بے حد نقصان بھی حماس اور غزہ کی فلسطینی آبادی کا ہو رہا ہے لیکن جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تواُسے بخوبی علم ہوگا کہ حملے کی کیا قیمت چکانی پڑے گی۔اب جبکہ اتنی وحشیانہ اسرائیلی بمباری غزہ کی پٹی پرہو رہی ہے اس صورتحال میں بھی حماس اسرائیل پر راکٹوں سے حملے کررہا ہے۔اور کچھ ہو نہ ہو دلیری کی مثال تو حماس نے قائم کر دی ہے۔اور یہ مثال اور بھی نمایاں نظر آتی ہے جب مسلم ممالک کی مجموعی حالت دیکھی جائے۔غزہ ایک چھوٹے سے زمینی ٹکڑے کا نام ہے‘ ضلع چکوال سے چھوٹا ہے گو آبادی تقریباً بائیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ حماس کے تربیت یافتہ جنگجوؤں کی تعداد زیادہ سے زیادہ پانچ چھ ہزار ہوگی‘ اسرائیلی فوج کی تعداد لگ بھگ چھ لاکھ ہے۔ اور سازوسامان کو سامنے رکھا جائے تو اسرائیل اور حماس کا مقابلہ کوئی بنتا ہی نہیں۔اسرائیل پر جو حملہ ہوا اُس میں پندرہ سو سے دوہزار جنگجوؤں نے حصہ لیا تھا لیکن ان ہزار‘ دو ہزار افراد نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو ہلا کر رکھ دیاہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن بھی اسرائیل کا دورہ کررہے ہیں۔ سیکرٹری آف سٹیٹ اینٹنی بلنکن پہلے ہی علاقے میں موجود ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ اُن کی موجودگی ناکافی سمجھی گئی ‘اسی لئے امریکی صدر کا دورہ وہاں رکھا گیا۔ امریکہ کی طرف سے یہ تھوڑی سی بیوقوفی نظر آتی ہے کیونکہ جہاں تک اسرائیل کو امداد دینے کی بات ہے وہ تو امریکہ پہلے ہی کررہا ہے‘ امریکی صدر مزید گارنٹیاں کیا دے سکتے ہیں؟مشرقِ وسطیٰ میں پہلے بھی جنگیں ہوئی ہیں لیکن کسی امریکی صدر نے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ دورانِ جنگ وہاں جانے کی زحمت کرے۔1956ء میں جب برطانیہ ‘ فرانس اوراسرائیل نے نہرسوئز پر حملہ کیا تھا توامریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہاورنے امریکہ بیٹھ کر جنگ بندی کرائی تھی اور تینوں حملہ آور قوتوں کو مجبور کیا تھا کہ نہرسوئز سے اپنی فوجیں واپس کریں۔1973ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران صدر رچرڈنکسن نے اسرائیل کی بھرپور امداد کی تھی لیکن کوئی دورہ وغیرہ نہیں کیا تھا۔ پھر مشرق وسطیٰ کے جو دورے کئے وہ ہنری کِسنجر نے کئے تھے۔خودوہاں جاکر صدر جوبائیڈن غلطی کررہے ہیں ‘ کچھ کرنہ سکے اور غزہ کے باشندوں کا قتلِ عام بندنہ ہوسکے تو تہمت اُن کی ذات اور امریکہ پر پڑے گی۔
بڑا ڈر تو امریکہ کو کچھ اور لگا ہوا ہے کہ غزہ میں بمباری کے شعلے کہیں پھیل نہ جائیں۔کھلے عام امریکی کہہ رہے ہیں کہ حزب اللہ اسرائیل کے شمالی بارڈر پر محاذ کھول سکتا ہے‘ مقبوضہ مغربی کنارے میں ہنگامے ہوسکتے ہیں۔ ایران واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی بربریت ختم نہ ہوئی تو ایران کچھ کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ہمارے باقی جو برادرممالک ہیں وہ کیا کررہے ہیں؟امریکہ کے لاڈلے بنے رہیں لیکن وہ دیکھ نہیں رہے کہ کیا ظلم وہاں برپا کیا جا رہا ہے؟ان ممالک نے کون سا فوجی محاذ کھولنا ہے لیکن کچھ اور اقدام تو اٹھاسکتے ہیں۔یہ تیل کے ذخائر ان کے کس کام کے ؟ امریکہ سے بیشک تعلقات برقرار رکھیں لیکن زوردار طریقے سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یکطرفہ امریکی پالیسی جاری رہی تو اُنہیں بھی کچھ کرنا پڑے گا۔جن ممالک نے ماضی قریب میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے تھے دیگر کوئی توپیں نہیں چلاسکتے تو اپنے سفیر تو تل ابیب سے بلاسکتے ہیں‘ سفارتی تعلقات توڑ سکتے ہیں۔ عرب عوام کے دلوں میں غم و غصہ اُٹھ رہا ہے لیکن بیشتر حکمرانوں نے نیند کی گولیاں کھائی ہوئی ہیں۔سعودی عرب البتہ کچھ نہ کچھ کررہا ہے ۔ سعودی عرب کی طرف سے امریکہ پر پریشر آیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام ختم ہونا چاہئے۔لیکن یہ وقت اب زبانی جمع خرچ کا نہیں رہا‘ مذمتی الفاظ سے زیادہ کا تقاضا کررہا ہے۔
اسرائیل کو بھی دیکھیں‘ ہوائی حملے کئے جا رہا ہے لیکن زمینی حملے کی اب تک تیاریاں ہی ہو رہی ہیں۔اسرائیل کو معلوم ہے اور امریکیوں کو بھی کہ غزہ کے تباہ حال علاقوں میں اسرائیلی ٹینک اوربکتربند گئے تونقصان اٹھانا پڑے گا۔ غزہ کے پورے علاقے کے نیچے حماس نے خندقیں کھودی ہوئی ہیں‘ زمین کے چپے چپے سے حماس کے جنگجو واقف ہیں۔ اسرائیلی لڑاکا طیارے تو حماس کی پہنچ سے باہر ہیں لیکن اسرائیلی فوج آئی توملبے کے ڈھیروں کے اردگرد جنگ ہوگی۔فوجی قوت تو اسرائیل کی بے تحاشا ہے لیکن جب دوسری طرف حماس جیسے جنگجو ہوں نقصان تو پھر اٹھانا پڑے گا۔
جیسے ہمارا الخالد ٹینک ہے اسرائیل کا اپنا بنایا ہوا مرکاوا ٹینک ہے۔بڑا بھاری بھرکم قسم کا ٹینک ہے لیکن اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جو 2006ء میں جنگ چھڑی تھی اُس میں حزب اللہ کے اینٹی ٹینک مزائلوں سے بہت سے مرکاوا ٹینک تباہ ہوئے تھے۔حزب اللہ کے پاس کوئی ٹینک نہیں ‘ وہ ٹینکوں پر انحصار نہیں کرتے‘ اُن کا جنگ لڑنے کا انداز ہی مختلف ہے۔طاقتور دشمن کے خلاف گوریلا ٹیکٹیکس پریقین رکھتے ہیں۔اوراس اندازِ جنگ کی تربیت حزب اللہ اور حماس دونوں نے خوب حاصل کی ہے۔اسرائیل کی چھ لاکھ فوج کے مقابلے میں حزب اللہ کے زیر کمان پچاس ہزار سے ساٹھ ہزار جنگجو ہیں‘ لیکن وہ ایسے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں کو ان کے بارے میں سوچنا پڑرہا ہے۔ان دونوں تنظیموں کے پیچھے ایران کھڑا ہے۔داد دینی پڑتی ہے ایرانی قوم کو کہ اتنے طاقتوردشمنوں سے برسرِپیکار ہے۔ عالمِ اسلام کے بیشتر ممالک تومصلحت پسندی کا شکار ہوچکے ہیں لیکن ایران کی قیادت میں جو مزاحمتی محاذ بنا ہوا ہے اور جس محاذ میں حزب اللہ اور حماس شامل ہیں اس کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کو دھڑکا لگا ہوا ہے۔طاقت کا توازن پھر بھی اسرائیل کے حق میں ہے لیکن جب دوسری طرف اتنی استقامت ہو تو توازن بگڑنے کا ڈر تو رہتا ہے۔
ویتنامی حریت پسندوں کا کوئی مقابلہ امریکہ سے تھا؟لیکن بالآخر امریکہ کو ویتنام سے جانا پڑا۔پھر یہ بھی ہم نے دیکھا کہ امریکیوں کو افغانستان سے بھی جانا پڑا۔سولہ سال سے یہ مزاحمتی جنگ امریکی تاریخ میں سب سے طویل جنگ تھی لیکن آخر کار فتح افغان حریت پسندوں کی ہوئی۔ طالبان سے لاکھ اختلاف کئے جاسکتے ہیں‘ جیسا کہ ایران کی کئی پالیسیوں کے بارے میں مختلف نقطہ نظررکھا جاسکتا ہے ‘ لیکن ہمت کی داد تو دینی پڑتی ہے۔
سی بی ایس نیوز پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے صدرجوبائیڈن نے کہا ہے کہ خدا کے واسطے ہم متحدہ امریکہ ہیں ‘ تاریخ انسانی میں سب سے طاقتورقوم۔ ہم بیک وقت یوکرینی فوج کو امداد دے سکتے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔مطلب اُن کا کہنے کا یہ کہ ان دونوں محاذوں پر کچھ کرنے کی صلاحیت ہم رکھتے ہیں۔بات تو ٹھیک ہے لیکن حالیہ تاریخ کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ جب 2001ء میں افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تھا اورکچھ دیر بعد عراق پر چڑھ دوڑا تھا تو امریکہ کیلئے اتنا آسان نہیں رہا تھا کہ ان دو محاذوں پر بیک وقت لڑسکے۔لڑتا رہا لیکن مشکلات سامنے آنے لگیں اور پھر مجبوراً عراق سے نکلنا پڑا اور کچھ دیر بعد افغانستان میں رہنا بھی ناممکن ہو گیا۔یوکرین کو امداد دینے کے حوالے سے امریکی کانگریس میں بیزاری بڑھ رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں کہیں جنگ کے شعلے پھیل گئے اورحزب اللہ اسرائیل کے شمال میں ایک محاذ کھولتا ہے تو امریکہ کیلئے اتنی آسانیاں نہیں رہیں گی جتنی کا وہ دعویٰ اس وقت کررہا ہے۔
آگے جاکر جو بھی ہوتا ہے حماس نے اپنا بڑا مقصد تو پورا کرلیا ہے۔امریکہ اور اسرائیل سمجھ رہے تھے کہ فلسطین کا مسئلہ دفنا دیا گیا ہے۔حماس کی دھماکہ خیز پیش قدمی کے بعد پوری دنیا کو ظاہر ہو گیا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کے بارے میں کچھ نہ کیا گیا تومشرق وسطیٰ میں استحکام نہیں آسکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved