حماس اور اسرائیل کی لڑائی جاری ہے۔ جنوبی اسرائیل میں ابھی کچھ بستیوں اور ٹھکانوں میں فلسطینی جنگجو موجود ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد اسرائیل میں 1200 سے تجاوز کرگئی ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ دنیا کی توجہ ادھر اُدھر سے ہٹ کر مشرقِ وسطیٰ اور فلسطین پر مرکوز ہو گئی ہے اور کچھ علم نہیں کہ اس کے حتمی نتائج کیا ہوں گے۔
یہ تو سب کو پتا ہے کہ کیا ہوا‘ لیکن کیسے ہوا اور اس میں حیران کن غیر متوقع واقعات کیا ہیں‘ یہ زیادہ لوگوں کو علم نہیں۔ اور سب سے بڑا اور چکرا دینے والا سوال ہے کہ یہ سب کیوں ہوا؟ یہ سوال جتنا اہم ہے اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ کیوں ہوا کے سوال پر دنیا میں مسلسل بحثیں جاری ہیں۔ ایک فریق وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ ایک آخری لڑائی کے سوا فلسطینیوں کے لیے اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا۔ دوسرا فریق وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ یہ سب اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی ملی بھگت ہے جس کے تحت اسرائیل کو مزید توسیع دینا مقصد ہے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کے لیے یہ ایک ٹھکانہ بھی ختم کردینے کی چال ہے۔ دونوں فریقوں کے پاس دلائل ہیں اور بہت ہیں۔ کسی سے بھی صرفِ نظر کرنا مشکل ہے۔ فلسطینیوں پر جو عرصۂ زیست تنگ کردیا گیا ہے‘ جس طرح اسرائیلی بربریت کے سامنے دنیا سرنگوں ہے‘ اس کے پیشِ نظر تنگ آمد بجنگ آمد والا نظریہ بھی درست ہو سکتا ہے۔ دیوار سے لگے ہوئے لوگ اور کیا کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف عالمی اقوام نے نو گیارہ کے واقعات اور ان کے نتیجے میں بدلتی دنیا بھی دیکھی ہے۔ مسلم ممالک کی طاقت کو برباد ہوتے بھی دیکھا ہے اور اس پر کتنی ہی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں کہ نو گیارہ دراصل ایک منظم اور سوچی سمجھی چال تھی جو امریکی منصوبہ بندی کے تحت چلی گئی تھی اور اس کا اصل ہدف مسلمان تھے۔ حماس اور اسرائیل کی تازہ اور خونریز لڑائی کے حتمی نتائج کیا ہوں گے‘ ابھی کچھ کہنا مشکل ہے لیکن خدانخواستہ‘ خاکم بدہن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غزہ کی پٹی بھی اسرائیل کے قبضے میں آجائے اور پچیس لاکھ فلسطینی ملک بدر کر دیے جائیں۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن اسرائیل اور امریکہ کے بیانات اور عملی اقدامات اچھی خبر نہیں دے رہے اور ان کے ہاتھ اب جواز بھی آگیا ہے۔
دوسرے سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا۔ پیگاسس اور آئرن ڈوم کہاں چلے گئے تھے؟ دنیا کے بہترین جاسوسی نظام والی موساد کیسے اس حملے کی پیشگی اطلاع حاصل کرنے میں ناکام رہی؟ کیا یہ سب اسی طرح نہیں لگتا جیسا نائن الیون کے واقعات میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی دکھائی دیتی تھی‘ ان کے فضائی دفاع اور نگرانی کے نظام کی ناکامی کہی جاتی تھی۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس(Pegasus) اسرائیل کے پاس ہے۔ کچھ ماہ پہلے ہی اخبارات کی سرخیوں میں یہ تفصیل شائع ہوئی تھی کہ پیگاسس دنیا کا جدید ترین جاسوسی سافٹ ویئر ہے۔ پیگاسس 2010ء میں اسرائیل کے این ایس او گروپ نے بنایا تھا۔ یہ دنیا کے ہر مطلوبہ موبائل فون میں گھس سکتا ہے اور اس میں موجود فون نمبرز‘ کالوں کی تفصیل‘ انٹرنیٹ سرگرمی‘ پاس ورڈز‘ سوشل میڈیا سرگرمی‘ تصویریں‘ رابطوں کی تفصیل اس طرح اپنے مالک کے پاس پہنچا سکتا ہے کہ موبائل فون کے مالک کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ اسی طرح فلسطینیوں میں اسرائیل کی جاسوسی‘ اس کے ایجنٹوں کی ان میں شمولیت اور خبر رسانی‘ مخالف رہنماؤں کی نگرانی اور ان کی نقل و حرکت کا ریکارڈ‘ اسرائیل کے ہمسایہ ممالک میں اسرائیلی کارندوں کی زبردست موجودگی‘ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ ماضی میں فلسطینیوں میں موجود اسرائیلی کارندے ہی حماس کے ان لوگوں کی گاڑیوں میں ٹریکنگ سسٹم نصب کرتے رہے ہیں جنہیں بالآخر کسی حملے میں ختم کردیا گیا۔ فلسطینیوں کے لیے یہ ناممکن حد تک مشکل تھا کہ وہ کوئی بڑی کارروائی‘ کوئی بڑا حملہ‘ کوئی بڑی نقل و حرکت خفیہ رکھ سکیں۔ اس سب کے ہوتے ہوئے‘ یہ کیسے ہوا کہ پانچ ہزار سے زیادہ راکٹ داغے گئے‘ زمین سے باڑ کاٹ کر بیسیوں مسلح افراد اسرائیلی بستیوں میں داخل ہو گئے اور سمندر سے پیرا گلائیڈرز اسرائیل کے اندر اُتر گئے اور کسی کو پیشگی اطلاع تک نہ ہوئی۔
یہی حیران کن معاملہIron domکا ہے۔ اسرائیل کا میزائلوں کے ذریعے اپنا یہ فضائی دفاع غیرمعمولی ہے۔ آئرن ڈوم اعلیٰ حصار ہے جو اسرائیل نے اپنی بستیوں کے گرد میزائلوں‘ راکٹوں سے محفوظ رہنے کے لیے بنا رکھا ہے۔ یہ دراصل زمین سے فضا کا تھوڑے فاصلے کا دفاعی نظام ہے جو آنے والے میزائلوں‘ راکٹوں اور یو اے وی (UAV) یعنی وہ جہاز جس میں انسان نہ ہو‘ کو فضا ہی میں روک کر تباہ کر دیتا ہے۔ اس نظام کی رینج 70 کلو میٹر ہے اور یہ 2011ء سے اسرائیل کے لیے فعال ہے۔ اس نظام کے تین بنیادی حصے ہیں۔ پہلا ریڈار سسٹم‘ دوسرا کنٹرول سسٹم اور تیسرا لانچر سسٹم۔ ریڈار کسی بھی آنے والے راکٹ یا میزائل کا پتا چلاتا ہے۔ کنٹرول سسٹم اس کا فاصلہ‘ آنے کا راستہ اور پرواز کا دورانیہ ناپتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اسے روکنا ہے یا نہیں‘ اگر روکنا ہے تو لانچر سسٹم اسے تباہ کرنے کے لیے اسرائیلی تامیر (Tamir) میزائل فائر کرتا ہے۔ ایک وقت میں ایک موبائل لانچر سے بیس عدد تامیر میزائل فائر کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سسٹم اس حد تک مؤثر ہے کہ 90فیصد دشمن راکٹوں اور میزائلوں کو تباہ کردیتا ہے۔
تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ سات اکتوبر کو یہ آئرن ڈوم ناکام ہوگیا۔ دراصل ہوا یہ ہے اور حماس نے اس نظام کا توڑ یہ نکالاکہ بیس منٹ کے اندر پانچ ہزار سے زیادہ راکٹ فائر کیے۔ تامیر میزائلوں نے انہیں تباہ کرنا شروع کیا لیکن ایک ایک لانچر میں صرف بیس بیس میزائل ہی تھے۔ جلد ہی لانچر خالی ہونا شروع ہو گئے۔ چنانچہ ابتدائی 50‘ 60فیصد آنے والے راکٹ تباہ کرنے کے بعد لانچروں کے پاس روکنے کے لیے راکٹ بچے ہی نہیں تھے اور یہی بعد کے راکٹ ہیں جنہوں نے اسرائیل میں قیامت برپا کردی۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ فلسطینی راکٹ تیاری میں سستا ہے جبکہ تامیر میزائل اس کے مقابلے میں کافی مہنگا پڑتا ہے۔ چنانچہ جیسے حماس کی یہ منصوبہ بندی کامیاب ہوئی اور اسرائیل میں تباہی شروع ہوئی‘ حماس کے مسلح جنگجو زمین اور فضا سے اسرائیلی علاقوں میں داخل ہو گئے۔ بے شمار اسرائیلیوں کو ہلاک کردیا یا یرغمال بنا کر غزہ کی پٹی میں لے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان قیدیوں میں ایک اسرائیلی میجر جنرل بھی موجود ہے۔ اسرائیل نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس کے بے شمار فوجی فلسطینی قبضے میں ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کا یہ زخم ہمیشہ رستا رکھا ہے‘ ایک بار پھر اسرائیل کی مدد کے لیے آگئے ہیں۔ ایران اور ترکی فلسطینیوں کی حمایت میں کھل کر سامنے ہیں۔ باقی مسلم ممالک کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ وہ کھل کر اسرائیل کی مخالفت سے بھی ڈرتے ہیں اور شرما شرمی فلسطینیوں کی حمایت میں بیان بھی دینا پڑتے ہیں۔
سچ پوچھیں تو دنیا ظالموں اور مظلوموں کے دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک ایک کرکے مسلمان ممالک اجڑتے جاتے ہیں‘ لوگ شہید ہوتے جاتے ہیں‘ بے گھر ہوتے جاتے ہیں۔ ان کے اپنے وطن‘ جیسے بھی ہیں‘ ان کے اپنے نہیں رہے۔ جن ممالک میں ذرا دم خم باقی ہے‘ ان پر دشمنوں کی نظریں ہیں اور انہیں طرح طرح سے گھیرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ فلسطین اُجڑ رہا ہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو سکے لیکن عراق‘ شام‘ لیبیا‘ مصر‘ الجزائر‘ افغانستان سب ہمارے سامنے تباہ ہوئے۔ ایک ایک ملک ہمارے سامنے اُجڑا۔ اور اُجڑنا بھی ایسا ویسا؟ ایسا اُجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved