بر صغیر کے جلیل القدر عالم مو لانا سید ابو الحسن علی ندوی نے امت کے اہلِ علم و نظر کا تذکرہ مرتب کیا تو اس کا عنوان باندھا: تاریخِ دعوت و عزیمت۔ اس سے پہلے مو لانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے شاہ ولی اللہ کی علمی خدمات پر قلم اٹھایا اور انہیں مسلمانوں کی علمی تاریخ کے تناظر میں دیکھا تو اپنے کتابچے کو عنوان دیا: تجدید و احیائے دین۔ یہ عنوانات ناطق ہیں کہ اس امت کے اہلِ علم کن اوصاف سے متصف رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جب ہم کسی کو اس پاکیزہ گروہ میں شامل کرتے ہیں تو اس انتخاب کے لیے معیار کیا ہے۔ معلوم ہوا علما سے تین باتوں کی توقع ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ اصلاً داعی ہوتے ہیں۔ منصبِ دعوت ان کا اصل مقام ہے۔ وہ سماج تک دین کی دعوت پہنچاتے ہیں۔ ان کا بنیادی کام یہی ہے۔ دوسرا یہ کہ مقلد محض نہیں ہوتے۔ وہ اسلاف کی علمی روایت کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ کار تجدید سرانجام دیتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ اس کام کے راستے میں اگر کوئی مشکل پیش آتی ہے تو حق کے بیان میں کسی مداہنت کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ جسے صحیح سمجھتے ہیں، بر ملا اس کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی ترغیب یا خوف ان کے دامن گیر نہیں ہوتا۔ وہ ہر مصیبت کو بخوشی قبول کرتے ہیں لیکن اپنی رائے کے اظہار میں بے باک ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی باتوں ہی سے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حضرت شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہو اور یوں بھی، اہلِ علم اس طرزِ علم سے ناآشنا تھے۔ وہ انسان تھے اور اس وجہ سے ممکن تھا کہ وہ کسی غلط نتیجہ فکر تک پہنچ جائیں۔ رائے کی غلطی کے اس امکان کے باوصف یہ ممکن نہ تھا کہ وہ کسی بات کو حق سمجھتے ہوں اور پھر کسی ڈر یا لالچ کے سبب اس کا اخفا کریں۔ گویا وہ صاحبانِ عزیمت بھی تھے۔ جبہ و دستار کے ساتھ جن لوگوں نے صحیح بات کہنے سے گریز کیا، حق کو چھپایا اور اسے اپنی تمناؤں اور مفادات کا اسیر رکھا، امت کے اجتماعی ضمیر نے انہیں قبول نہ کیا۔ یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے عہد میں مراعات یافتہ طبقات کا حصہ ہوں لیکن قدرت نے ان کے نام امت کی یادداشت سے محو کر دیے۔ اگر کہیں محفوظ بھی ہیں تو محض نشانِ عبرت کے طور پر۔ ان کے لیے علمائے سوء کی ترکیب وضع ہوئی اور یوں ان کا ذکر ہی الگ ہو گیا۔ ایسے لوگ اپنے عہد میں تو جیتے ہیں، تاریخ میں نہیں۔ اس امت کی علمی تاریخ میں جو لوگ سب سے نمایاں ہیں ان میں آئمہ اربعہ شامل ہیں۔ امت کی غیر معمولی اکثریت نے جن کی فقاہت اور بصیرت پر فی الجملہ اتفاق کیا۔ یہ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شا فعیؒ اور امام احمدؒ ابن حنبل ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا لیکن امت کی مجموعی نظر میں محترم ٹھہرے۔ ان کی تجدیدی شان اس سے واضح ہے کہ وہ فقہ میں نئے مکاتب کے بانی تھے۔ انہوں نے دین کے ماخذات پر غوروفکر کے نئے اصول مرتب کیے اور انہیں آج تک قبول کیا جاتا ہے۔ امت کی فکری تاریخ پر ان کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ بہت سے لوگ آج بھی اس کو جائز نہیں سمجھتے کہ ان کے اصولوں سے بے نیاز ہو کر کوئی رائے قائم کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان شخصیات کے فہم دین پر امت کا اجماع ہو چکا اس لیے ان کی آرا سے باہر نکل کر کو ئی موقف اختیار کرنا درست نہیں۔ اس رائے کی غلطی واضح ہے لیکن اس سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان حضرات کے کار تجدید کی نوعیت کیا ہے۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ سب دعوت کے لوگ تھے۔ اقتدار کی حریفانہ کشمکش سے دور اور حجرہ نشین۔ اگر ان کا کوئی سماجی حلقہ تھا تو وہ ان کے تلامذہ یا پھر وہ جو اُن سے اکتسابِ فیض کرتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کو سرکاری منصب کی پیش کش ہوئی تو انہوں نے قبول نہ کیا۔ خلیفہ منصور نے چاہا کہ امام مالک کی مو طا کو ریاست کا قانون بنا دیا جائے لیکن انہوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ لوگوں کو زبردستی اپنا مقلد بنانا ان کے پیش نظر نہ تھا۔ عزیمت کا معاملہ یہ رہا کہ امام مالک نے جبری طلاق کے مسئلے میں حکومت کے موقف کو قبول نہ کیا۔ ریاست نے تشدد کا نشانہ بنایا اور عبرت کے لیے گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھا کر بازاروں میں پھرایا۔ عوام کو دیکھا تو یہی کہا: جو مجھے جا نتا ہے، وہ جا نتا ہے اور جو نہیں جانتا، وہ جان لے کہ میں مالک ابن انس ہوں اور جبری طلاق سے انکار کرتا ہوں۔ عباسیوں نے چاہا کہ امام احمد ابن حنبل خلقِ قرآن کے مسئلے میں حکومت کی رائے قبول کر لیں۔ انہوں نے انکار کیا کہ ان کے خیال میں اس کے لیے قرآن و سنت میں کوئی دلیل موجود نہ تھی۔ تشدد ہوا اور جسم سے لہو ٹپکنے لگا، امامؒ نے گوارا کیا لیکن عزیمت کا راستہ کبھی نہیں چھوڑا۔ امت کے اہلِ علم کی تاریخ یہی ہے۔ اس فہرست میں اور بہت سے نام شامل کیے جا سکتے ہیں‘ امام ابن تیمیہ، شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ۔ ہم ان کی آرا سے اختلاف کر سکتے ہیں، یہ اختلاف اصلاً انسانی فہم سے متعلق ہے لیکن ان سب میں تین خصوصیات مشترک ہیں۔ دعوت، علمی وجاہت اور عزیمت۔ ہم ان سے اختلاف کریں گے لیکن ان کی عظمت، اختلاف کے لمحے بھی ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہو گی۔ امویوں اور عباسیوں کی ’خلافت‘ باقی نہ رہی لیکن ان حضرات کی ’امامت‘ باقی ہے۔ ہم ان کا احترام کرتے ہیں کہ انہوں نے جسے حق سمجھا، اسے بیان کیا، اس کا ابلاغ کیا اور اس معا ملے میں کسی خوف اور لالچ کو خاطر میں نہ لائے۔ واقعہ یہ ہے انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس تھا۔ وہ یہ جانتے تھے کہ ہر آ دمی یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ دین پر براہ راست غور کر کے شارع کا منشا جان سکے۔ اسے مجبوراً اہلِ علم ہی پر اعتماد کرنا ہے۔ اگر اہلِ علم مصلحتوں کے اسیر ہو جائیں اور دین بیان کرنے سے گریز کریں تو پھر عوام کہاں جائیں؟ ان دنوں ایک بار پھر علما کا ذکر ہے۔ آج دین کے معاملے میں لوگ ابہام کا شکار ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ نظمِ اجتماعی، ریاست، جہاد جیسے مسائل پر صحیح موقف کیا ہے؟ طالبا ن صحیح کر رہے ہیں یا حکومت اور فوج؟ عوام کس کا ساتھ دیں؟ قول فیصل کیا ہے؟ وہ علما کے اخباری بیانات، نجی مجالس کے موقف اور علمی آرا میں تطبیق پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن الجھ جا تے ہیں۔ وہ علمی وجاہت، دعوتی درد اور عزیمت کو جمع دیکھنا چاہتے ہیں۔ لوگ کسی امام مالک کی تلاش میں ہیں جو یہ جرات رکھتا ہو کہ اس کی مشکیں کسی ہوں، وہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پہ اس طرح سوار ہو کہ تشدد سے اس کے بازو اتر چکے ہوں اور وہ کہہ رہا ہو: جو مجھے جا نتا ہے، وہ جا نتا ہے اور جو نہیں جانتا، وہ جان لے کہ میں مالک ابن انس ہوں اور جبری طلاق سے انکار کرتا ہوں۔ میں بھی ان ہی ابہام زدہ لوگوں میں شامل ہوں۔ جب کچھ ہاتھ نہیں آتا تو ان علما کا تذکرہ اٹھا لیتا ہوں، جن کی یادوں سے دعوت، علم اور عزیمت کے راستے آج بھی مشک بار ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے نقوشِ قدم کسی راہی کے منتظر ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved