ہم انسانوں کا معاملہ عجیب ہے۔ ہم نے اپنے خیر اندیش کو پہچاننے میں اکثر غلطی کی۔ اس کے لیے ہمارے پاس حرفِ دشنام تھا یا نوکِ تلوار۔
اس باب میں سب سے دلخراش داستان نبیوں کی ہے۔ صدق و صفا اور عصمت و وفا کے ایسے پیکر چشمِ تصور نے کبھی نہیں دیکھے۔ وہ جن کے غم میں گھلے جاتے تھے اور جن کی خیر خواہی میں راتیں قیام و سجود میں گزارتے تھے‘ انہی کے ہاتھوں کبھی مصلوب کیے گئے اور کبھی کسی رقاصہ کی فرمائش پر ان کے سر قلم کر دیے گئے۔ مسیح و یوحیا کی داستان کو بائیل نے محفوظ کیا اور اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی سرگزشتِ انذار کو قرآن مجید نے اس طرح سنایا کہ فصاحت اس کے سامنے سر بسجود ہو گئی۔
انبیا کے نقوشِ قدم پر چلنے والے کچھ صالحین تھے جنہوں نے انسانوں کو خیر کی طرف بلایا۔ انہیں نقصان سے بچانا چاہا۔ جیسے سر سید۔ ان کے سروں پر انبیا کی طرح عصمت کی چادر نہیں تھی۔ ان کی آرا میں غلطی کا پورا امکان تھا مگر ان کا اخلاص اس طرح ظاہر و باہر تھا کہ عقلِ سلیم کے لیے اس کا انکار محال ہے۔ ان کا استقبال بھی استہزا سے ہوا یا دشنام سے۔ کم ہی تھے جنہوں نے ان کے اخلاص کی قدرکی۔ کچھ تو پسِ مرگ بھی گالیوں سے نوازے جاتے ہیں۔
برونو اور گلیلیو جیسے لوگ نبی تو نہیں تھے لیکن ان کا شمار بھی انسانیت کے خیر اندیشوں میں ہوتا ہے۔ انسانوں کو تحقیق و تسخیرِ کائنات کی راہ دکھائی مگر جواباً ان کے لیے آگ کے شعلے تھے یا دارو رسن۔ ابنِ رشد کو بھی ان میں شامل کر لیجیے۔ ابنِ تیمیہ اور شاہ اسماعیل شہید جیسے لوگ آج بھی کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ تاریخ ان کے بارے میں فیصلہ دے چکی مگر انسانوں نے انہیں معاف نہیں کیا۔ ان کے لیے وہ آج بھی ملزم بلکہ مجرم ہیں۔
مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں ایسوں ایسوں کو پوجا گیا جنہوں نے انسانوں کو تباہی و بربادی کا راستہ دکھایا۔ جنہوں نے نسلوں کو برباد کر ڈالا۔ ان میں سے کوئی غارت گرِ ایمان تھا تو کوئی سیاسی رہزن۔ اللہ کے نام پر لوگوں نے غیر اللہ کو مسجود مانا۔ لوگوں نے کھلی آنکھوں کے ساتھ غلاظت کو نگلا۔ یہ دستر خوان سجانے والے مسیحا ٹھہرے۔ ان کے مجسمے بنائے گئے اور انہیں سونے میں تولا گیا۔ گلی بازار میں ان کا چرچا ہوا اور وہ کندھوں پہ بٹھائے گئے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے: آزمائش۔ آزمائش اس کے لیے جسے جھٹلایا گیا اور اس کے لیے بھی جس نے جھٹلایا۔ انبیا اس میں شبہ نہیں کہ اس آزمائش میں پورا اترے۔ دشنام کے جواب میں دعا دینے کا حوصلہ انہی کو عطا ہوا۔ وہ ہر صورت میں انسانوں کے خیر خواہ رہے۔ جنہوں نے انہیں راہ نما مانا‘ انہوں نے بھی حسبِ توفیق اپنی زبانوں کو غیرثقہ الفاظ سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ کوئی اس آزمائش پر پورا نہیں اترا اور اس نے 'جیسے کو تیسا‘ کی روش اپنائی۔ تاریخ کے پاس سب کا ریکارڈ محفوظ ہے۔
ایک وجہ اور بھی ہو سکتی ہے۔ رائے کی غلطی اور اخلاص میں فرق عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ اخلاص کے لیے رائے کا درست ہونا بھی لازم ہے۔ تاہم اخلاص کے بارے میں ہم واضح ہو جائیں تو رائے کو ہمدردانہ طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ رائے جس کو ہم غلط سمجھ رہے ہیں‘ اس کی توجیہہ ہمارے لیے ممکن ہو جائے۔ دوسرے کی رائے کو سمجھنے کے لیے اس کی بہت اہمیت ہے۔ بعض اوقات معاملہ اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے۔ ہم کسی رائے کو اس لیے قبول کر لیتے ہیں کہ رائے رکھنے والے کے اخلاص پر ہمیں یقین ہوتا ہے۔
سر سید احمد خان کے مذہبی افکار کے بارے میں اکثر اہلِ علم کی رائے یہ تھی کہ وہ درست نہیں ہیں۔ اس وجہ سے بعض نے انہیں انگریزوں کا ایجنٹ بنا دیا لیکن ایسے بھی تھے جنہوں نے اس فرق کو ملحوظ رکھا۔ مولانا مودودی بھی سرسید کے مذہبی خیالات کے ناقد تھے۔ ان سے جب سرسید کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ 'مخلص گمراہ‘ تھے۔ ہم اس رائے پر نقد کر سکتے ہیں لیکن اس میں سرسید کے خیالات کو غلط کہنے کے باجود ان کے اخلاص کا اعتراف کیا گیا ہے۔
ایک سماج میں مکالمہ نہیں ہو سکتا جہاں لوگ رائے کی صحت اور عدم صحت تک محدود نہ رہیں۔ لوگوں کے اخلاص اور نیتوں کو ان کے کردار اور تاریخ کی بنیاد پر جانچیں۔ رائے کا تعلق دلیل سے ہوتا ہے اور اخلاص کا کردار سے۔ اگر ہم اس فرق کو ملحوظ رکھیں تو بھی ایک فرد کے بارے میں درست رائے قائم کر سکتے ہیں۔ بدگمانی کو بھی یہیں سے جگہ ملتی ہے جب ہم رائے اور اخلاص میں موجود سرحد کا لحاظ نہیں کرتے۔
دلیل کو جانچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کو جذبات‘ تعصبات یا مفادات کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ پیغمبروں کا انکار بالعموم ان تینوں وجوہات سے کیا گیا۔ اپنے آبائو اجداد سے جذباتی لگاؤ‘ پہلے سے اختیار کیے گئے افکار یا گروہ کے بارے میں تعصب یا پھر مفاد۔ سرداری چھن جانے کا خوف وغیرہ۔ یہی معاملہ غیر انبیا کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔ انبیا کا تعلق چونکہ ایمانیات سے ہے‘ اس لیے ان کا انکار ایک نازک معاملہ ہے۔ دوسروں کے انکار سے دنیا خراب ہو سکتی ہے۔
جذبات اور دلیل کو ایک دوسرے سے جدا کر نا آ سان نہیں ہوتا۔ یہ ریاضت کا تقاضا کرتا ہے۔ معاشروں میں یہ اہلِ دانش ہیں جو قوموں کے اندازِ نظر کا تعین کرتے ہیں۔ یہ ان کا کام ہے کہ لوگوں کو اس فرق کے بارے میں بتائیں اور ان کی تعلیم کریں۔ رسالت مآبﷺ نے اپنے صحابہ کی جس طرح تربیت کی‘ اس میں ہمارے لیے اعلیٰ تر مثال ہے۔ ہمیں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جب حمیتِ دین میں صحابہ نے جذبات کا اظہار کیا مگر نبیﷺ نے اس موقع پر صبر کی تلقین کی۔ اس کی سب سے اچھی مثال صلحِ حدیبیہ ہے۔
قوموں کی زندگی میں جذبات کی ضرورت ہوتی ہے جو قوتِ عمل پیدا کرتے ہیں۔ عمل مگر عقل کی راہنمائی ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ ضرور رہنے چاہئیں جو اس فرق کو واضح کرتے رہیں۔ جذباتی فضا میں عقل کی بات کرنا مشکل کام ہے۔ اس کی ایک قیمت ہے جو ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر پیغمبروں کا صبر مشعلِ راہ نہ ہو‘ آدمی کے لیے کھڑا رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صبر ان کی سیرت کا سب سے اہم باب ہے جس سے ان لوگوں کو سیکھنا چاہیے جو سماج کے عمومی رجحان سے مختلف بات کہتے اور پھر عوام کی گالیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
فلسطین‘ کشمیر اور زمین کے کسی اور خطے میں جہاں جہاں ظلم کی داستانیں لکھی جا رہی ہیں‘ وہاں جذبات کو ابھارنا حیرت کی بات نہیں۔ اس میں ان لوگوں کے حصے میں گالیاں ہی آئیں گی جو زندگی بچانے کی بات کرتے ہیں۔ زندگی کو بچانے کی کوشش مگر اتنا نیک کام ہے کہ اس کے لیے گالیاں کھائی جا سکتی ہیں۔ خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے لیے تیار رہا جائے۔ انسان کا معاملہ یہی ہے کہ وہ اپنے خیر اندیش کو پہچاننے میں اکثر ناکام رہتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved