فلسطینیوں کو آج ہماری ہمدردی (Sympathy)کی نہیں‘ ایک اورحساس کی ضرورت ہے جسے انگریزی زبان میں Empathy کہتے ہیں۔
کاش میں اس لفظ کے اردو ترجمے پر قادر ہوتا۔میں ایک جملے میں اس کا مفہوم بیان کر سکتاہوں: ''دوسرے کے دکھ کو اُس کی جگہ کھڑا ہوکر محسوس کرنا۔‘‘دوسروں کی تکلیف اور غم کو دو طرح سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ایک یہ کہ ہم اپنی جگہ کھڑے ہو کر اس جذبے کو بیدار کریں جو فطری طور پر ہمارے اندر موجود ہے اور جس کی مدد سے ہم دوسرے کی دکھ درد کومحسوس کرتے ہیں۔ اسے 'ہمدردی‘ کہتے ہیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ ہم اپنی جگہ سے اُٹھ کر دوسرے کے مقام پر جا کھڑے ہوں اور پھر اس کیفیت کو محسوس کریں‘وہ جس سے گزر رہا ہے۔یہEmpathyہے۔
میں اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کر تا ہوں۔ایک خاتون کے سامنے ایک بچہ مر جاتا ہے۔وہ ایک ماں کو بیٹے کے لاشے پرآہ و بکا کرتا دیکھ رہی ہے۔دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنے کا ایک جذبہ قدرت نے اسے ودیعت کر رکھا ہے۔ یہ جذبہ بیدار ہوتا اور وہ اس خاتون کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے اشک بار ہو جاتی ہے۔اسے 'ہمدردی‘ کہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ خاتون ‘دوسری خاتون کا وجودی لبادہ اوڑھ لیتی اور یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کا اپنا بچہ مر گیا ہے۔اب اس کی کیفیت اس حالت سے مختلف ہوگی جس کا نتیجہ 'ہمدردی‘ ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے سوچئے کہ آپ وہ فلسطینی ہیں جو غزہ کے علاقے میں رہتا ہے۔آپ کا ایک گھر ہے جہاں آپ کے بیوی بچے آباد ہیں۔آپ کی ایک چھوٹی سی دکان ہے۔آپ کے بچے سکول جا رہے ہیں۔ہسپتال بھی موجود ہے۔آپ نماز کے لیے مسجد بھی جا سکتے ہیں اور عزیزواقارب سے بھی میل جول رکھتے ہیں۔تاہم آپ کو یہ احساس بھی ہے کہ آپ کے پڑوس میں ایک ملک ہے جو آپ کی زمین پر قبضہ کیے ہوئے ہے اور آپ اس پر قادر نہیں کہ اپنی زمین کو آزاد کرا سکیں۔اس احساس کے ساتھ آج یہاں زندہ اور معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اب آپ کے علاقے سے کچھ لوگ اٹھتے اور قابض قوت اسرائیل کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس قابض قوت سے اپنی زمین آزاد کرانی ہے۔یہ قوت چونکہ کسی اخلاقی ضابطے اور کسی بین الاقوامی قانون کو نہیں مانتی‘اس لیے اس سے اپنی زمین آزاد کرانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ا س کے خلاف بندوق اٹھائی جا ئے۔وہ مسلح جتھے منظم کرتے اوراس پر حملہ کر کے اس کے کچھ لوگوں کو مار دیتے ہیں۔حملے کے بعد‘وہ آپ کے پڑوس میں آکر ‘انسانی آبادی میں کہیں چھپ جاتے ہیں۔قابض ریاست چونکہ کسی اخلاق اور قانون کی پروا نہیں کرتی‘اس لیے وہ حملہ آوروں کی تلاش میں آپ کے گھر تک پہنچ جاتی ہے۔
اس کی فوج ان کو تلاش نہیں کر پاتی تو وہ آپ سمیت اس علاقے کے سب مکینوں کو ایک الٹی میٹم دیتی ہے۔الٹی میٹم یہ ہے کہ آپ دودن میں علاقہ خالی کریں۔ہم اس پر بم برسانا چاہتے ہیں۔اب آپ کے پاس دو صورتیں ہیں۔ایک یہ کہ آپ علاقہ خالی نہ کریں۔ آپ عالمی قوتوں‘اقوامِ متحدہ اور بالخصوص مسلم برادری کی طرف دیکھیں کہ وہ اسرائیل کو مجبور کرے اور وہ ان حملوں سے باز آ جائے۔دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو سکول سے اٹھائیں۔اپنی دکان بند کریں اور ایک نا معلوم منزل کو نکل جائیں۔ آپ کے سامنے منزل کوئی نہیں ‘صرف راستہ ہے۔
آپ اس تجربے سے بار ہا گزر چکے۔آپ جان چکے کہ پہلی صورت قابلِ عمل نہیں ہے۔کوئی آپ کی مدد کو کبھی نہیں آیا۔ عالمی طاقتوں میں کوئی ایک قوت ایسی نہیں جو آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔مسلم دنیا میں ایک آدھ ملک ہے جو آپ کے عسکریت پسند گروہوں کو خفیہ طور ہتھیار وغیرہ فراہم کر دیتا ہے تاکہ وہ اسرائیل کو زچ کرتے رہیں۔جسے آپ مسلم برادری کہتے ہیں‘وہ آپ سے دلی لگاؤ رکھتی اور آپ کے دکھ کو محسوس کر سکتی ہے۔اس کی توفیق مگر صرف اتنی ہے کہ آپ کے حق میں احتجاجی مظاہرے کرے یا پھراپنی فلاحی تنظیموں کو متحرک کرے کہ وہ چندہ جمع کریں اور آپ کو پناہ گزیں کیمپوں میں ادویات اور روکھی سوکھی روٹی فراہم کر دیں۔
یہ عمل آپ کے ساتھ برسوں سے جاری ہے۔آپ کے والد آپ کو پڑھا سکتے تھے مگر یہ ممکن نہیں ہوا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آئے دن آپ کو اپنے گھر سے نکلنا پڑتا۔باپ اپنی دکان چلا سکا نہ آپ سکول جا سکے۔آج آپ وہیں کھڑے ہیں جہاں آپ کا باپ تھا۔آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے پڑھ جائیں۔اس کے لیے امن آپ کی پہلی ضرورت ہے۔امن نہیں ہو گا تو کوئی سکول کھلے گا نہ کوئی دکان۔آپ کی معیشت خطرات میں ہے اور آپ کے بچوں کا مستقبل بھی۔یہ امن مگر آپ کو میسر نہیں۔آپ دو نسلوں سے حالتِ خوف میں ہیں۔
اس صورتِ حال میں آپ کیا چاہیں گے؟کیا آپ چاہیں گے کہ یہ بد امنی جاری رہے؟آپ آئے دن بے گھر ہوتے رہیں؟آپ کے بچے تعلیم سے محروم رہیں؟ ہر چند ماہ بعد‘ آپ کے ذہن اور جسم پر تازہ زخم لگیں؟آپ اسرائیل کو کوسیں اور امتِ مسلمہ کی بے بسی کا ماتم کریں؟یا پھر آپ یہ چاہیں گے کہ آپ اپنے حق میں آواز اٹھاتے رہیں؟ اپنا مقدمہ قائم رکھیں؟آپ کو ایک وقفہ امن مل جائے اور آپ اپنے بچوں کو اس قابل بناسکیں کہ وہ زندگی کے مسائل حل کرنے کے ساتھ‘اپنی سرزمین کا قبضہ چھڑوانے کے لیے ایک بہتر حکمتِ عملی اپناسکیں؟
اپنے اُن بھائیوں کے بارے میں آ پ کی رائے کیا ہوگی جنہوں نے آپ کو مکمل آزادی دلانے کے لیے بندوق اٹھا رکھی ہے؟اسرائیل پر بم برساتے ہیں‘انہیں قتل کرتے ہیں ‘کیونکہ وہ بھی آپ کے بہن بھائیوں کو مارتے اور ان پر ظلم کرتے ہیں؟یہ آپ کے لیے اپنی جان دینے پر آمادہ ہیں لیکن حملے کے بعد انسانی آبادیوں میں چھپتے ہیں اور اس سے ظالم قوت کو جواز ملتا ہے کہ وہ آپ جیسے پُرامن شہریوں پر حملہ آور ہو اورآپ کے بچوں سمت ان معصوموں کی جان لے جو اس پر حملہ نہیں کرتے؟
میں اور آپ فلسطینی نہیں ہیں۔یہ بد امنی اور فساد ہمارے گھر میں برپا نہیں ہے۔میں اور آپ آئے دن نقل مکانی پر مجبور نہیں ہوتے۔ہمارے بچے امن کے ساتھ سکول جاتے اور ہماری نوکری پکی ہے۔معاشی اسباب مانع نہ ہوں تو ہماری دکانیں بھی ٹھیک چل رہی ہیں۔رات سوتے وقت ہمیں اس بات کا کوئی خوف نہیں ہوتا کہ کل کا سورج دیکھ سکیں گے یا نہیں۔ہمیں یہ اندیشہ نہیں کہ کیا معلوم رات کسی عسکریت پسند کی تلاش میں دشمن کا بم میرے گھر کو نشانہ بنا لے۔
آئیں!میں اور آپ کچھ دیر کے لیے فلسطینی بن جاتے ہیں۔ہم خوف کی چار دیواری میں زندہ ہیں۔دنیا ہمارے دکھوں سے بے خبر ہے۔جو باخبر بھی ہیں وہ صرف مظاہرے کر سکتے یا ہماری مرہم پٹی کے لیے چندہ جمع کر سکتے ہیں۔اب ہمیں کیا کر نا چاہیے؟امن ہماری ترجیح ہوگی یا جنگ؟اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے کے بعد‘آج دفتریا دکان کی طرف نکلتے وقت‘ اس سوال پر ضرور غور کیجیے۔آپ کا اپنے بارے میں جو فیصلہ ہو‘وہی فلسطینیوں کے لیے بھی تجویز کریں۔انہیں آپ کی ہمدردی(Sympathy) کی نہیں Empathy کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved