بین الاقوامی سطح پر اِس وقت فلسطین اور اسرائیل کا تنازع ہر جگہ زیرِبحث ہے۔ مسلمان اِس مسئلے پرشدید کوفت اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کے قتلِ عام پرنجانے امت کیوں بے حس و بے حرکت اور خاموش ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ تکلیف کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عالمِ کفر ہر اعتبارسے اس وقت یہود کی حمایت میں مصروفِ عمل ہے اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت، اُن کی حریت اور آزادی کے مطالبے کوکوئی اہمیت اور وزن دینے پر آمادہ وتیار نہیں۔امریکہ اور بہت سے مغربی ممالک یہود کی سیاسی،سفارتی اور عسکری سطح پربھرپور معاونت کررہے ہیں اور ہر طریقے سے اُن کو افرادی قوت اور وسائل کی فراہمی جاری ہے۔ نجانے اقوامِ مغرب کا یہ جانبدارانہ طرزِ عمل کب تک برقرار رہے گاکہ اُن تنازعات میں جہاں مسلمان فریق ہیں‘ہمیشہ اہلِ اسلام ہی کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امتِ مسلمہ اس بات پر بھی بہت زیادہ درد اور تکلیف محسوس کرتی ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زعما اِن معاملات پر وہ کردار ادا کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتے جو اُن کو ادا کرنا چاہیے۔
اہلِ اسلام کے پاس بحیثیت امت فقط یہی ایک راستہ باقی بچتا ہے کہ وہ اپنی آواز کو ظالموں اور غاصبوں کے خلاف مسلسل اٹھائیں اور مظلومین کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔اِس حوالے سے اہلِ اسلام دُنیا کے مختلف ممالک میں احتجاجی پروگرام، جلسے، جلوس اور ریلیوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ اِن ریلیوں میں صہیونیوں کے ظلم کی مذمت بھی کی جاتی ہے، اُن کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے اور مسلم حکمرانوں سے اِس حوالے سے راست اقدام اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے لیکن اکثر یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ان تمام تر مطالبات کے باوجود مسلم حکمران‘بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔مسلمان اِس وقت اوطان، قبائل، برادریوں اور پارٹیوں میں اِس انداز سے تقسیم ہو چکے ہیں کہ بالعموم امت کے مسائل کو امت کی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے قومیت، پارٹی، برادری اور مملکت کے مفاد کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ظالموں اور غاصبوں کی اس انداز میں حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں پرظلم کرنے کے حوالے سے مزید جرأت مند اوربے باک ہوجاتے ہیں۔
یہود کے وسائل،افرادی اورعسکری قوت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن اگر امت کی مجموعی عسکری طاقت،افرادی قوت اور وسائل کو مجتمع کیا جائے تو یہود کی حیثیت اُن کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے لیکن عجمی تو عجمی‘عربی بھی اس انداز سے تقسیم ہیں کہ ہر ملک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے اور امت کے بجائے قومی مفادات کو ترجیح دینے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ان حالات میں اہلِ اسلام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اُن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو ذہنی،قلبی، مادی، جذباتی اور فکری صلاحیتیں دی ہیں ‘ان صلاحیتوں کو اہلِ فلسطین کے حق میں استعمال کریں اوراپنے حکمرانوں سے مسلسل مطالبہ کرتے رہیں کہ امت کے مفاد میں بھرپور طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔
اہلِ فلسطین پر ہونے والے ظلم کو دیکھتے ہوئے میں نے اس بات کا ارادہ کیا کہ کم از کم مظلوموں کے نمائندگان کے ساتھ اس حوالے سے ملاقات کرنی چاہیے۔چنانچہ اسلام آباد میں قرآن و سنہ موومنٹ کے ذمہ داران، دوستوں اور رفقا نے فلسطینی سفارتخانے سے رابطہ قائم کیا۔فلسطینی سفیر اور اُن کے رفقا نے فوراً سے پیشتر ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا اور 12 تاریخ کودوپہر 12بجے ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔ اسی طرح اہلِ سنت والجماعت کے راہ نما بھی مجھ سے 12اکتوبرکے پروگرام میں شرکت کا تقاضا کررہے تھے؛ چنانچہ میں نے حالات کے تناظرمیں فوری طور پر اس اہم میٹنگ اور پروگرام میں شرکت کا فیصلہ کیا۔11تاریخ کی رات کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانگی ہوئی اورقریبی دوست مولانا عمر فاروق کے مرکز کے مہمان خانے میں قیام پذیر ہوا۔ 12 اکتوبر کو دن 11 بجے فلسطینی سفیرسے ملاقات کے لیے اسلام آباد میں موجود دوستوں‘ احباب اور رفقاء کے ہمرہ روانگی ہوئی۔سفارتخانے پہنچنے پر فلسطینی سفارتی عملے نے پُرتپاک انداز سے خیرمقدم کیا اور سفیر صاحب کے ساتھ بھرپور انداز سے ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں مختلف اہم امور پر تبادلۂ خیال ہوا اور اس تبادلۂ خیال کے دوران میں نے امت مسلمہ کے بالعموم اور پاکستا نی عوام کے جذبات بالخصوص اُن تک منتقل کیے کہ بے سر وسامانی کے باوجود اُمت کی دعائیں، نیک تمنائیں، ہمدردیاں، مذہبی اور سیاسی وابستگیاں اہلِ فلسطین کے ساتھ ہیں۔اس موقع پر فلسطین کے سفیر نے میرے جذبات کا خیر مقدم کیااور مجھے یہ بات بتلائی کہ یقینا اہلِ فلسطین اس حوالے سے امت کے جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ امت اس سلسلے میں غیر مشروط طور پر یہود کی جارحیت کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہے۔
فلسطین کے سفیر نے اس موقع پرفلسطینی عوام پر ہونے والے یہودی مظالم کا بڑے دردناک انداز میں ذکر کیا اوریہ بات بتلائی کہ مختلف حوالوں سے اس وقت فلسطین کے عوام مسلمانوں کی تائید اور حمایت کی منتظر ہے۔فلسطینی سفیر کے ساتھ گفتگو میں بہت سے بین الاقوامی امور اور اہلِ مغرب کے رویوں پربھی تبادلۂ خیال ہوااور اس بات کی امید ظاہر کی گئی کہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اورنصرت سے اہلِ فلسطین کامیاب ہوں گے۔ یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کے تمام سیاسی رہنما ایک پیج پر نہ بھی آئیں توامت کی مجموعی ہمدردیوں، توانائیوں، نیک تمناؤں اوردعاؤں کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ اہلِ فلسطین کی مدد کے اسباب کو ضرور پیدا فرمائے گا، ان شاء اللہ۔ فلسطینی سفیر کے ساتھ ملاقات کے دوران فلسطینی سفارتخانے میں موجودیادداشتوں کے رجسٹر پر بھی میں نے اپنے جذبات اور خیالات کو قلمبند کیا۔
شام ساڑھے چار بجے آبپارہ ہاکی گراؤنڈ میں اہلِ سنت والجماعت کی عظیم الشان کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں مولانا محمد احمد،مولانا اورنگزیب،مولانا معاویہ اعظم، پیرمظہر سعید شاہ اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ اس موقع پر مجھے بھی اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ملا۔ میں نے اس تقریب میں نبی کریمﷺ کی سیرت اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے اخلاص اورایمان کے حوالے سے اپنی گزارشات کوسامعین کے سامنے رکھا اور اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی کہ یقینا ہمارے ہیروز اور مشاہیرنے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر عہد کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کے لیے اپنی توانائیوں اوروسائل کو وقف کیے رکھا۔اس حوالے سے اگرہم نبی کریمﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو آپﷺ نے خیبر کا محاصرہ کیا اوراس قلعے کی فتح کا اعزازسیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا۔یہود کی قوت کمزور پڑی اور بالآخرانہیں سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں جزیرۃالعرب سے نکلنا پڑا۔
حضرت سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد مبارک میں بیت المقدس کو پنجۂ صلیب سے آزاد کرواکر مسلم سلطنت کا حصہ بنایا۔عرصہ دراز تک مسلمان اس سرزمین پراللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اورعبادت کرتے رہے تاوقتیکہ سیاسی زوال کی و جہ سے مسلمانوں کو بیت المقدس سے محروم ہونا پڑا۔بیت المقدس کی بازیابی کیلئے اہلِ اسلام اور نصرانیوں کے درمیان کئی سال تک صلیبی جنگیں ہوئیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگوں میں مسلمانوں کو کامیاب اور کامران کردیا۔ پھر ایک طویل عرصے تک اہلِ اسلام بیت المقدس پرغالب رہے لیکن انیسویں صدی کے آخر میں یہود ایک منظم حکمت عملی کے تحت کئی عشرے تک پوری دنیا سے نقل مکانی کر کے فلسطین میں آباد ہوتے رہے اور انہوں نے وہاں کی عددی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا اور اپنی عسکریت،اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے مسلمانوں سے ایک مرتبہ پھربیت المقدس چھین لیا۔القدس کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعدتاحال یہود کے مظالم کا سلسلہ جاری و ساری ہے،ان مظالم سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی روایات کو پلٹانے کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔اگر مضبوط اور مستحکم منصوبہ بندی کی جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل اور اُس کے کرم سے آج بھی مسلمان بیت المقدس کو پنجۂ یہود سے آزادکرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے سیاسی اور عسکری راہ نماؤں کو اس حوالے سے ٹھوس لائحہ عمل اپنانا چاہیے اور امت کے جذبات کی ترجمانی کرنی چاہیے اور یہود کو یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ امت کسی بھی طور پراہلِ فلسطین پر ہونے والے مظالم کو گوارا نہیں کرسکتی۔اس موقع پر سامعین نے علماء کرام اور میرے خطاب کی بھرپور تائید کی اور اس عزم اور جذبے کا اظہار کیا کہ اگر ہمارے حکمران اور پالیسی ساز صہیونیوں کے خلاف راست اقدام کی بات کرتے ہیں توپوری امت بالعموم اور پاکستان کے عوام بالخصوص اُن کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔
یہ سفر اپنے جلو میں بہت سی یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوا۔واپسی کے سفر کے دوران بھی فلسطین پر ہونے والے مظالم اور ان کی نجات کے حوالے سے مختلف طرح کے خیالات ذہن میں گھومتے رہے اور لبوں پر ایک ہی دعا تھی کہ اے اللہ پاک! اہلِ فلسطین کی مدد فرما اور اُن کو پنجۂ یہود سے آزادی عطا فرما، آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved