''سکھ‘‘ پنجابی زبان کا لفظ ہے جو سنسکرت سے آیا ہے اور اس کا لغوی معنی سیکھنے والا ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ سکھ مت کا دور دور تک ہندو مت سے کوئی تعلق نہیں۔ عمومی طور پر سکھوں کیلئے ''خالصہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو عربی زبان سے مستعار لی گئی ہے۔ ''ریختہ‘‘ کے مطابق ''یہ سکھوں کی ایک جماعت کا لقب ہے؛ خالصہ پنتھ۔ خالصہ درحقیقت سکھ مت کے پیروکاروں کا ایک عسکری گروہ ہے‘ جس کو دسویں گرو گوبند سنگھ نے 1699ء میں آنندپور میں قائم کیا تھا۔ اس دن انہوں نے اپنے پانچ پیاروں کو ''امرت پان‘‘ کر کے (خالص) خالصہ بنایا‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ 16ویں صدی عیسوی میں جب مغل شہنشاہ اکبر نے سکھوں کے چوتھے گرو‘ گرو رام داس کو اپنے دربار میں بلا کر ان سے سکھ مذہب کے بارے میں بات چیت کی تو وہ یہ جان کر بہت حیران اور متاثر ہوا کہ سکھ ہندوئوں کے برعکس توحید کا عقیدہ رکھتے ہیں اور صرف ایک خدا کو مانتے ہیں۔ سکھ مذہب کی مقدس کتاب ''گرو گرنتھ صاحب‘‘ جسے سکھوں میں زندہ گرو کا درجہ حاصل ہے‘ میں بھی بابا فریدؒ، بھگت کبیر اور بابا گورو نانک جی کا کلام شامل ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ شہنشاہ اکبر نے ہی وہ علا قہ جسے آج امرتسر کے نام سے جانا جاتا ہے‘ سکھوں کو تحفے میں دیا تھا تاکہ وہ یہاں نیا شہر بسا سکیں۔ پنجاب کے لوگ اسے امرتسر نہیں بلکہ ''امبرسر‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں پر کاروباری لوگ صبح سویرے‘ اپنے کام کاج یا دکانداری سے قبل امبر خوشبو کی دھونی دیا کرتے تھے اور یہ پورا علاقہ امبر کی خوشبو سے مہکتا رہتا تھا، اسی لیے اسے امبرسر یعنی خوشبو والا علاقہ کہا جانے لگا۔ امرتسر شہر کو گرو رام داس‘ جو لاہور میں‘ چونا منڈی کے علاقے میں پیدا ہوئے تھے‘ نے آباد کیا تھا۔
سکھوں اور مسلمانوں کے تاریخی اور روحانی تعلق کا اس سے بڑا ثبوت اور کوئی نہیں کہ جب امرتسر میں سکھوں کے مقدس ترین مقام دربار صاحب کی بنیاد رکھی جانے لگی تو اس کے لیے لاہور میں مقیم صوفی بزرگ حضرت میاں میرؒ سے درخواست کی گئی۔ روایت ہے کہ جب بھی دربار صاحب کی بنیاد رکھی جاتی تو وہ گر جاتی۔ جب دو‘ تین بار ایسا ہو چکا تو حضرت میاں میرؒ، جو سکھوں کے گرو ارجن سنگھ کے دوست تھے‘ سے اس کا ذکر کرتے ہوئے مدد چاہی جس پر گرو ارجن سنگھ جی کی درخواست پر حضرت میاں میرؒ نے اپنے ہاتھوں سے دربار صاحب یعنی گولڈن ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھا۔ برہمن ہندوئوں کا یہ دعویٰ کہ اسے پہلے مندر بنایا گیا تھا‘ قطعی غلط اور سکھوں کی مذہبی تاریخ سے سخت زیا دتی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ایودھیا کی بابری مسجد کے بارے میں ایک پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہاں پر پہلے رام مندر تھا اور اب جسے شہید کرنے کے بعد دوبارہ رام مندر تعمیر کیا جا رہا ہے حالانکہ تاریخ دان اس دعوے کو سفید جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کی جگہ اگر کسی مندر کی بنیاد رکھی جاتی تو وہ صوفی بزرگ جو لاہور میں توحید اور بت پرستی کے خلاف تبلیغ کیا کرتے تھے‘ وہ کیسے لاہور سے امرتسر جا کر ایک بت کدے کا سنگِ بنیاد رکھ سکتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ بابا گرو نانک کی تعلیمات کی وجہ سے ہندو دھڑا دھڑ ان کی جانب مائل ہونے لگے اور برہمنوں نے جب دیکھا کہ ہندو بڑی تعداد میں سکھ مذہب اختیار کرتے جا رہے ہیں تو برہمن سکھ مت کا دشمن بن گیا۔ اسے سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر تھی کہ ایک خدا کی عبادت کی یکسانیت کی وجہ سے سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے تھے جس پر برہمن نے سکھوں اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے چانکیہ والا پرانا کھیل شروع کر دیا۔
روایت ہے کہ سکھوں کے ایک گرو نے کسی برہمن کی بیٹی سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو ہندوئوں کی جانب سے پہلے انکار کیا گیا مگر جب اصرار بڑھا تو برہمنوں نے شادی سے پہلے یہ شرط لکھوائی کہ ان کی بیٹی سے گرو جی کا جو پہلا بیٹا پیدا ہو گا، سکھوں کا وہی گرو ہو گا۔ یہاں سے ہندوئوں نے اپنا کھیل شروع کیا اور سکھ اور ہندو مذاہب کو ایک کرنا شروع کر دیا۔ توحید کی بنیاد پر مسلمانوں کی جانب سکھوں کے بڑھتے جھکائو اور بابا فریدؒ اور میاں میرؒ جیسے مسلم بزرگوں سے سکھوں کی بے پناہ عقیدت کی وجہ سے برہمن سخت پریشان رہنے لگے تھے۔ اس پر مغلیہ دربار کے ایک برہمن وزیر نے ایسے وقت میں جب اورنگزیب گول کنڈا میں مصروفِ جنگ تھا‘ سکھوں کے گرو گوبند سنگھ کے دو بیٹوں کو زندہ دیوار میں چنوا کر سکھوں اور مسلمانوں کی دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔ جب اورنگزیب عالمگیر کو اس بات کا علم ہوا تو برہمن وزیر سے سخت جواب طلبی کی گئی لیکن اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اس سے قبل جہانگیر کے خلاف بغاوت میں شہزادہ خسرو کا ساتھ دینے پر پانچویں گرو‘ ارجن دیو شہنشاہ جہانگیر کے عتاب کا نشانہ بن چکے تھے، لہٰذا برہمنوں کے اکسانے پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور دشمنی کی بنیاد جڑ پکڑ گئی۔ انگریز کے دور کو گہری نظر سے دیکھیں تو سکھوں پر ظلم برہمن ہی کرواتا رہا۔ اس وقت سکھوں اور مسلمانوں کے مقابلے میں چونکہ ہندو زیادہ پڑھے لکھے تھے اس لیے اپنے مطلب کی کہانیاں مرتب کر کے اسے ہی تاریخ بالخصوص سکھوں کی تاریخ کا نام دے دیا گیا۔ برہمن کے دل میں سکھوں سے نفرت کس طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اس کا اندازہ اس واقعے سے کیجئے کہ 1740ء میں لاہور میں مغل گورنر کے ایک برہمن مشیر نے سکھوں کی تذلیل کیلئے ایک ہندو شودر ''ماسا رانگھڑ‘‘ کو امرتسر کا کمانڈر بنا کر اس کا دفتر دربار صاحب میں قائم کرا دیا جو گولڈن ٹیمپل کی مسلسل بے حرمتی کرتا رہتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ بدبخت ماسا رانگھڑ کو سکھوں اور مسلمانوں‘ دونوں نے باہم مل کر جہنم رسید کیا۔
آج دنیا میں شاید سکھ وہ واحد بڑا مذہب ہے جس کا کوئی ملک نہیں ہے۔ 1947ء سکھوں کو مشرقی پنجاب، فرید کوٹ، پٹیالہ اور ہریانہ پر مشتمل ''پھلکیاں سٹیٹ‘‘ جسے ''پھولکیاں‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ بنانے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن ماسٹر تارا سنگھ جسے امرتسر میں ہندوئوں کے ایک سکول کے پرائمری استاد سے سکھوں کا لیڈر بنا دیا گیا تھا‘ نے کانگریس کے کہنے پر نہ صرف اس تجویز کو ناکام بنا دیا بلکہ پورے پنجاب میں ہجرت کے دوران لاکھوں انسا نوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرا دیا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے 1920ء میں اعلان کیا تھا کہ آزادی کے بعد زبان کی بنیاد پر ریاستیں قائم کی جائیں گی اور یہ وعدہ 1928ء کی موتی لال نہرو رپورٹ میں بھی شامل تھا۔ 1947ء میں سکھوں کو برہمن نے مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا اور بعد میں جب سکھ مشرقی پنجاب میں 60 فیصد سے زائد آبادی کے حامل ہو گئے تو انہوں نے اپنی سماجی و سیاسی شناخت اور زبان کی بنیاد پر الگ ریاست کا مطالبہ کیا مگر 1955ء میں بھارت میں پنجابی صوبے کے حق میں لگنے والے نعروں پر پابندی عائد کر دی گئی اور ماسٹر تارا سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ البتہ سکھوں کی تحریک کبھی تھمی نہیں اور کبھی مدہم اور کبھی تیز انداز میں آگے بڑھتی رہی۔ 1984ء میں اندرا گاندھی کی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں ہلاکت کی خبر ملتے ہی دہلی اور اترپردیش میں سکھوں پر دھاوا بول دیا گیا اور ہزاروں افراد کو تہِ تیغ کر دیا گیا۔ سکھ رہنما آج بھی اس وقت کو یاد کر کے افسوس کرتے ہیں کہ جب کانگریس کے ایجنٹ ماسٹر تارا سنگھ کی بات مان کر انہوں نے اپنی علیحدہ پہچان ختم کر دی اور برہمن کا ساتھ دیا۔ ماسٹر تارا سنگھ کی اس غلطی کی سزا پوری سکھ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ پنجاب جو بھارت کی تقریباً 70 فیصد آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے‘ میں استحصالی حکومتی پالیسیوں کے سبب نجانے کتنے ہی کاشتکار قرضوں کے دلدل میں پھنسنے کے سبب خودکشیاں کر چکے ہیں۔ نئی دہلی سرکار کسی سکھ کو ترقی دینے لگے تو پہلے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ریکارڈ سے دیکھا جاتا ہے کہ اس کی دادی یا نانی کے نام کے ساتھ کور لکھا جاتا تھا یا دیوی۔ دیوی کے نام سے پہچانے جانے والے سکھ اسی برہمن زادی کی نسل سے ہیں جس کی سکھوں کے گرو سے شادی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ بھارت کے سابق آرمی چیف بِکرم سنگھ کی خفیہ فائل پر بھی اس بات کو اہمیت دی گئی تھی کہ یہ کسی کور کا نہیں بلکہ دیوی کا بیٹا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved