تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     13-10-2023

حماس کیا ہے؟

حماس کیا ہے؟ اس میں کون لوگ شامل ہیں؟ اسرائیل حماس جنگ کے تناظر میں یہ سوال ہر کوئی اُٹھا رہا ہے۔ تاریخ میں دیکھا جائے تو حماس کی جڑیں 1928ء میں مصر میں اخوان المسلمین کے قیام سے جا کر جڑتی ہیں۔ اُس دور میں اخوان المسلمین بنیادی طور عرب اور اسلامی ریاستوں میں ایک ایسی اسلامی تحریک کے طور پر منظم ہوئی تھی جس کا مقصد اسلامی اقدار کو مسجد سے باہر نکال کر سیاسی و سماجی زندگی تک پھیلانے کی کوشش کرنا تھا۔ اپنے ابتدائی اعلامیے میں اس تنظیم نے اُس وقت کے بنیادی‘ مروجہ‘ سماجی‘ سیاسی اور نظریاتی خیالات‘ قوم پرستانہ جذبات اور معاشی نظام کو چیلنج کیا۔ 1935ء میں اس تنظیم نے فلسطین میں رابطے قائم کرنا شروع کیے۔ اگلے دس برسوں میں یعنی 1945ء تک اس نے یروشلم اور غزہ میں اپنی شاخیں قائم کیں۔ 1948ء میں نکبہ کے بعد کے حالات نے فلسطینی معاشرے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ اس کے ردِعمل میں اخوان المسلمین ان پہلی تنظیموں میں سے ایک تھی جس نے خود کو فلسطینیوں میں متعارف کرایا اور بطور تنظیم اپنے آپ کو منظم کیا۔ اس کے بعد یہ تنظیم فلسطین میں سماجی اور فلاحی کاموں میں متحرک کردار ادا کرتی رہی۔ جب اسرائیل نے 1967ء میں فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا تو اخوان المسلمین کے اراکین نے مزاحمت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ تنظیم نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اس کا مقصد سماجی اور مذہبی اصلاحات اور اسلامی اقدار کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ اس کے بعد طویل عرصہ تک اس تنظیم نے اپنی سرگرمیوں کو سماجی و مذہبی اصلاحات کے کام تک محدود رکھا۔ یہ نقطۂ نظر اور مؤقف 1980ء کی دہائی کے اوائل میں بدلنا شروع ہوا۔ اس تبدیلی کے پیچھے محرک احمد یاسین تھے جو الجورا سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی پناہ گزین تھے۔ غریب پس منظر رکھنے اور جسمانی طور پر معذور ہونے کے باوجود وہ مختصر عرصے میں غزہ میں اخوان المسلمین کے ایک رہنما بن کر سامنے آئے۔ اُن کے کرشمہ اور یقین نے ان کے ارد گرد پیروکاروں کا ایک وفادار گروہ جمع کیا جن پر وہ ہر چیز کے لیے انحصار کرتے تھے۔ یہ پیروکار انہیں کھانا کھلانے سے لے کر عوامی اجتماعات تک پہنچانے تک ہر قسم کا کام کرتے تھے۔ 1973ء میں احمد یاسین نے اخوان المسلمین کی شاخ کے طور پر غزہ میں سماجی‘ مذہبی اور خیراتی ادارے المجامع الاسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اسرائیلی حکام نے احمد یاسین کے اس خیراتی ادارے کی مدد کرنے کی پالیسی اپنائی کیونکہ ان کے خیال میں یہ تنظیم سیکولر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے ساتھ توازن قائم کرنے کے کام آسکتی تھی۔ Yitzhak Rabin‘ جو اُس وقت غزہ کا اسرائیلی فوجی گورنر تھا‘ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اُس نے اس خیراتی ادارے کو فنڈز فراہم کیے تھے۔ اسی طرح غزہ میں اسرائیل کے مذہبی امور کے عہدیدار ایونر کوہن نے لکھا کہ حماس کو اسرائیل ہی نے بنایا تھا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنے اعلیٰ افسران کو خبردار کیا تھا کہ وہ سیکولر پی ایل او کے مقابل اسلام کے پیروکاروں کی پشت پناہی نہ کریں لیکن اسرائیل نے یہ عمل جاری رکھا جبکہ حماس کے لیے اسرائیل کی حمایت اس کے سیکولر حریف‘ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کو محدود کرنے اور اس کی طاقت کم کرنے کا ایک ذریعہ تھی۔ 1984ء میں احمد یاسین کو اُس وقت گرفتار کر لیا گیا جب اسرائیلیوں کو پتا چلا کہ ان کے گروپ نے اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے لیکن بعد میں مئی 1985ء میں قیدیوں کے تبادلے کے طور پر اُن کو رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے غزہ میں اپنے خیراتی اداروں کی رسائی بڑھانے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ اپنی رہائی کے بعد انہوں نے المجد (مناظم الجہاد و الدعوۃ کا مخفف) قائم کیا‘جس کی سربراہی سابق طالب علم رہنما یحییٰ سنوار اور راوی مشتاحہ نے کی‘ جنہیں اندرونی سلامتی سے نمٹنے اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے مقامی مخبروں کا مقابلہ کرنے کا کام سونپا گیا۔ تقریباً اُسی وقت انہوں نے سابق طالب علم رہنما صلاح شیہدے کو المجاہدین الفلسطینون (فلسطینی جنگجو) قائم کرنے کا حکم دیا لیکن ان مجاہدین کو اسرائیلی حکام نے جلد ہی پکڑ لیا اور اُن کے ہتھیار ضبط کر لیے۔
حماس کے قیام کا بنیادی خیال 10دسمبر 1987ء کو اخوان المسلمین کے اجلاس میں زیر بحث لایا گیا۔ یہ اجلاس والیاس واقعے کے بعد منعقد ہوا تھا جس میں غزہ کی ایک چوکی پر اسرائیلی فوج کا ایک ٹرک فلسطینیوں کی ایک کار سے ٹکرا گیا تھا جس میں چار فلسطینی دیہاڑی دار مزدور جاں بحق ہو گئے تھے۔ یہ اجلاس احمد یاسین کے گھر پر منعقد ہوا اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ انہیں بھی کسی نہ کسی طریقے سے ردِعمل کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ پہلے ہی انتفادہ کو جنم دینے والے احتجاجی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ اس طرح 14دسمبر کو جاری کردہ ایک کتابچے میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا مطالبہ کیا گیا اور اسے ان کی پہلی عوامی مداخلت کا نشان قرار دیا گیا۔ اس پیش رفت کے باوجود خود حماس کا نام جنوری 1988ء تک استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ احمد یاسین کا تنظیم سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا لیکن حماس کو اُن کی حمایت ضرور حاصل تھی۔ آگے چل کر فروری 1988ء میں اُردنی اخوان المسلمین کے ساتھ ایک میٹنگ میں انہوں نے بھی اس کی با ضابطہ منظوری دے دی تھی۔ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ اقدام ان کی قومی توقعات کے ساتھ زیادہ میل کھاتا دکھائی دیتا تھا کیونکہ اس تنظیم نے پی ایل او کے منشور کا ہی ایک اسلامی ورژن فراہم کیا تھا اور قومی آزادی کے سوال اور دیگر سیاسی مطالبات کو مذہبی رنگ دے کر پیش کیا تھا۔ اُس وقت حماس کو اخوان المسلمین سے الگ کرنا ایک عملی ضرورت تھا کیونکہ اخوان المسلمین نے اسرائیل کے خلاف عسکری جدوجہد میں حماس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس طرح انتفادہ میں شرکت کیے بغیر اس سے منسلک افراد کو خدشہ تھا کہ وہ اپنی حریف تنظیموں یعنی فلسطینی اسلامی جہاد اور پی ایل او کے مقابلے میں عام لوگوں کی حمایت کھو دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ وہ اپنی فلاحی سرگرمیوں کو عسکری کارروائیوں سے الگ رکھیں گے جس کی وجہ سے اسرائیل ان کے سماجی کاموں میں مداخلت نہیں کرے گا۔
اگست 1988ء میں حماس نے اپنا باقاعدہ چارٹر شائع کیا جس میں اس نے خود کو اخوان المسلمین کے ایک باب کے طور پر پیش کیا اور پہلی بار واضح طور پر فلسطین میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا۔ آگے چل کر اسرائیلی پالیسی سازوں کی خواہش اور تجزیے کے عین مطابق حماس کا پی ایل او سے ٹکراؤ شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اس نے اسلام پسندوں کی حمایت سے پی ایل اوکو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ 2004ء میں یاسر عرفات کی موت کے بعد حماس اور الفتح کے درمیان تصادم خونیں شکل اختیار کر گیا۔ فلسطین کے خود مختار کمیشن برائے شہری حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق 2006-07ء میں حماس اور پی ایل او کی الفتح کے درمیان تصادم کی وجہ سے 600سے زائد فلسطینی شہید ہوئے تھے۔ 2006ء کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حماس نے کامیابی حاصل کر لی۔ 2007ء میں حماس کی طرف سے غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے ممبران پر مشتمل حکومت قائم کر لی اور الفتح سمیت فلسطین کے دیگر تمام سیاسی دھڑوں کو باہر کر دیا۔ حماس کو امریکہ‘ کینیڈا‘ یورپی یونین اور دیگر کئی ممالک دہشتگرد اور بنیاد پرست تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ اس کا اظہار اس وقت اسرائیل کے ساتھ حماس کے موجودہ تصادم پر ان ممالک کے مؤقف سے بھی ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved