پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان‘ جنہوں نے قائداعظم کی ہدایت پر 1947ء میں اقوامِ متحدہ میں فلسطینیوں کے مؤقف کا مؤثر انداز میں دفاع کیا تھا‘ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ دو ہزار سال پرانا ہے اور آئندہ دو ہزار سال تک موجود رہے گا۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسئلہ حل کی طرف بڑھنے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتا چلا آیا ہے۔ وجۂ تنازع بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع مشرقِ وسطیٰ کی وہ پٹی ہے جس پر قبضہ کرکے پورے مشرقِ وسطیٰ پر کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کنٹرول کے حصول میں مقامی لوگوں سے زیادہ باہر کی ایسی طاقتوں کے مفادات وابستہ رہے ہیں جو ترکی کے جنوب سے شروع ہو کر لبنان‘ شام‘ فلسطین اور مصر سے گزر کر مراکش تک بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ان علاقوں کو ان کی جیو سٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے زیر تسلط لانا چاہتے تھے۔ ان علاقوں میں سب سے زیادہ اہمیت زمین کے اس ٹکڑے کی ہے جو 1948ء سے پہلے فلسطین کہلاتا تھا اور آج کل اسرائیل اور اُردن کے دو علیحدہ ملکوں میں منقسم ہے۔
جان گلب پاشا (John Bagot Glubb)‘ جو ایک برطانوی آفیسر اور اُردن کی فوج عرب لیجن (Arab Legion) کے کمانڈر ان چیف تھے‘ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ دنیا میں بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع اس پٹی (فلسطین) پر قبضے کے لیے ملکوں‘ قوموں اور سلطنتوں کے درمیان لڑائیوں میں جتنی تباہی ہوئی اور خون بہا ہے اتنا کسی اور علاقے کے لیے نہیں بہا کیونکہ یہ علاقہ نہ صرف تین براعظموں (ایشیا‘ یورپ اور افریقہ) کو ملانے والے راستوں کے مرکز پر واقع ہے بلکہ قدیم دنیا کے دوسرے ملکوں یعنی چین اور یورپ کے درمیان مشہور شاہراہِ ریشم کے کنٹرول میں مرکزی حیثیت بھی رکھتا تھا۔ اسی لیے یہ علاقہ اپنے دور کی ہر ایمپائر خواہ وہ قدیم مصر ہو یا ایران‘ رومن ہو یا سکندر اعظم کا یونان‘ عرب (سلطنت عثمانیہ) ہو یا برطانیہ اور ان کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ کا لازمی حصہ یا زیر کنٹرول خطہ رہا ہے۔
انیسویں صدی کی برٹش ایمپائر کو جب نظر آیا کہ مصر میں قوم پرستی اور آزادی کی تحریک کو دبانا مشکل ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کو بچانے کے لیے خطے میں کسی متبادل جگہ کو ڈھونڈنا پڑے گا تو اس کی نظر بھی فلسطین پر پڑی جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اس نے پہلی جنگ عظیم (1914-18ء) کے دوران دو نومبر 1917ء کو بالفور ڈکلریشن کے ذریعے ایک یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا حالانکہ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم تھی‘ مگر مشرقِ وسطیٰ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں مثلاً جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں واقع اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے کسی متبادل اڈے کی ضرورت تھی کیونکہ اس سے نہ صرف نہر سویز کو اپنے کنٹرول میں رکھا جا سکتا تھا بلکہ خطے میں تیل کی دریافت سے پیدا ہونے والے مفادات کا بھی تحفظ کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت فلسطین سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا جو پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ اور فرانس کے خلاف جرمنی کا اتحادی تھا مگر اس نے شکست کھائی۔ اس شکست کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ (ترکی) کے حصے بخرے کر دیے گئے اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے علاقوں کو اتحادی طاقتوں نے (برطانیہ اور فرانس) لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ سسٹم کے تحت اپنے قبضہ میں لے لیا۔ قبضہ کرنے کے بعد برطانیہ نے فلسطین کے دروازے یہودیوں پر کھول دیے۔ فلسطین کی عرب آبادی نے اس کے خلاف مزاحمت کی مگر یہودی مسلح جتھوں کے ساتھ مل کر برطانیہ نے عربوں کی اس مزاحمت کو سختی سے کچل دیا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دور میں امریکہ ایک عالمی طاقت بن کر ابھرا‘ جس کے مفادات بھی عالمی تھے اور ان مفادات کے تحفظ کے لیے اس نے جو حکمت عملی تشکیل دی وہ بھی عالمی تھی جس میں ایک دفعہ پھر مشرقِ وسطیٰ کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گئی کیونکہ یہ خطہ نہ صرف یورپ کے دفاع بلکہ تیل کی نئی دولت کی دریافت کی وجہ سے امریکہ بلکہ یورپ اور مشرق بعید میں اس کے اتحادی (جاپان) کی معیشت کی بحالی کے لیے اہم حیثیت حاصل کر چکا تھا۔ ان مقاصد کے لیے امریکہ کو خطے میں ایک بااعتماد اتحادی بلکہ اڈے کی ضرورت تھی جسے فلسطین میں ایک یہودی ریاست ہی پوری کر سکتی تھی۔ اس لیے نومبر 1947ء میں اقوامِ متحدہ کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کر کے دو ریاستیں قائم کر دی گئیں۔ بڑے حصے میں یہودی ریاست اور جو حصے باقی بچے یعنی دریائے اُردن کا مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی وہاں فلسطین کی عرب ریاست قائم کر دی گئی۔
مئی 1948ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود عرب افواج کو شکست ہوئی۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے منصوبے کے تحت الاٹ شدہ علاقوں کے علاوہ مزید عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا مگر بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ نہ کر سکا کیونکہ جنرل گلب پاشا کی کمان میں اُردنی فوج نے اسرائیلی فوج کے خلاف سخت مزاحمت کی تھی۔ جنوری 1949ء میں اقوامِ متحدہ کی مداخلت سے اسرائیل اور ہمسایہ عرب ممالک کے درمیان عارضی فائر بندی ہو گئی مگر حالتِ جنگ برقرار رہی۔
فلسطین کے مسئلے کی وجہ سے عربوں اور اسرائیل کے درمیان 1948ء سے اب تک چار بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ تیسری جنگ (جون1967ء) جسے چھ دن کی جنگ بھی کہا جاتا ہے‘ عربوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان کا باعث تھی کیونکہ اس جنگ میں اسرائیل نے نہ صرف دریائے اُردن کے مغربی کنارے‘ بیت المقدس اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا بلکہ سطح مرتفع گولان کا علاقہ بھی شام سے چھین لیا۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان 1973-74ء میں لڑی جانے والی چوتھی جنگ کے بعد مصر اور اُردن نے اسرائیل کے ساتھ حالتِ جنگ ختم کر کے معاہدۂ امن پر دستخط کر دیے مگر فلسطین کا مسئلہ جوں کا توں رہا کیونکہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد (نومبر 1947ء) کے تحت جو علاقے فلسطینی ریاست کے لیے تفویض کیے گئے تھے‘ وہ بدستور اسرائیل کے قبضے میں تھے۔ 1993ء میں اسرائیل دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل فلسطینی اتھارٹی کے نام سے محدود اختیارات کے تحت ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر راضی ہو گیا مگر اس سے فلسطین میں امن قائم نہیں ہوا کیونکہ اس تنازعے کے باقی مسائل مثلاً فلسطینی مہاجرین کی واپسی‘ بیت المقدس کا مستقبل اور مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی آباد کاری‘ بدستور موجود تھے۔ فلسطین میں موجودہ جنگ‘ جس کا آغاز سات اکتوبر کو اسرائیل کے شہری علاقوں پر حماس کے حملوں سے ہوا ہے‘ دراصل گزشتہ 75 برسوں کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والی نا انصافیوں‘ ظلم‘ سختی اور غیرانسانی سلوک کا نتیجہ ہے۔ چونکہ حالیہ کشیدگی کا آغاز غزہ سے حماس کی کارروائی سے ہوا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اسرائیل اسے فلسطینیوں سے خالی کروا کے گولان سطح مرتفع کی طرح اسرائیل میں ضم کر لے مگر سابقہ اقدامات کی طرح اس اقدام سے بھی امن قائم نہیں ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved