تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-10-2013

بی بی جان

سارا وقت میں یہ سوچتا رہا۔ ملوکیت بری اور جمہوریت بہت اچھی۔ معاشرہ مگر اخلاقی اقدار سے محروم ہو تو جمہوریت چھچھوروں کی حکمرانی کے سوا اور کیا تحفہ دے سکتی ہے؟ یہ دو عدد کمرے؟ ان کا جواز میری سمجھ میں نہیں آیا؟ بی بی جان کا لہجہ استوار رہا اور انہوں نے کہا کہ ملکہ برطانیہ کے لیے بنائے گئے تھے‘ 1964ء میں جب وہ پاکستان کے دورے پر آئیں۔ بی بی جان والیِ سوات کے سب سے چھوٹے فرزند احمد زیب کی اہلیہ محترمہ ہیں‘ جو جوانی میں انہیں داغِ مفارقت دے گئے۔ پہاڑ جیسی جوانی بی بی نے کڑے تیوروں کے ساتھ بسر کی اور اپنی اولاد کی باپ بن کر پرورش کی۔ اب بھی وہ ایسی ہی واقع ہوئی ہیں۔ بچوں کی ماں بھی‘ باپ بھی۔ عمران خان کی طرح‘ جن کے بچے کرسمس کی چھٹیاں گزارنے آتے تو وہ ان کی اماں جان بن جاتے۔ کھانے کی میز پر بی بی نے ایک پھڑکتا ہوا جملہ کہا تو ان کے 32 سالہ بیٹے عمر نے کمسن بچے کی طرح انہیں چُوما اور والہانہ وارفتگی کے ساتھ اماں نے بھی۔ ہمیشہ کے غیر حاضر دماغ مسافر کو تیسری شام یاد آیا کہ مسرت بی بی سے ملے بغیر‘ وہ واپس نہیں جا سکتا۔ فون کیا تو سننے والے نے تعجب کے ساتھ پوچھا‘ آپ کون ہیں اور کیا آپ ان سے ملنا چاہتے ہیں؟ غالباً میرے بے تکلف انداز نے اسے حیران کیا‘ پھر اس نے کہا کہ وہ گھر سے باہر ہے اور ایک گھنٹہ کے بعد‘ اطلاع دے سکتا ہے۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد‘ اس نے بتایا کہ میں فوراً ان کے گھر کی طرف روانہ ہو سکتا ہوں۔ میں مینگورہ سے باہر بلندی پر بنے‘ ایک گیسٹ ہائوس میں مقیم تھا اور کچھ مہمان فروکش تھے۔ میں نے معذرت کی اور عرض کیا کہ کچھ دیر کے بعد۔ تھوڑی سی حیرت بھی ہوئی کہ بی بی جان نے خود کیوں بات نہ کی۔ مہمانوں میں سے ایک نے مجھے گریز کا مشورہ دیا کہ وہ ایک سخت گیر خاتون ہیں اور من مانی کی عادی۔ میں اس سے زیادہ جانتا تھا۔ ایک طویل ملاقات اسلام آباد میں ان سے ہو چکی تھی‘ جب تحریک انصاف کے ٹکٹ ریوڑیوں کی طرح بٹ رہے تھے اور ملک کی مقبول ترین جماعت اپنے ستر فیصد ووٹ ضائع کرنے پر تلی تھی۔ آدمی اپنا جج نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں‘ میں بے باک آدمی ہوں یا نہیں مگر بے تکلف ضرور ہوں۔ حکمت یار سے لے کر پروفیسر احمد رفیق اختر ایسے جلیل القدر سکالر اور عمران خان سے لے کر جنرل کیانی تک‘ کسی شخص سے بات کرنے میں جھجک کا احساس کبھی کم ہی ہوا۔ جس کسی سے دوستی ہوئی‘ اکثر اولین ملاقات میں اور جس سے کنارہ کشی کا ارادہ کیا‘ وہ بھی اکثر آغاز ہی میں۔ میجر ابن الحسن مرحوم نے اس ناچیز سے کہا تھا: دماغ کے نہیں‘ تم دل کے آدمی ہو‘ دل و دماغ میں اگر کشمکش ہو تو اکثر اپنے دل کی بات مان لیا کرو۔ پہلی ملاقات ہی میں بی بی جان نے اعلان کر دیا کہ ہارون الرشید میرا بھائی ہے اور مجھے سوات آنے کی دعوت دی۔ اپنے فرزند سے ملوایا اور اس کے بارے میں مجھ سے بات کرتی رہیں۔ اپنی پارٹی اور لیڈر کے بارے میں بھی‘ جن کے مستقبل کا سوال ایک ماں کی طرح انہیں پریشان کرتا تھا۔ دو گھنٹے کے بعد ان کا فون آیا‘ اپنی غریب بہن کو تم بھول گئے۔ فوراً اپنا بوریا بستر اٹھا کر یہاں چلے جائو۔ پتہ انہوں نے بتایا نہیں۔ شاہی محلات کے پتے نہیں بتائے جاتے۔ میں نے کہا: کب سے آپ غریب ہو گئیں؟ بولیں: ہماری جائیداد پر حکومت پاکستان کا قبضہ ہے۔ ایک لمحہ تأمل کے بغیر‘ میں نے کہا: سپریم کورٹ دلوا دے گی۔ اسی روانی کے ساتھ جواب ملا: سپریم کورٹ سے امید تمہیں ہوگی‘ مجھے تو نہیں ہے۔ گزارش کی: الحمد للہ زمانہ گزرا‘ کبھی کسی بندے سے کوئی امید نہیں رکھی‘ مگر اللہ سے ہمیشہ۔ بی بی جان کے لہجے میں گداز اتر آیا اور اس شاہانہ انداز میں جو ان کا شعار ہے یہ کہا: یہ ہوئی نا بات۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عدالت عظمیٰ حکم صادر کر چکی‘ حکومت نافذ نہیں کرتی۔ ہردیپ کمار نے بتایا کہ ان کے کرایہ دار‘ ایک سادہ سے فارمولے کے تحت کرایہ ادا کرتے ہیں‘ مکان کے جتنے ستون ہوں اتنے روپے ماہوار۔ جو ان میں سے خریدنے کے قابل ہوتے ہیں‘ وہ اپنا حق جتلاتے ہیں اور نصف سے زیادہ قیمت کبھی ادا نہیں کرتے۔ اس پر کوئی تعجب نہیں کہ ’’کم بخت‘‘ ان کا تکیہ کلام ہے۔ میرے ساتھی نے ان سے کہا: آپ کے منہ سے یہ لفظ بہت بھلا لگتا ہے‘ اس پر اس نے ایک قہقہہ برسایا۔ تین دن سے ایک ایسے بستر پر میں سو رہا تھا‘ جس کا گدّا بہت نرم تھا اور عادی نہ ہونے کی وجہ سے کمر میں درد تھا کہ ہمیشہ چارپائی‘ زمین‘ ہارڈ بورڈ والے بستر پر سوتا رہا۔ میں نے کہا: ذرا سنبھل جائوں تو آپ سے بات کرتا ہوں‘ فلاں دوا ابھی ابھی کھائی ہے۔ بولیں: بالکل غلط‘ آپ کو فلاں دوائی لینا چاہیے تھی۔ ’’چھوڑو جی‘‘ میں نے کہا ’’درد کش دوا کوئی علاج تو نہیں ہوتی۔ ایک نہ سہی دوسری سہی اور فوراً ہی ان کے لیڈر پر ایک جملہ چُست کیا۔ بالکل نہیں‘ وہ بولیں‘ تم دوسرے لوگوں کا مذاق اڑا سکتے ہو‘ میرے لیڈر کا نہیں۔ وہی شاہانہ تمکنت‘ وہی بے تکلفی۔ ہمیشہ سے میں اس کا عادی ہوں۔ بہاولپور کے شاہی خاندان اور والیِ سوات کے کنبے میں بہت کم فرق ہے۔ گزرے زمانوں کے حکمران‘ جو ٹھاٹ سے حکومت کرتے مگر رعایا پہ اکثر مہربان بھی ہوتے تھے۔ ان کے احوال سے بہت کچھ میں واقف تھا۔ ان کے سسر کے بارے میں بھی۔ تین گھنٹے تک کھانے کی میز پر بے تکلفی سے تبادلۂ خیال کے بعد‘ جب ہم اندرونی چمن دیکھنے کے لیے اٹھے تو مرحوم میاں کے بارے میں‘ خود انہوں نے بتایا: کھلنڈرے تھے۔ ڈسپلن کا خوگر کرنے کے لیے فوج میں بھیجے گئے۔ مگر فوج بھی ان کا کچھ بگاڑ نہ سکی۔ کچھ دیر پہلے ہی گھر منتقل ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے‘ انہوں نے مجھ سے کہا تھا: صبح پرندوں کی آوازوں سے تمہاری آنکھ کھلے گی‘ جن کے لیے دانا دنکا ڈال دیا جاتا ہے اور ہر طرح کی حیران کن حد تک خوبصورت چڑیاں صحن میں گل گشت کرتی ہیں۔ اس پر گنوار مہمان نے کہا: بی بی جان یہی ایک مخلوق ہے‘ جو آپ کے عتاب سے محفوظ رہتی ہوگی۔ میاں کے ذکر پہ ان کا لہجہ بھیگنے لگا۔ گزرے زمانے کی سنہری یادیں۔ کہا: فوج کے بعد ان کا واسطہ مجھ سے پڑا۔ کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں میاں بیوی کا رشتہ بھی عجیب ہے۔ میرے دوست عادل صاحب کہتے ہیں: ہمیشہ اونچ نیچ کا شکار۔ دونوں خود کو مظلوم سمجھتے ہیں‘ حتیٰ کہ جدائی کی ساعت آن پہنچتی ہے۔ اس کے بعد‘ آنسو باقی رہ جاتے ہیں یا جیون ساتھی کی خوبیاں یاد آتی رہتی ہیں۔ سوات کے لیے رخصت ہونے کا وقت آیا تو بیگم نے کہا: اپنی صحت کا خیال رکھا کیجیے‘ کون جانتا ہے‘ زندگی کے کتنے دن باقی ہیں۔ میں نے اپنے آنسوئوں کو تھامے رکھا اور اللہ سے دعا کی کہ اس رفاقت کو برقرار رکھے۔ ہر ایک کو اس دنیا سے چلے جانا ہے۔ کلُّ مَن علیہا فان و یبقیٰ وجہُ ربک ذوالجلال والاکرام۔ سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے‘ باقی رہے گا‘ تیرے رب کا چہرہ‘ بے پایاں عظمت اور بے پناہ بزرگی والا۔ میں نے کہا: بی بی جان‘ میری بہن‘ شادی کے اولین ایام بہت مشکل ہوں گے۔ بولیں: بالکل نہیں‘ پھر وہ دلہنوں کی طرح شرما گئیں۔ کہا: مجھے لاج آتی ہے اور بتایا: فلاں امریکی اخبار نویس نے یہ کہانی لکھی تھی۔ اسے 2011ء میں صحافت کا قومی ایوارڈ ملا۔ بہت کچھ گفتگو سیاست پر ہوئی لیکن ظاہر ہے کہ آف دی ریکارڈ۔ سارا وقت میں یہ سوچتا رہا۔ بجا کہ ملوکیت بہت بری ہے اور جمہوریت بہت اچھی۔ معاشرہ مگر اخلاقی اقدار سے محروم ہو تو جمہوریت چھچھوروں کی حکمرانی کے سوا اور کیا تحفہ دے سکتی ہے۔ پس تحریر: کل کے کالم میں پروف کی دو غلطیاں رہ گئیں۔ عرض کیا تھا Homosapiens were Homoreligious یعنی اولین انسان ایک ہی مذہب پر تھے۔ ثانیاً افغانستان بختِ نصر کے حملے کے 27 نہیں‘ 27 سو برس بعد قائم ہوا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved