خطۂ فلسطین میں انیسویں صدی میں صہیونی تحریک نے اپنے قدم جمانا شروع کر دیے تھے۔ فلسطینیوں کو ان کی ہی سرزمین پر دربدر کر دیا گیا۔ انیسویں صدی کے اوئل میں جنرل ایلن نے ترک سلطنت یعنی خلافتِ عثمانیہ کو شکست دی۔ یوں اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے کی بنیاد ڈالی گئی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد یہ خطہ برطانیہ کے زیرتسلط آ گیا جہاں یہودی بڑی تعداد میں منتقل ہونے لگے اور یوں مقامی عرب آبادی کے ساتھ تناؤ کا آغاز ہو گیا۔ اسی دوران برطانیہ اور فرانس نے مشرقِ وسطی کو تقسیم کیا اور مختلف ریاستوں کا قیام عمل میں آیا؛ تاہم فلسطین برطانیہ کے زیرتسلط ہی رہا۔ 1947ء میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا، یوں 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کا قیام ناجائز طور پر عمل میں لایا گیا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اسرائیل کا جنم مغرب کی اشیرباد سے ہوا اور یہاں دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر بسایا گیا۔ یروشلم کی گلیوں نے صدیوں تک لڑائی دیکھی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ فلسطین کے علاقے میں ایک صہیونی ریاست کے قیام سے اسرائیلوں کو اپنی من مانی کا موقع مل گیا اور انہوں نے سرزمین فلسطین پر مزید قبضہ شروع کردیا۔ چند سال قبل امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر اس غیرقانونی قبضے کی توثیق کرتے ہوئے اس پر اپنی رضامندی کی مہرلگا دی تھی۔ فلسطین یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتا ہے جبکہ اسرائیل کی بھی یہی منشا ہے؛ تاہم ابھی تک بیشتر سفارتی عملہ اور ادارے تل ابیب سے آپریٹ کرتے ہیں۔ یروشلم ایک متنازع علاقہ ہے اور یہاں معاملات حل طلب ہیں؛ تاہم امریکہ کا یروشلم کو اسرائیل کا حصہ کہنے پرعرب دنیا خاص طور پر فلسطینیوں میں بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مگر ان کے اس طرح غصہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ فلسطین کے مسلمانوں کو باقی دنیا کی اخلاقی اور مالی مدد کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر غزہ میں اس وقت پانی‘ ادویات اور راشن کی سخت ضرورت ہے۔ یروشلم میں ایک بڑی آبادی فلسطینیوں کی ہے مگر یہودی آباد کار مسلسل انہیں بیدخل کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہودی بستیوں کی تعمیر بھی اس خطے میں ایک بڑا تنازع ہے۔ 1947ء سے جاری اس تنازع میں اب تک لاکھوں لوگ جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ حالیہ جھڑپوں میں اسرائیل کے 900 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔
حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملہ اتنا شدید تھا کہ اسرائیل ہل کررہ گیا۔ بہت سے لوگ اس پلاننگ پر دنگ ہیں کہ کس طرح حماس نے دنیا کی ایک بڑی طاقت کو بالکل بے بس کردیا۔ اسرائیل کے پاس ہر طرح کی جدید ٹیکنالوجی ہے، وہ اسلحے کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے جبکہ مغربی ممالک کی اشیرباد بھی اسے حاصل ہے۔ حماس کے پاس آزادی کا جذبہ تو ہے لیکن اس کے پاس وسائل موجود نہیں ہیں۔ جس طرح سے یہ جنگجو اسرائیل میں اترے‘ وہ مناظر بہت ہی حیران کن تھے۔ حماس نے خشکی، فضا اور سمندر‘ تینوں اطراف سے بیک وقت حملہ کیا۔ جب اپنے وطن پر بات بن آئے تو لڑنے کا الگ ہی جذبہ ہوتا ہے۔
حماس کے اچانک حملے نے اسرائیل کو حواس باختہ کر دیا۔ حماس نے بڑی تعداد میں میزائل اسرائیل کی طرف داغے اور اس کی آئرن ڈوم ٹیکنالوجی ان میزائلوں کے سامنے بے بس نظر آئی۔ اس کے ساتھ زمینی اور آبی حملہ بھی کیا گیا۔ حماس نے بلڈوزروں کے ذریعے خاردار تاروں کو ہٹایا، اسرائیلی ناکوں کو عبور کیا اور اسرائیلیوں کو ان کے علاقوں میں گھس کر نشانہ بنایا۔ کچھ جنگجو فضا سے پیراشوٹ کے ذریعے‘ کچھ کشتیوں سے اور کچھ موٹرسائیکلوں کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہوئے۔ پیراشوٹ والے جنگجوئوں کو دیکھ کر میں دنگ رہ گئی کیونکہ انہوں نے میزائل حملوں اور فائرنگ کے دوران اسرائیل میں لینڈ کیا تھا۔ اسرائیل نے اب خود کو حالتِ جنگ میں قرار دیا ہے۔ اہلِ غزہ کے پاس سامانِ حرب تو بہت کم ہے لیکن جذبۂ ایمانی بہت ہے۔ اسی کے زور پر وہ اپنے علاقے اسرائیل سے واپس لینا چاہتے ہیں۔
اسرائیل نے حماس سے حملوں کا بدلہ عزہ کے نہتے عوام پر بمباری کر لے لیا ہے۔ اب تک بچوں‘ خواتین اور بزرگوں سمیت 1400 سے زائد شہری شہید ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ کثیر تعداد میں رہائشی بلڈنگز کو بھی تباہ کیا گیا ہے۔ غزہ پہلے ہی بے شمار بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اور اس کو ایک بہت بڑی جیل قرار دیا جاتا ہے، رہی سہی کسر اسرائیل کے حملے پوری کردیتے ہیں۔ اسرائیل ہمیشہ فلسطین کی شہری آبادی کو نشانہ بناتا ہے۔ اب حماس نے وارننگ دی ہے کہ اگر شہریوں پر حملے نہ رکے تو وہ اسرائیل کے یرغمالیوں کو قتل کرنا شروع کردیں گے۔اس حملے کے دوران حماس نے سینکڑوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ اسرائیل کا جواب مشرقِ وسطیٰ کی شکل بدل دے گا۔ جنگ بندی کے بجائے حالات کے مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے جس کا نشانہ سویلینز ہی بنیں گے۔
میں جنگ و جدل سے بہت گھبراجاتی ہوں۔ میرے نزدیک ایک انسانی جان کا قتل ایک پورے خاندان کی تباہی کے مترادف ہے۔ اس وقت تک ہزاروں لوگ دونوں اطراف سے قتل ہوچکے ہیں یعنی ہزاروں خاندان تباہ ہوگئے ہیں۔ ہمیں ان کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ یہ خطہ ایک پُرامن حل چاہتا ہے لیکن عالمی طاقتوں نے اس کو جنگ کا ایندھن بنا دیا ہے۔ انسانی جان کی حرمت بہت زیادہ ہے، مجھ سے بچوں کا دکھ نہیں دیکھا جارہا۔ گولی یا میزائل وغیرہ کسی کی عمر کو نہیں دیکھتے۔
دوسری طرف مسئلہ کشمیر بالکل ہی پس پشت چلا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوبِ رائے کشمیریوں کا حق ہے مگر بھارت نہ ان کو آزادی دے رہا ہے نہ ہی آزادانہ رائے دہی کا حق دے رہا ہے۔ پاکستان اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے اور مقبوضہ کشمیر اب چند مخصوص دنوں پر ہی یاد آتا ہے، اس کے علاوہ مکمل خاموشی ہے۔ ظلم پر خاموشی اور کوئی ردعمل نہ دینا مجرموں کو مزید شیر بنادیتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مجاہدین اور رہنمائوں کو پہلے ریاست پاکستان اعلانیہ اور غیر اعلانیہ سپورٹ کرتی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ٹی وی، رسالوں اور اخبارات وغیرہ میں کشمیر کاز کو خاص جگہ دی جاتی تھی۔ حکومتوں کی ترجیحات میں بھی کشمیر ایشو سرفہرست ہوتا تھا مگر اب پاکستان اندرونی سیاست میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل نے ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری سمیت ہر کاز کو متاثر کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اب بھی ظلم ہو رہے ہیں مگر اب ان کی آواز کون ہے ؟ یٰسین ملک کو جیل میں بند کیا ہوا ہے، ان کی اہلیہ اور بیٹی کو ان سے ملنے نہیں دیا جارہا لیکن کوئی شنوائی ہی نہیں۔ وہ حریت پسند لیڈر ہیں مگر بھارت ان کے ساتھ شدید زیادتی کررہا ہے۔ آزادی کشمیریوں کا حق ہے۔ بھارت نے بھی اسرائیل کی طرح‘ مقبوضہ کشمیر کو اسلحے کا ڈھیر بنا رکھا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کشمیریوں کو ہرا نہیں پایا۔ بہادری کشمیریوں کے خون میں شامل ہے۔ نہتے عوام ظلم سہہ رہے ہیں مگر بھارتی جبر کا مقابلہ کررہے ہیں۔ مودی سرکار نے 2019ء میں کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا تھا، وہاں کئی ماہ تک مسلسل کرفیو نافذاور انٹرنیٹ بند رہا۔ اس دوران لوگوں کے گھر لوٹے گئے، نوجوان شہید ہوئے، خواتین کی عصمت دری کی گئی؛ تاہم عالمی برادری مقبوضہ کشمیر یا فلسطین پر ہونے والے مظالم پر خاموش ہوجاتی ہے اور اسرائیل اور بھارت کی ہم آواز بن جاتی ہے۔ ظلم کا یہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چلے گا‘ یہ سلسلہ کوئی نہ کوئی ضرور ختم کرے گا۔ بہتر یہ ہو گا کہ اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے تاکہ ان خطوں سمیت پوری دنیا میں امن قائم ہو اور تمام خطوں میں لوگ پُرسکون انداز سے زندگی گزار سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved