تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     20-10-2023

نواز شریف کی واپسی

آخر کار نواز شریف چار سال بعد لندن سے پاکستان لوٹ رہے ہیں۔ 2007ء میں پرویز مشرف دور میں وہ آٹھ برس بعد لوٹے تھے۔ تب ان پر الزامات مختلف تھے اب کی دفعہ مختلف ہیں لیکن سزاؤں کا دورانیہ تقریباً ملتا جلتا ہے اور سیاسی نااہلی بھی۔ میری 2006-07ء کے دوران نواز شریف سے لندن میں ایک سال تک مسلسل ملاقاتیں رہیں۔ تب میں‘ ارشد شریف اور ہمارے استاد اور میڈیا کا بڑا مرحوم نام ضیاء الدین صاحب اور دیگر صحافی دوست اکثر آکسفورڈ سٹریٹ اور ڈیوک سٹریٹ میں خبروں کی تلاش میں پائے جاتے تھے۔
نواز شریف اور شہباز شریف کی شخصیت میں بہت فرق ہے۔ شہباز شریف دوسروں کے سامنے خود کو سخت ایڈمنسٹریٹر یا سنجیدہ یڈر شو کرائیں گے۔ کراؤڈ کو پسند نہیں کریں گے‘ چند افسران ٹائپ لوگ ہی ان کے قریب ہوں گے۔ اگر کبھی ضرورت محسوس کریں گے تو بڑا قہقہہ بھی لگا لیں گے۔ کسی کو ضروری بات سمجھانی ہو گی تو پورا وقت لگا کر سمجھائیں گے لیکن ہاتھ ملاتے وقت کم ہی فرینک ہوں گے۔ان کے برعکس نواز شریف گرمجوشی اور مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ملائیں گے اور آپ کو لگے گا کہ آپ کی ان سے پرانی جان پہچان ہے۔ اس لیے اکثر لوگ نواز شریف کی ملنسار طبیعت سے خوش رہتے ہیں۔ وہ بھی چند قریبی دوستوں کی محفل سجا کر خوش رہتے ہیں جہاں لاہوری گپ شپ‘ جگتیں اور لطیفے چلتے ہیں۔ وہ خود کو کراؤڈ میں نارمل انسان کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن شہباز شریف ایسا کوئی کام نہیں کرتے کہ وہ دوسروں کو نارمل یا اپنے جیسے لگیں۔ نواز شریف کی ایک عادت ہے کہ وہ ہر بندے سے پوچھیں گے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ پوری توجہ سے اس کی بات بھی سنیں گے لیکن صاف ظاہر ہے‘ کرتے وہی ہیں جو ان کے اپنے ذہن میں ہوتا ہے‘ لیکن دوسرے کو عزت دیں گے کہ آپ کی بات پوری توجہ سے سن رہا ہوں۔ بلکہ اس وقت آپ کو یہ احساس بھی ہوگا کہ ان کے نزدیک آپ کی بات سے زیادہ اہم اور کوئی بات نہیں۔
مجھے یاد ہے جب میں 2006ء میں لندن میں رپورٹنگ کیلئے گیا تو ان سے ڈیوک سٹریٹ میں ملاقات ہوئی۔ بڑے اچھے طریقے سے ملے۔ میری ان سے پہلے ملاقات 2005ء میں جدہ میں ہو چکی تھی۔ انہیں ایک سال پہلے کی جدہ والی ہماری گفتگو یاد تھی۔ پوچھنے لگے کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ شہباز شریف بھی وہیں موجود تھے‘ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ میں اپنا سیاسی تجزیہ دینے لگا تو وہ ہما تن گوش ہو کر سننے لگے۔ درمیان میں شہباز شریف نے کوئی بات کی تو فوراً انہیں ٹوک کر کہا کہ آپ کو میں روزانہ سنتا رہتا ہوں‘ مجھے علم ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔ مجھے اس وقت اُن کی باتیں سننے دیں جو تازہ تازہ پاکستان سے آئے ہیں۔ شہباز شریف کو ان کا ٹوکنا اچھا نہیں لگا‘ وہ دفتر سے اٹھ کر چلے گئے۔ نواز شریف جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کا رویہ مختلف ہوتا ہے اور جب وہ وزیراعظم بنتے ہیں تو بالکل مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جب میری ان سے 2013ء میں وزیراعظم بننے کے بعد ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں 2006ء سے مختلف پایا۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے جو گفتگو وہ لندن میں کرتے تھے‘ اب وہ گفتگو نہ سنی بلکہ وہاں وہ جو دعوے کرتے تھے‘ اب سب کچھ اس کے برعکس کررہے تھے۔ لندن میں بیٹھ کر وہ ملک کو فرش سے اٹھا کرعرش تک لے جانے کی ترکیبیں بتاتے تھے اور لگتا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو شاید پانچ گھنٹے بھی نہ سو پائیں گے‘ بس کام ہی کام کریں گے۔ لیکن وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے ابنِ بطوطہ کی طرح پوری دنیا کی سیر کا پروگرام بنا لیا۔ حکومت انہوں نے اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے حوالے کی اور بیرونی ممالک کے 120سے زائد دورے کیے۔ اپنے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں وہ 400دن پاکستان سے باہر رہے۔ صرف لندن کے ہی 22 دورے کیے۔ مطلب وہ ایک سال پاکستان میں تھے ہی نہیں۔ پارلیمنٹ آٹھ ماہ تک نہ گئے۔ سینیٹ میں ایک سال تک نہ گئے۔ چھ چھ ماہ تک کابینہ اجلاس نہیں بلائے۔ پاکستان میں ہوتے تو بلاتے۔ پارلیمنٹ کی حاکمیت انہیں صرف لندن یا اڈیالہ جیل میں یاد رہتی ہے۔ سویلینز کے اختیارات انہیں لندن میں بیٹھ کر یاد آتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ کمزور ہوئی‘ حکومت کمزور ہوئی۔ اسحاق ڈار نے مہنگے قرضوں سے اکانومی چلائی۔ مہنگے کول پلانٹس چین سے منگوا کر لگوائے گئے جن کے پیچھے سب ''شریف لوگ‘‘ تھے۔ پچھلے دنوں ایک سابق وزیر کا بیان پڑھا کہ نواز شریف دور میں سستی بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگائے گئے تھے۔ موصوف خود اس وقت پاور کے وزیر تھے۔ کیا وہ قسم کھا سکتے ہیں کہ ساہیوال اور پورٹ قاسم پلانٹس سستے لگے تھے یا تیس‘ چالیس ارب روپے کے قریب کا لمبا کھیل کھیلا گیا تھا اور آج بھی ''شریف لوگوں‘‘ کو ڈالروں میں ادائیگیاں ہو رہی ہیں؟
بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ نواز شریف وزیراعظم بن پائیں گے یا اچانک کوئی ایسی بات ہو جائے گی کہ سامری جادوگر اپنے ہیٹ میں سے کوئی ہما پرندہ نکال کر کسی اور کے سر پر بٹھا دے گا؟ نواز شریف چالیس برسوں سے زائد سیاست کی غلام گردشوں میں گھومنے کے بعد اب کبھی کچے پر پاؤں نہیں رکھتے‘ خصوصاً جب وہ اپوزیشن میں ہوں اور اقتدار ان سے چھن چکا ہو۔ اُس وقت ان سے زیادہ سمجھدار اور ملک پر سویلینز کی برتری کی لڑائی لڑنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ان کی باتوں سے لگتا ہے وہ ملک کیلئے بہت پریشان ہیں اور صرف وہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں لیکن جونہی وہ وزیراعظم بنتے ہیں‘ یہ سب باتیں بھول کر اپنا سفری بیگ اٹھا کر حسین نواز کو ساتھ لے کر دنیا کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔ ان دوروں میں حسین نواز کی دلچسپی صرف اپنے بزنس کانٹیکٹس بنانے میں ہوتی ہے۔
نواز شریف کے حامیوں سے جان کی امان پا کر عرض کروں کہ کئی ملاقاتوں کے بعد بھی میں کبھی ان کی ذہانت یا انٹلیکٹ سے متاثر نہ ہو سکا۔ آپ بڑے بڑے سیاسی لیڈروں سے ملتے ہیں تو کچھ نہ کچھ سیکھ کر لوٹتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ جو بندہ آج اتنا آگے پہنچ گیا ہے تو ایسے نہیں پہنچا‘ اس میں ایسی خوبیاں یقینا موجود تھیں۔ میں جب بھی کامیاب لوگوں سے ملتا ہوں تو کوئی ایسی بات یا چیز ضرور محسوس کرتا ہوں جو میرے خیال میں انہیں آگے لے کر گئی۔ پاکستان میں آپ جتنے سیاسی حکمرانوں سے مل لیں وہ آپ کو متاثر کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ سطحی سے بھی کم ذہانت‘ بس سیاسی چالاکیاں۔ نواز شریف نے پچھلے چار سال لندن بیٹھ کر جو گفتگو کی‘ اس میں ایک بھی نئی بات نہیں تھی‘ سب وہی باتیں جو میں نے 2007ء میں لندن میں ان کے منہ سے سنی تھیں۔ فرق صرف ناموں کا ہے۔ 2007ء میں وہ پرویز مشرف سے اپنا سکور سیٹل کرناچاہتے تھے۔ اب کی دفعہ وہ قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کو فکس کرنے آرہے ہیں۔ اینکر دوست منیب فاروق‘ جو کچھ عرصہ قبل لندن میں نواز شریف سے مل کر آئے ہیں‘ وہ بتا رہے تھے کہ وہ اب بھی قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کے احتساب کے بیان پر قائم ہیں۔ نواز شریف کی خوبی سمجھیں یا خامی‘ وہ سابق افسران کے احتساب بارے اپنی رائے نہیں بدلتے‘ خود چاہے وہ اڈیالہ یا اٹک قلعہ جیل جا بیٹھیں۔ پرویز مشرف کے خلاف بھی مقدمہ قائم کیا اور اب وہ فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ پر بھی مقدمہ قائم کریں گے۔
ہو سکتا ہے کہ وہ وزیراعظم بننے تک خاموش رہیں لیکن یہ طے ہے کہ سب انسانوں کی طرح وہ بھی اپنی طبیعت اور جبلت کے غلام ہیں۔ ان کی حکومت اٹھارہ ماہ چلے یا تین سال‘ وہ ٹکڑ ضرور لیں گے۔ نواز شریف کی واپسی کی خبریں سن کر مجھے بچپن میں پڑھی کہانی یاد آئی۔ ٹارزن کی واپسی‘ وہ ٹارزن جس کا پورے جنگل کو انتظار تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved