نواز شریف کی واپسی اور پی ٹی آئی کی مزید وکٹیں گرنے کی خبریں جہاں بدستور گرم ہیں وہاں پارٹی رہنماؤں نے فرمائشوں اور فٹیکوں کا بازار بھی خوب گرم کر رکھا ہے۔ کئی دہائیاں شوقِ حکمرانی پورے کرنے والی پارٹی اپنے قائد کے استقبال کو لے کر اس قدر پریشان ہے کہ کسی کو بندے اکٹھے کرنے کا ٹاسک دیا جا رہا ہے تو کسی کو تشہیری مہم اور ٹرانسپورٹ کا‘ نجی محفلوں میں اکثر سر جوڑے نظر آتے ہیں کہ مطلوبہ تعداد میں بندے کہاں سے لائیں گے۔ مقبولیت کے گرے ہوئے گراف کو اٹھانے کے لیے کوئی حربہ اور نسخہ بھی کارگر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں پچھلے دنوں سابقہ وزیراعظم شہباز شریف کی سواری کا گھیراؤ کرنے کا واقعہ بھی کسی حد تک الارمنگ ہے۔ ان حالاتِ پریشاں میں نواز شریف کو پارٹی نیتاؤں پر انحصار کرنے کے بجائے کچھ حجت اپنی بھی ضرور کر لینی چاہیے۔ وطن واپسی کے لیے اُڑان کسی بھی مقام سے بھریں لیکن پاکستان براستہ فلسطین ہی آئیں۔ فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی اور اسرائیلی بربریت کے خلاف مذمتی بیان جاری کرنے سے مقبولیت کا گراف شاید کچھ سربلندہو جائے۔ فلسطین کے لیے آواز بلند کرنے کا اقدام عوام کو استقبال کے لیے اکٹھا کرنے کا نہ صرف کارآمد نسخہ ہو سکتا ہے بلکہ ایک نیا بیانیہ بھی تشکیل دینے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ اسرائیل مخالف بیانیہ عوام کا لہو گرمانے کے علاوہ انہیں استقبال کے لیے گھروں سے نکالنے کا بھی ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہ بیانیہ بین الاقوامی سطح پر ٹاپ ٹرینڈ بن کر نواز شریف کو اقوام عالم بالخصوص اسلامی ممالک میں ممتاز کر سکتا ہے کیونکہ طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکمرانی عوام سبھی کے ذائقے چکھ کر تھو تھو کرتے پھر رہے ہیں۔ سیاسی بیانیے تو تنقیدی آوازوں کے شور میں دب چکے ہیں‘براستہ فلسطین واپسی سے استقبال میں خاصی جان پڑ سکتی ہے۔
فلسطین میں جا بجا بکھری لاشوں کے انبار اور فضاؤں میں بارود اور خون کی بُو جذبۂ ایمانی اور حب الوطنی کو جگانے کے علاوہ یقینا باعث عبرت بھی ہے۔ لمحوں کی خطائیں صدیوں کی سزاؤں میں اس طرح بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ دھرتی ماں کا بیوپار کرنے کی سزا آئندہ نسلوں کا مقدر بنتی چلی جا رہی ہے۔ ہوس ِزر میں لتھڑے ہوئے آباؤ اجداد کے فیصلوں کو مرد و زن اور کمسن لاشوں کے انبار منہ چڑا رہے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ دھرتی ماں کو بیچنے والے کہیں کے نہیں رہتے‘ کہیں زمین تنگ پڑ جاتی ہے تو کہیں آسمان نظر آنا بند ہو جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ فلسطین یاترا کے بعد نواز شریف کا طرزِ سیاست ہی بدل جائے اور وہ ایک نئی سوچ و فکر کے ساتھ وطن واپس آئیں اور شوقِ حکمرانی کے ادھورے شوق پورے کرنے کے بجائے عوام کو اپنی اوّلین ترجیحات قرار دے ڈالیں۔
فلسطینی تو دھرتی ماںکو بیچنے کی قیمت سالہا سال سے اد اکرتے چلے آرہے ہیں لیکن ہمارے ہاں خواب بیچنے والی اشرافیہ الٹی عوام سے قیمت وصول کر رہی ہے۔ حکمرانوں کی دیکھا دیکھی عوام نے بھی نت نئے بیوپار شروع کر دئیے ہیں۔ حال ہی میں ایک نیکیاں بیچنے والا پولیس نے دھر لیا ۔ وہ چند ہزار کے عوض لاکھوں نیکیاں دے کر اپنی دنیا اور عوام کی عاقبت سنواررہا تھا۔ ضعیف العقیدہ عوام نے تو پہلے ہی عامل بابوں اور ڈھونگیوں کا کاروبار خوب چمکا رکھا ہے‘ اب نیکیاں بیچنے والے بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں۔ حکمران اور عوام دونوں ہی مستقل مزاجی پر اس طرح قائم ہیں کہ روزِ اوّل سے مسائل بھی وہی ہیں اور مصائب وہی۔ پچاس سال پرانا اخبار بھی اٹھا لیں تو یوں لگتا ہے کہ کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا‘ نہ عوام نہ حکمران۔ لوٹنے والے بھی وہی اور لٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے والے عوام بھی وہی۔ ریفارمز کے نام پر ڈیفارمز کے انبار لگانے والے سماج سیوک نیتا ہوں یا سرکاری بابو ان سبھی کے گٹھ جوڑ نے ملک کو عملاً اَن گورن ایبل ہی بنا ڈالا ہے۔
نواز شریف کی واپسی کو لے کر اودھم کا سماں ہے‘ منہ کو لگے اقتدار میں واپسی کے لیے بے تاب سماج سیوک نیتامل کر پھر بساط بچھا رہے ہیں۔ ان کی حکمرانی کا روپ بہروپ اور سبھی چہرے عوام برابر بھگت چکے ہیں لیکن نجانے کون سا آسیب ہے کہ بار بار دھوکہ اور ڈسے جانے کے باوجود ہر بار عوام پھر خود کو ڈسوانے کے لیے پیش کر دیتے ہیں۔ ملکی تاریخ میں ڈالر کو بلند ترین سطح پر پہنچا کر روپے کو ٹکے ٹوکری کرنے والے پھر تیاریاں کر رہے ہیں کہ کسی طرح بس اقتدار ہتھے لگ جائے۔
ہنرمندانِ سیاست و ریاست کو کئی بار باور کروا چکا ہوں کہ خدارا اس بار پرانے چہروں اور نظام کو دہرانے کے بجائے وہ طرزِ حکمرانی ضرور آزما لینی چاہیے جو عوام کے مسائل کا حقیقی حل ہو۔ نمائشی گورننس اور نام نہاد اصلاحات کے علاوہ ماضی کے سبھی انتخابات عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں تو پھر بار بار وہی تجربات کیوں؟ جعلی جمہوریت سے اصلی آمریت بھلی۔ ملک و قوم کو مستقل حالاتِ پریشاں سے نکالنے میں اگر کوئی مخلص اور سنجیدہ ہے تو انتخابات کا مطالبہ کرنے والوں سے ماضی کے سبھی انتخابات کا حساب تو لے ‘ بخدا ان کے پلے کچھ نہیں ۔ مزید وضاحت کے لیے اپنے ہی ایک حالیہ کالم سے اقتباس پیش کرتا چلوں: ''خدارا! اس بار وہی نظام دہرانے کے بجائے کوئی ایسا نظام لایا جائے جو روٹی کا نظام ہو۔ جس میں عوام کو یقین ہو کہ انہیں روٹی کے حصول کے لیے اَنا اور عزتِ نفس کا سمجھوتہ نہیں کرنا پڑے گا۔ پیٹ بھر روٹی اور دیگر بنیادی سہولیات ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ حصولِ انصاف اور دادرسی کے لیے دربدر کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی۔ شنوائی کے لیے ذلت ‘دھتکار اور پھٹکار جیسے عذابوں کو نہیں جھیلنا پڑے گا۔ علاج معالجہ کا نظام کسی کو مرضِ لاعلاج سے دوچار نہیں کرے گا۔ جدید اور معیاری تعلیم کے علاوہ دیگر شہری سہولیات پر اس کا مساوی حق ہوگا۔ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ مفادِ عامہ اور ملکی تعمیر و ترقی پر خرچ ہوگا۔ ملکی وسائل پر اشرافیہ کی بندر بانٹ ممنوع ہوگی۔ قومی خزانے پر حکمرانوں کی کنبہ پروری اور اللّے تللّے حرام تصور ہوں گے۔ جمہوریت کے نام پر نسل در نسل باپ کے بعد بیٹا اور دادا کے بعد پوتا جیسی بدعتوں پر پابندی ہوگی۔ غیر جمہوری سیاسی پارٹیوں کو جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کی اجازت ہرگز نہ ہوگی۔ الیکٹ ایبلز راج نیتی میں شجر ممنوعہ نہیں ہوں گے۔ پون صدی گنوانے کے بعد اب بھی وہی فرسودہ نظام‘ وہی چہرے‘ وہ تجربات‘ وہی عذر دہرانا عوام کو مرگِ نو سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ جو نظام عام آدمی کی روٹی نہ چلا سکتا ہو وہ امور مملکت کیونکر چلا سکتا ہے۔‘‘
یہ شوقِ اقتدار کے مارے اپنی درجنوں فیکٹریاں اور ملیں چلا سکتے ہیں‘ وسیع و عریض کاروبار چلا سکتے ہیں‘ لمبا چوڑا مال بنا سکتے ہیں‘ سرکاری وسائل کی بندر بانٹ کر سکتے ہیں‘ ملکی خزانے پر بندہ پروری اور کنبہ پروری کر سکتے ہیں لیکن ملک و قوم کا بھلا نہیں کر سکتے کیونکہ ملک و قوم کے بھلے میں انہیں خسارے برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اسی لیے یہ اپنا بھلا کرنے کے لیے ملک کو خساروں سے دوچار کرتے چلے آئے ہیں۔ اب یہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ ملک کا خسارہ مقصود ہے یا ان سبھی کا۔ اگر ملک و قوم کو بچانا ہے تو سارے قومی خسارے ان کے کھاتے میں ڈالنا ہونگے کیونکہ اصل خسارہ بھی یہی ہیں اور خسارے کی وجوہات بھی یہی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved