پاکستان کو درپیش سیاسی و معاشی عدم استحکام کا حل صرف بلاتاخیر عام انتخابات میں پوشیدہ نہیں ہے‘ اس کیلئے سیاسی جماعتوں میں اصلاحات بھی بہت ضروری ہیں۔ سیاستدان اور پارلیمنٹیرین ریاستی اداروں میں اصلاحات کی مہم تو چلاتے رہتے ہیں لیکن وہ کبھی اپنی جماعتوں میں اصلاحات کا ذکر نہیں کرتے۔ انٹرا پارٹی الیکشن کی اہمیت پر بات نہیں کرتے۔ ڈرائنگ رومز میں انٹرا پارٹی انتخابات کروا کے الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 208اور 209کے تحت کارروائی بھجوا دیتے اور الیکشن کمیشن کو لامحالہ ان کے نام نہاد انتخابات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ترکی میں یہ نظام رائج ہے کہ اگر پارلیمانی انتخابات میں کوئی سیاسی پارٹی 20فیصد ووٹ حاصل نہ کر سکے تو اس پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جاتی ہے اور اس پارٹی کے منتخب اراکین کو حکمران جماعت میں شامل کر لیا جاتا ہے تاکہ ان کی بلیک میلنگ سے پارلیمانی نظام میں کوئی بدنظمی پیدا نہ ہو‘ جبکہ ہمارے ہاں ایک ممبر پر مشتمل کمزور پارٹیاں بھی پارلیمنٹ میں پہنچ جاتی ہیں اور وزارت کے بھی مزے لیتی رہتی ہیں۔ اسی طرح سیاسی پارٹی کے بیرونی ممالک میں دفاتر قائم کرنا بھی اصولوں کے خلاف ہے۔ بھارت یا کسی بھی اور ملک کی کسی سیاسی پارٹی کے بیرونِ ممالک دفاتر نہیں ہیں۔ پاکستان میں یہ روایت 1972ء میں پڑی تھی۔ اس سے پہلے کسی بھی سیاسی جماعت کو بیرونِ ملک تو کجا آزاد کشمیر میں بھی اپنے دفاتر قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں (ن) لیگ‘ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کو غیرآئینی و غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔ آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آ زاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں قانون کے مطابق رجسٹرڈ نہیں ہیں لہٰذا انہیں یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو نوٹس جاری کریں۔ سیاسی جماعتوں نے رجسٹریشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آئندہ غیرقانونی رجسٹریشن نہ کی جائے کیونکہ آزاد کشمیر کے قانون میں عبوری رجسٹریشن کا کوئی تصور موجود نہیں‘ الیکشن کمیشن آئین کے بغیر کسی سیاسی جماعت کو رجسٹریشن نہیں دے سکتا تھا۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات کے بعد چیئرمین ضلع کونسل اور دیگر الیکشن میں جماعتی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر بہت سے کونسلرز کو نوٹس جاری کیے تھے جس پر متاثرہ کونسلر نے آزاد کشمیر ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں میں اصلاحات کیلئے ایسی قانون سازی کی جانی چاہیے یا پھر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 208میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم بھی کی جا سکتی ہے کہ پارٹی کا سربراہ تیسری بار پارٹی کا عہدیدار نہیں منتخب کیا جا سکتا۔ اسی طرح سے پارٹی میں موروثی سیاست کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ میں نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار کو جنوری 2017ء میں تجاویز بھجوائی تھیں کہ انتخابی اصلاحات میں سیاسی جماعتوں میں اصلاحات لانے کیلئے بھی قانون سازی کی جائے تاکہ ملک میں آئندہ عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے اندرونی ڈھانچہ کی بھی اصلاح ہو سکے۔
اسرائیل پر حماس کی کارروائی سے متعلق جو اطلاعات انٹرنیشنل میڈیا بالخصوص مغربی ٹی وی چینلز سے مل رہی ہیں‘ ان کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل پر اس وقت حماس کے مجاہدین کا خوف طاری ہے اور اسرائیلیوں کی بہت بڑی تعداد اسرائیل چھوڑ کر فرار ہو رہی ہے۔ ملک سے بھاگنے کیلئے اسرائیلی اشرافیہ دس گنا مہنگی ٹکٹ بھی خریدنے کو تیار ہے۔ جولائی 2004ء میں کامن ویلتھ کانفرنس میں مجھے اسرائیلی مندوب سے ملنے کا اتفاق ہوا تو اس نے کہا تھا کہ اسرائیل میں حماس اور الفتح کا اس قدر خوف ہے کہ انہیں یہی دھچکا لگا رہتا ہے کہ رات کو کسی پہر بھی فلسطینی تل ابیب پر قبضہ کر لیں گے۔ اسی خوف کی وجہ سے اسرائیلی اپنے پاس کثیر مقدار میں ڈالر رکھتے ہیں تاکہ بھاگنے کی صورت میں ان کے کام آ سکیں۔ ابھی تو حماس نے پہلی منظم کارروائی کی ہے اور اسرائیل کا ہر شہری اپنا ملک چھوڑنے کے لیے تیار ہو چکا ہے جبکہ اسرائیل برسوں سے مظلوم فلسطینیوں کو اپنے مظالم کا نشانہ بناتا چلا آ رہا ہے اور وہ پھر بھی اپنے محدود وسائل کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسرائیل پر حماس کی حالیہ کارروائی سے اسرائیلی حکومت شدید خوف زدہ ہو چکی ہے اور اپنی انٹیلی جنس ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے غزہ پر مستقل بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیلی افواج کے حملوں سے اب تک ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید جبکہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق دو لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔ حماس کی اس مربوط کارروائی کے بعد مسئلہ فلسطین کا حل زیادہ دور دکھائی نہیں دیتا۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب اسرائیل کو 1948ء کی حد بندی تک محدود ہونا پڑے گا۔ گوکہ پاکستان ہمیشہ سے مظلوم فسلطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور اب بھی غزہ پر اسرائیلی بمباری کی سرکاری سطح پر شدید مذمت کی گئی ہے لیکن یہاں کچھ حلقے اس جنگ کے حوالے سے پنٹاگان کی پالیسی پر کاربند ہوتے ہوئے عوام میں مایوسی اور بدگمانی پھیلانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کچھ اہم فیصلوں کا ذکر بھی ہو جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 204کے تحت تحریک انصاف کا ممنوعہ فنڈ ابھی تک ضبط نہیں کیا ہے اور اس ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے عمران خان کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سابق حکومت کے دور میں ان مقدمات کی پیروی کرنے سے گریز کیا گیا‘ یہی وجہ ہے کہ اس کیس کا ابھی کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ اگر تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لینے کے حوالے سے کوئی معاملہ اٹھتا ہے تو الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 204‘ 210اور 215 کو مدنظر رکھتے ہوئے کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔ اسی طرح اگر الیکشن کمیشن کے سامنے عمران خان کو پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹائے جانے کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 205کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ اس دفعہ کے مطابق ایسی کوئی صورت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے عمران خان کو پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہونا پڑے۔ دراصل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایسا کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے جنوری 2018ء کے اُس اہم فیصلے کو بھی مدنظر رکھنا ہے جس میں نواز شریف کو جولائی 2017ء میں نااہل قرار دیے جانے کی بنا پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہی سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔ اُس وقت پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل چار اور پانچ کے مطابق نواز شریف چونکہ قومی اسمبلی کے الیکشن کے لیے نااہل تھے‘ لہٰذا وہ پارٹی کے سربراہ بھی نہیں رہ سکتے تھے۔ لیکن بعد ازاں دو اکتوبر 2017ء میں الیکشن ایکٹ 2017ء منظور کر لیا گیا تھا جس میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 205میں ایسی شق کو حذف کر دیا گیا تھا جس کے تحت پارٹی کے سربراہ کو کسی مقدمے میں نااہل ہونے کے بعد پارٹی کے سربراہی سے محروم کیا جا سکے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس بارے میں اہم فیصلہ کرنے کا مکمل طور پر مجاز ہے۔
تحریک انصاف ممکن ہے الیکشن کمیشن سے قانون کے مطابق ریلیف لینے میں کامیاب ہو جائے لیکن چیئرمین تحریک انصاف اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس کی تلوار بہرحال لٹک رہی ہے۔ اگر اس کیس میں وہ قصوروار قرار پاتے ہیں تو انہیں تین سے چودہ سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو عمران خان کے لیے پارٹی کا سربراہ رہنا ممکن نہیں رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved