افغانستان پاکستان کا مغربی ہمسایہ ملک ہے اور پاکستانی معیشت افغان معیشت سے براہِ راست متاثر ہوتی ہے۔ افغانستان کی کرنسی کی بات کی جائے تو آج ایک امریکی ڈالر لگ بھگ 75 افغانی کے برابر ہے۔ پاکستان میں یہی ڈالر تقریباً 280 روپے اور بھارت جیسی پھلتی پھولتی معیشت میں 84 بھارتی روپوں کے برابر ہے۔ گزشتہ ہفتے افغانستان کی کرنسی کو کوارٹر (گزشتہ تین ماہ) کی بہترین پرفارمنس دکھانے والی کرنسی قرار دیا گیا‘ جس پر کچھ حلقوں کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان کے کچھ پلیٹ فارمز پر اسے افغانستان میں برسراقتدار طالبان کی ''کامیابی‘‘ قرار دیا گیا۔ حیرانی یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں موجود حکومت کو دنیا کا کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا‘ جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہے‘ جس کے بیرونِ ملک اثاثے منجمد ہیں اور جہاں بھوک اور افلاس کے ڈیرے ہیں‘ اس کی کرنسی میں ایسا خاص بات کیا ہے کہ یہ گزشتہ تین ماہ کے دوران دنیا کی ''بیسٹ پرفارمنگ‘‘ کرنسی رہی؟ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بسنے والے لگ بھگ 66 فیصد شہری بنیادی ضروریاتِ زندگی مشکل سے افورڈ کر پاتے ہیں جبکہ بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2021ء میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے اقوام متحدہ نے 5.8 ارب ڈالر امداد کی غرض سے بھیجے۔ افغان کرنسی کی قدر میں بہتری حقیقی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ یہ افغانستان کے پیدواری عمل میں بہتری کے نتیجے میں نہیں ہے۔ طالبان حکومت میں افغانستان میں تجارتی اور پیداواری سرگرمیاں بھی بہتر نہیں ہوئیں بلکہ بھوک اور افلاس پر قابو پانے کیلئے ملنے والی امدادی رقوم اور کچھ ترسیلاتِ زر کو بینکوں میں جمع کیا جا رہا ہے جس کے باعث افغان کرنسی بہتر نظر آئی ہے۔ اس بہتری کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حالیہ دنوں میں اس خطے میں بیشتر ممالک کی کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب افغان کرنسی عالمی مارکیٹ میں ابھی تک موجود نہیں ہے۔ جب افغان سینٹرل بینک ڈالر اوپن مارکیٹ میں لے آئے اور اس کو متوازن رکھے‘ تبھی صورتحال واضح ہو سکتی ہے۔ افغانستان جیسے ممالک میں کرنسی ایکسچینج ریٹ ملک کی معاشی ترقی سے منسلک فیکٹر نہیں؛ تاہم ایسا بھی نہیں کہ اس میں طالبان کی موجودہ حکومت کی کاوشیں شامل نہیں۔ طالبان کے آنے کے بعد جو سب سے بڑا کام ہوا وہ امن کا قیام ہے۔ پہلے سامان کی ترسیل کے دوران مختلف جرائم پیشہ گروہ اپنے اپنے علاقے میں تاجروں سے بھتہ لیتے تھے جس کا اب خاتمہ ہو چکا ہے اور اب کسی اضافی لاگت کے بغیر سامان آسانی سے منڈی میں پہنچ جاتا ہے جبکہ دیگر ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان سے بھی سامان کی ترسیل آسان ہوئی ہے؛ تاہم جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد نئے مسائل نے بھی جنم لیا ہے جن میں سے ایک عالمی امداد اور اداروں کے تعاون کا خاتمہ ہے۔ اِس وقت افغانستان کو کئی مسائل درپیش ہیں مگر بعض شعبوں میں سخت کنٹرول کے باعث بہتری بھی آ رہی ہے۔ افغان طالبان نے پاکستان سمیت دیگر ممالک کی کرنسیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور فی الوقت تجارت کے لیے صرف افغان کرنسی کے استعمال کا حکم دیا گیا ہے جس وجہ سے افغان کرنسی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان کی بیرونی دنیا سے تجارت بہت محدود سطح پر ہے اور اگر تھوڑی بہت ہو بھی رہی ہے تو اس کیلئے رقم باقاعدہ چینلز کے بجائے مختلف دیگر طریقوں سے بروئے کار آتی ہے۔ سرِدست افغانستان میں معیشت کی بہتری کیلئے کچھ نہیں ہے، چین اور پاکستان جیسے ممالک سے جو سرحدی تجارت ہو رہی ہے وہ بھی مقامی سطح پر ہے۔
دنیا بھر میں تمام ممالک کی ایکسچینج ریٹ پالیسی مختلف ہوتی ہے۔ کچھ ممالک فکس ایکسچینج ریٹ رکھتے ہیں جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور نیپال کا بھارت کے ساتھ فکس ایکسچینج ریٹ ہوتا ہے جبکہ بعض ممالک میں ایکسچینج ریٹ مارکیٹ میں طلب اور رسد کی بنیاد پر کام کرتا ہے؛ تاہم بعض ممالک کی پالیسی ''مینجڈ‘‘ ہوتی ہے۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے وہاں ڈالر مارکیٹ میں تو دستیاب ہے لیکن سینٹرل بینک مداخلت کرتا رہتا ہے تاکہ افراطِ زر کو قابو میں رکھا جا سکے۔ نیز ایکسچینج ریٹ اس سطح پر رکھا جاتا ہے کہ ہمسایہ ممالک یا پارٹنرز سے سامانِ تجارت کم قیمت پر دستیاب ہو سکے۔ اب جو صورتحال ہے اس میں ڈالر باہر سے زیادہ آ رہے ہیں مگر حکومتی کنٹرول کے باعث لوگ انہیں نکال نہیں سکتے، جبکہ پورے ملک میں تجارت صرف افغان کرنسی میں ہوتی ہے، اس لیے افغان کرنسی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں ڈالر کی آمد فیزیکل ہے، اسکے علاوہ تجارتی معاہدے بھی بینک کے ذریعے نہیں ہو رہے اس لیے افغانی کرنسی کو مضبوط کرنسی سمجھنا عالمی قوانین اور اصولوں کے مطابق درست نہیں۔ اسی طرح پاکستان کی کرنسی کو بھی بہترین کرنسی قرار دینا حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے جس کا ذکر میں اپنے پچھلے کالموں میں کر چکا ہوں۔
کرنسی کے غیر قانونی کاروبار کے خلاف کریک ڈاؤن بھی ستمبر میں ترسیلاتِ زر کو نمایاں طور پر بہتر کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی بجا طور پر توقع کی جا رہی تھی۔ ستمبر میں ماہانہ بنیادوں پر ترسیلاتِ زر میں 25 فیصد کی توقعات کے برعکس محض پانچ فیصد اضافہ ہوا؛ تاہم رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کا گزشتہ برس کے اسی عرصے سے تقابل کیا جائے تو 20 فیصد کمی آئی ہے۔ مالیاتی شعبہ کرنسی کے غیر قانونی کاروبار اور سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کے مثبت نتیجے کے بارے میں پُرامید تھا جبکہ بیرونِ ملک سے بینکنگ چینل سے زیادہ رقوم بھیجے جانے کی اطلاعات بھی مل رہی تھیں مگر ستمبر میں ترسیلاتِ زر دو ارب 20 کروڑ ڈالر رہیں جو اگست میں دو ارب نو کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھیں۔ کریک ڈاؤن ستمبر کے پہلے ہفتے میں شروع کیا گیا تھا مگر اس سے معاشی منظرنامہ تبدیل نہیں ہوا۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے مطابق گزشتہ چار ہفتوں کے دوران 90کروڑ ڈالر بینکوں کو فروخت کیے گئے اور یہ براہِ راست کریک ڈاؤن کا اثر ہے مگر ترسیلاتِ زر کی مایوس کن آمد کے سبب آئندہ دنوں میں شرحِ تبادلہ کا رجحان تبدیل ہو سکتا ہے۔ اگر اکتوبر نہیں تو نومبر میں ڈالر کی قدر میں دوبارہ اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مالی سال 2024ء کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً تمام ممالک سے ترسیلاتِ زر کی آمد میں تنزلی ہوئی، سب سے زیادہ کمی متحدہ عرب امارات سے 30 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب سے بھی ترسیلاتِ زر میں واضح کمی ہوئی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ حکمران ملکی کرنسی پر عوامی اعتماد بحال کرنے میں ناکام کیوں ہیں۔ گزشتہ کالموں میں ذکر ہو چکا کہ پاکستانی کرنسی میں بہتری ملک کی ترقی کی طرف اشارہ نہیں کر رہی اور اب سٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ نے اس دعوے کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ فکر انگیز بات یہ ہے کہ اگر تاریخ کے سب سے بڑے کریک ڈائون کے بعد بھی بیرونِ ملک پاکستانیوں کا اعتماد بحال نہیں ہو رہا تو پھر کب اور کیسے ہو گا؟ اگر یہ امید بھی ٹوٹ گئی تو آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ سوچ بھی تقویت اختیار کر رہی ہے کہ شاید یہ کریک ڈائون عارضی ہے‘ انتخابات کے بعد جب سیاسی حکومت آئے گی تو ایک مرتبہ پھر غیر یقینی کی صورتحال میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ بیرونِ ملک بیٹھے پاکستانیوں کو ڈالرز بھیجنے پر خصوصی ڈسکائونٹ دیں۔ ترسیلاتِ زر کو ایک انڈسڑی کا درجہ دیا جائے اور مؤثر پالیسیاں متعارف کرائی جائیں۔ ماضی میں روشن ڈیجیٹل اکائونٹ ایک بہترین قدم تھا۔ اس کے ساتھ پیداوار اور ایکسپورٹ کو بہتر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
عالمی بینک کے مطابق صوبائی دائرہ اختیار میں آنے والے دو بڑے شعبوں‘ رئیل اسٹیٹ اور زراعت‘ سے وابستہ لوگوں کی زیادہ تر آمدن غیر ٹیکس شدہ ہے، جس پر ٹیکس عائد کرنا چاہیے تاکہ وفاق پر مالی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ رئیل اسٹیٹ سے جی ڈی پی کا دو فیصد اور زراعت سے ایک فیصد ریونیو حاصل کرنے کا ہدف ہے۔ عالمی بینک نے حکومت کو ایک تفصیلی پالیسی پیپر جمع کرایا ہے۔ یہ مقالہ بہتر، توسیعی اور جدید زرعی انکم ٹیکس کے ذریعے ٹیکس محصولات میں اضافے کی ترغیب دیتا ہے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ وہ غیر رجسٹرڈ اداروں‘ خصوصی طور پر زراعت، رئیل اسٹیٹ اور دکانداروں‘ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کرے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved