ و تمیز انخلا کے لیے مصلحت سے پاک اور دو ٹوک فیصلہ ہی ماضی کی ان غلطیوں کا ازالہ کر سکتا ہے جن کا خمیازہ ہماری تیسری نسل بھگت رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی ملک بھر میں آباد کاری اور اجارہ داری کے سبھی ذمہ داروں نے حصہ بقدر جثہ اپنا اپنا گول تو سیٹ کر لیا لیکن عوام کا مستقبل بھی گول کر ڈالا۔ خودکش بمباروں سے لے کر تخریب کاری کے سبھی روپ بہروپ انہی فیصلوں اور سہولت کاروں کے انڈے بچے ہیں۔ معیشت کے مخصوص شعبوں پر اجارہ داری ہو یا قوم پرستی کے نام پر مارا ماری‘ برین واشنگ کے کارخانے ہوں یا جنت کے پروانے‘ یہ سبھی عذاب اور بدعتیں ہماری دھرتی کا سکون اور قوم کا مستقبل کھا گئیں۔ منشیات سے لے کر اسلحہ اور دیگر قابلِ اعتراض سرگرمیوں کے تانے بانے بھی انہی سے جا ملتے ہیں۔ خدارا! احسان کیجئے اور کرگزریے۔ شاید ازالہ اور کچھ مداوا ہو جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved