میں نے اپنے بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک ملک کے بادشاہ نے یہ جاننے کا فیصلہ کیا کہ اس کے ملک کی کون سی ریاست عوام کے حق میں سب سے بہترہے۔ اس مقصد کیلئے اس نے دو ریاستوں کے گورنرز کو پانچ سال کا عرصہ دیا کہ وہ ریاستوں کو اپنے انداز میں بہتر کرکے پانچ سال بعد بادشاہ کو رپورٹ کریں۔ پانچ سال کے دوران ایک ریاست نے بڑی عالیشان عمارتیں بنائیں‘ شاندار سڑکیں بنائیں‘ جدید ٹیکنالوجی کے منصوبے بنائے لیکن اس کے عوام کمزور‘ بیمار‘ متعصب اور بے چین تھے جبکہ دوسری ریاست نے انفراسٹرکچر اور عمارتوں پر زیادہ وسائل خرچ کرنے کے بجائے عوام کی صحت پر توجہ دی۔ اس کے عوام صحت مند‘ خوش‘ چست اور مطمئن تھے۔ بادشاہ نے بہترین ریاست کا انعام دوسری ریاست کو دیا اور ساتھ ہی یہ جملہ کہا کہ ''کامیاب ریاستیں عوام سے بنتی ہیں عمارتوں سے نہیں‘‘۔ بھارت سے متعلق گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ پڑھی تو یہ کہانی فوراً ذہن میں آگئی۔ بھارت تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور بھارتی حکومت بھارت کو پانچ کھرب ڈالر کی معیشت بنانے کیلئے کوشاں ہے لیکن گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت چار درجہ نیچے آ کر 125ملکوں کی فہرست میں 111ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ گزشتہ سال وہ 121ملکوں کی فہرست میں 107ویں نمبر پر تھا۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا بھارت سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ افغانستان‘ ہیٹی اور ایسے ہی دیگر 12ملکوں کی کارکردگی بھارت سے خراب ہے۔ یہ وہ ملک ہیں جن کی معیشت بھارت کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے۔ بھارت سرکار نے اپنے ملک میں عوامی بہبود کیلئے متعدد سکیمیں شروع کر رکھی ہیں جن میں ایک 'رائٹ ٹو فوڈ ایکٹ‘ بھی ہے یعنی سب کیلئے کھانے کا حق۔ حکومت اس کے تحت مجموعی آبادی کے 75فیصد کا احاطہ کرنے کی دعویدار ہے۔ اس کے علاوہ اجناس کی تقسیم کیلئے فوڈ ڈسٹری بیوشن سسٹم نامی سکیم بھی کام کر رہی ہے‘ لیکن عوام تک ان سکیموں کے فوائد منتقل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ بھارتی حکومت عوامی بہبود کی سکیمیں تو چلا رہی ہے لیکن یہ جائزہ نہیں لے رہی کہ ان کا فائدہ نشان زد طبقے تک پہنچ رہا ہے یا نہیں۔ اسے پہلے غربت کی واضح تعریف یا تشریح کرنی چاہیے کہ کتنے روپے یومیہ کمانے والا شخص غریب نہیں ہے۔ بھارت میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کا درست اندازہ لگائے بغیر ان کیلئے سکیمیں کیسے بنائی جا سکتی ہیں۔ بھارت سرکارنے گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ مسترد کر دی ہے لیکن اسے اپنے اعداد و شمار کے ساتھ یہ ثابت بھی کرنا ہوگا کہ مذکورہ رپورٹ کیوں غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سپر پاور بننے کا خواب دیکھنے والا بھارت جو پیسے مختلف سکیموں کے ذریعے اپنے عوام کو دے رہا ہے وہ یا تو ان تک پہنچ نہیں رہے ہیں یا وہ اتنے کم ہیں کہ ان کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ نریندر مودی کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ساڑھے تیرہ کروڑ افراد غربت سے باہر آئے ہیں۔ ایک طرف مودی کا یہ دعویٰ ہے اور دوسری طرف بھارت سرکار 80 کروڑ افراد کو ماہانہ پانچ کلو اناج مفت فراہم کر رہی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دعوے اور حقیقت میں تضاد ہے۔ عالمی ادارے یونیسیف کی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں پانچ سال سے کم عمر کے 43ملین بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 22کروڑ افراد کو فاقہ کشی کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر 16فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ ان میں 53فیصد حاملہ خواتین ہیں۔ بھارت ان 40ملکوں کے گروپ میں شامل ہے جہاں بھوک کی صورتحال کو سنگین قرار دیا گیا ہے۔ بھارت میں بچوں کا وزن ان کی عمر کے حساب سے عالمی سطح پر سب سے کم ہے۔ یہ 18.7فیصد ہے جو کہ غذائیت کی شدید قلت کا عکاس ہے۔ عمر کے حساب سے قد میں کمی کے معاملے میں بھی بھارت کی کارکردگی ابتر ہے۔ وہاں 35فیصد بچوں کا قد عمر کے حساب سے کم ہے۔ 3.1فیصد بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ 15سے 24سال کی عمر والی خواتین میں خون کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس ایج گروپ کی 50فیصد سے زائد خواتین میں خون کی کمی پائی گئی ہے جو کہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہاں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان موازنہ نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان میں بھی عوامی صحت کے حالات زیادہ اچھے نہیں اور اس سلسلے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
صحت کے علاوہ پاکستان کا بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 38.28فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ پانچ ہفتوں میں یہ دوسرا بڑا اضافہ ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی بنیادی وجہ بجلی‘ پٹرولیم مصنوعات‘ ایل پی جی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات تمام شعبہ جات بالخصوص ٹرانسپورٹیشن پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ نگران حکومت نے یکم اکتوبر کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی کمی کی‘ تاہم اس سے قبل مسلسل تین مرتبہ قیمتیں بڑھائی گئی تھیں جس کے سبب ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوا۔ مہنگے ایندھن کے سبب اشیا کی نقل و حمل کی لاگت بڑھی۔ آج رات حکومت اگلے پندرہ روز کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر سکتی ہے‘ اس کے باوجود ریگولیٹری نظام کی عدم موجودگی کے سبب ٹرانسپورٹیشن کی لاگت میں کسی کمی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران 17 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ رواں برس چار مئی کو ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 48.35فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد تین ہفتوں تک یہ 45فیصد سے اوپر رہی تھی۔ مہنگائی کے رجحان کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی‘ پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں‘ سیلز ٹیکس اور بجلی کے بل ہیں۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین پیش گوئی کے مطابق اوسط کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پچھلے سال کے 29.6فیصد کے برعکس رواں مالی سال 25.9فیصد رہنے کا امکان ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران اشیائے صرف کی قیمتوں میں صرف اضافہ ہی ہوا ہے‘ کئی اشیا کی قیمتوں میں کمی بھی دیکھی گئی ہے۔ جن اشیا کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ ہوئی ان میں چینی (4.47 فیصد)‘ دال چنا (2.75 فیصد)‘ کیلے (2.47 فیصد)‘ دال مونگ (2.44 فیصد)‘ گڑ (1.93 فیصد)‘ مرغی کا گوشت (1.69 فیصد)‘ چاول ایری (1.46 فیصد) اور دال مسور (1.26 فیصد) شامل ہیں۔ اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کا نتیجہ ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید بہتری دیکھی جا سکے گی۔ آج رات ڈیزل کی قیمت میں 20روپے اور پٹرول کی قیمت میں 38روپے فی لٹر تک کی کمی متوقع ہے‘ تاہم نگران حکومت اس کے برعکس بھی فیصلہ کر سکتی ہے خاص طور پر ڈیزل کی قیمتوں کے حوالے سے کیونکہ اس پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی 50روپے فی لٹر ہے جبکہ اس مد میں پٹرول پر فی لٹر 60 روپے لیے جا رہے ہیں۔ حکومت بجٹ اہداف اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ کیے گئے وعدے کے تحت رواں مالی سال میں پٹرولیم لیوی کی مد میں تقریباً 869ارب روپے وصول کرنا چاہتی ہے۔ حکومت اس وقت فی لٹر پٹرول پر 82روپے اور ڈیزل پر 73روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ اگرچہ تمام پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس صفر ہے تاہم حکومت پٹرول پر فی لٹر 60روپے اور ڈیزل‘ ہائی آکٹین اور رون 95پٹرول پر 50روپے فی لٹر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی وصول کر رہی ہے۔ موجودہ ٹیکسز کی شرح کی بنیاد پر پٹرول کی فی لٹر قیمت 36سے 38روپے کم ہو سکتی ہے کیونکہ تیل کی عالمی قیمتیں 99ڈالر فی بیرل سے 12فیصد کم ہو کر 87ڈالر فی بیرل پر آگئی ہیں‘ اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں چار فیصد بہتری ہوئی ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں ڈالر کی قدر مزید کم ہوتی ہے تو حالات مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved