اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے بارے میں ایک اہم سوال‘ جس پر دنیا بھر کے میڈیا چینلز پر بحث ہو رہی ہے‘ یہ ہے کہ اس کے علاقائی اور عالمی سطح پر اور خود اسرائیل اور فلسطینیوں کی جدوجہد پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ 2007ء سے آج تک اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی تمام جنگوں میں سے یہ جنگ سب سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اپنے ایک بیان کے مطابق حماس کی کارروائی کے خلاف اسرائیل جو اقدامات کر رہا ہے وہ مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے۔ اسرائیل نے اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ تین لاکھ ریزرو فوجیوں کو بھی کال اَپ کرکے غزہ کی پٹی کی سرحدوں پر جمع کر دیا ہے۔ غزہ کے 20لاکھ کے قریب باشندوں کو پانی‘ بجلی‘ پٹرول اور کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کو فلسطینیوں سے خالی کروا کے اس پر سطح مرتفع گولان کی طرح مستقل قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اسرائیل نے حماس کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے اسے دشمن قرار دیا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دعوے کے مطابق یہ جنگ حماس کے خاتمے تک جاری رہے گی‘ لیکن اسرائیلی وزیراعظم کو یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بے شک حماس ختم بھی ہو جائے‘ مسئلہ فلسطین زندہ رہے گا۔
1948ء میں عرب اسرائیل جنگ میں عرب افواج کو شکست ہوئی تھی۔ اسرائیل نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فلسطینی پھر کبھی سر نہیں اٹھاپائیں گے اور اس مسئلے سے نجات مل گئی ہے‘ لیکن اس جنگ کے بعد عرب قوم پرستی کی شکل میں فلسطینیوں کو نئی اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاقتور حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ یہ جنگ اگرچہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی تھی مگر اس کے نتائج مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہے تھے بلکہ اس کے اثرات عالمی سیاست پر بھی مرتب ہوئے تھے۔ عرب قوم پرستی کی ابھرتی ہوئی لہر کے نتیجے میں مصر اور عراق کی مغرب نواز بادشاہتوں کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور ان کی جگہ قوم پرست حکومتیں برسر اقتدار آئیں جنہوں نے فلسطین کی آزادی کو اپنا سب سے اہم ہدف بنا لیا۔
اس دوران مشرقِ وسطیٰ سابق سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی کا اکھاڑہ بنا رہا۔ جون 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مصر اور شام پر حملہ کرکے بالترتیب غزہ اور سطح مرتفع گولان پر قبضہ کر لیا تھا اور اُردن سے بیت المقدس کے مشرقی حصے کے علاوہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے کو بھی چھین لیا تھا۔ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل سمجھا کہ اس نے محفوظ سرحدوں کا ہدف حاصل کر لیا ہے اور تحریکِ آزادیٔ فلسطین آہستہ آہستہ دم توڑ جائے گی کیونکہ فلسطینی مجاہد غزہ سے اسرائیل میں داخل ہو کر اسرائیل کی فوجی چوکیوں پر حملہ آور ہوتے تھے اور سطح مرتفع گولان سے اسرائیلی ٹھکانوں پر گولے برساتے تھے مگر وقت نے بتایا کہ شکست کے باوجود اور ان علاقوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد بھی نہ صرف تحریکِ آزادیٔ فلسطین جاری رہی بلکہ 1973-74ء میں اسرائیل کو مصر اور شام کے ایسے مشترکہ حملے کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں ایک طرف مصر اور دوسری طرف شام کی فوجیں 1967ء کی جنگ میں چھینے ہوئے علاقوں پر قبضہ کرکے اسرائیلی سرحدوں تک پہنچ گئی تھیں اور اگر اس موقع پر امریکہ بھاری فوجی امداد کے ساتھ اس کی مدد کو نہ پہنچتا تو اسرائیل کے اندر عرب فوجیں داخل ہو چکی ہوتیں۔ امریکہ کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اسرائیل نے اگرچہ اپنے جوابی حملے میں سطح مرتفع گولان اور صحرائے سینا تک کے مصری علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا مگر جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج شکست کھا چکی تھی اور اس کے ناقابلِ شکست ہونے کا بھرم ٹوٹ چکا تھا۔ اس کے نتیجے میں امریکی مداخلت سے اسرائیل اور مصر کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدات طے پائے جن کے تحت اسرائیل نے نہر سویز کے مشرقی کنارے سے فوجیں ہٹا کے صحرائے سینا خالی کر دیا تھا‘ مگر غزہ پر بدستور قبضہ رکھا۔ اس کے بعد مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ بعد میں اُردن نے بھی مصر کی تقلید میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے۔
ان دو فرنٹ لائن عرب ممالک‘ خاص طور پر مصر‘ جو نہ صرف آبادی بلکہ عسکری لحاظ سے بھی عرب دنیا کا سب سے طاقتور ملک تھا‘ کے ساتھ تعلقات کے قیام کو امریکہ اور اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی سمجھتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ ان دو ملکوں کے بعد عالمِ عرب کے دیگر ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کر لیں گے مگر مصر اور اُردن کے علاوہ کسی اور عرب اور اسلامی ملک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہ کیے۔ جہاں تک تحریکِ آزادیٔ فلسطین کا تعلق ہے اس میں پہلے سے زیادہ تیزی آئی کیونکہ جس طرح 1967ء کی جنگ میں عرب قوم پرست حکمرانوں کی شکست نے الفتح کی قیادت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو جنم دیا تھا‘ اسی طرح اوسلو معاہدے (1993ء) کے تحت الفتح کی مصالحانہ پالیسی کے خلاف ردِ عمل کے طور پر حزب اللہ اور حماس کی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان تنظیموں نے اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مسلح اور خونریز تصادم میں اضافہ ہوا۔ کیمپ ڈیوڈ کے بعد اوسلو معاہدے کے تحت فلسطین میں اسرائیل اور فلسطینی الگ الگ ریاستوں کے قیام کا منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہوتا ہوا نظر آنے لگا۔ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کی کارروائی اس کا فطری نتیجہ ہے۔ اب اسرائیل اس نئی حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے پرانے ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے اور اس نے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروا کے اس پر مستقل قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کرکے ایک طرف اسے ہر قسم کی ضروریات یعنی پانی‘ بجلی‘ خوراک اور دوائیوں کی سپلائی بند کر دی ہے اور دوسری طرف سے طیاروں‘ ہیلی کاپٹروں اور توپوں کی مدد سے شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کا صرف ایک مقصد ہے کہ غزہ سے فلسطینی نکل جائیں تاکہ حماس اسے اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے استعمال نہ کر سکے‘ مگر اسرائیل کے سابقہ منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی ناکام رہے گا کیونکہ فلسطینی کسی قیمت پر غزہ کو خالی نہیں کریں گے۔ امریکہ نے اسرائیلی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے فلسطینی شہری آبادی کو غزہ سے نکلنے کے لیے ایک محفوظ کوریڈور کی پیشکش کی ہے مگر فلسطینیوں نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا ہے اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ جان دے دیں گے مگر غزہ کو خالی کرکے اسے اسرائیل کے قبضے میں نہیں دیں گے۔ غزہ کی سرحدوں پر اسرائیل کی جنگی تیاریوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اسے فلسطینیوں سے خالی کروا کر اس پر مستقل قبضہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اس صورت میں غزہ میں مزید خون ریزی اور تباہی کا خدشہ ہے اور اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس جنگ کا دائرہ شمال میں لبنان اور شام تک پھیل جائے گا۔ اس صورت میں اسرائیل کو پہلے سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved