ظلم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت جس انداز میں بھی ممکن ہو‘ نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔ کوئی مذہب‘ فلسفہ اور سیاسی روایت ایسی نہیں جو سفاکیت کا مقابلہ کرنے کی ترغیب نہ دے۔ خاموش رہ کر ظلم برداشت کرنا ظالموں کو طاقتور اور کمزوروں کو مزید کمزور بنا دیتا ہے۔ کسی قوم‘ تہذیب اور مملکت کی تاریخ کا کوئی صفحہ اٹھا کر دیکھ لیں‘ بات سمجھ میں آجائے گی۔ غلامی اور آزادی میں بس یہی فرق ہے۔ غلام لوگ اور قومیں جبر‘ ظلم اور زیادتی کو اپنے حکمرانوں کے اعمالوں کی سزا خیال کرکے ذلت اور بربادی کے گڑھے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتیں۔ آزادی پسند ہر حالت میں فکری‘ عملی‘ ثقافتی‘ ادبی اور سیاسی طور پر جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔ دور کیوں جائیں‘ مجھے تو حرص اور لالچ کے مارے یہاں کے زرپوش غلاموں کے رویوں پر ترس آرہا ہے کہ تھوڑی سی تپش بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ زبان و کلام اور سیاسی رُخ فوراً ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ جہاں معیارِ زندگی آسودگی‘ خوشحالی اور آرام و راحت ہی رہ جائے‘ وہاں حق و باطل کی تمیز کیا رہ جاتی ہے ۔ ظلم دیکھیں‘ ترقی کی تعریف ہمارے عالمی دانشوروں نے معاشی خوشحالی‘ سائنسی ایجادات اور بلند و بالا عمارتوں تک محدود کر دی ہے کہ افراد اور ریاستوں کی منزل ایسے مادی خوابوں کی تعبیر ہے۔ ساری دنیا اس سَراب کی دوڑ میں سرگرداں اور اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں کوئی حق بات کہنے‘ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے اور مزاحمت کاروں کی حمایت کرنے میں کچھ کھو نہ بیٹھیں۔ کہیں وہ خواب جو ہم نے بڑے شہر آباد کرنے‘ محل تعمیر کرنے اور دنیا کو یہ دکھانے کیلئے کہ ہم بہت ترقی کر چکے ہیں‘ دھڑام سے زمیں بوس نہ ہو جائیں۔ یہ ہے مصلحت پسندی جو آپ کو مغرب سے لے کر تمام مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے رویوں میں نظر آرہی ہے۔
مفاد پرستی میں کسی ملک اور نوع کے سیاست دانوں کا کوئی ثانی نہیں دیکھا۔ مغرب والے تو اسرائیل کی سفاکیت‘ اس کے قیام سے لے کر فلسطینیوں کے گھروں کو اجاڑنے‘ ان کے سینکڑوں سال پرانے زیتون کے باغات کو بلڈوز کرنے اورہر روز ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی تائید میں ثابت قدم ہیں بلکہ ضروری تعاون بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔ فلسطین ایک خوشحال‘ پُرامن‘ ہنستا بستا‘ تاریخی ملک تھا۔ تین مذاہب اور کئی تہذیبوں کا گہوارہ‘ بحیرۂ روم کے کنارے اس کا محل وقوع‘ معتدل آب و ہوا اور ہزاروں سال کی تاریخ و ثقافت صہیونیت کو ایک عرصے سے لبھا رہی تھی۔ انیسویں صدی کے آخر سے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ‘ جس کا فلسطین ایک صوبہ تھا‘ پر نظر تھی۔ اور یہ نظر اس وقت سے گہری تھی جب روس کے ہاتھوں ایرانیوں‘ عثمانی ترکوں کو مسلسل شکستوں سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر ایک صدی پہلے وہ جو منصوبہ بندی کررہے تھے‘ آخر اس میں کامیاب ہو ہی گئے۔ ترکوں کے باقی عرب صوبے تو نئے ملکوں میں تبدیل ہو گئے مگر فلسطین کو برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا کہ وہ اسے ایک مقتدر فلسطینی ریاست میں ڈھال دے گا۔ اسے لیگ آف نیشنز کی سپرداری کا نام دیا گیا۔ صہیونیوں نے دھڑا دھڑ فلسطین میں زمینیں خرید کر اور قبضہ کرکے اپنی بستیاں اور یروشلم میں محلے آباد کرنا شروع کردیے۔ مقصد یہودیوں کی آبادی میں اضافہ کرنا اور وقت آنے پر ملک پر قبضہ کرنا تھا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تاریخ منہ پھاڑ کر گواہی دے رہی ہے کہ صہیونیوں کی دہشت گرد تنظیموں نے پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی برطانوی انتظامیہ کے خلاف کارروائیاں شروع کردی تھیں اور یہ اسرائیل کے قیام تک جاری رہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد تو وہ فوجی دستوں کی صورت سمندری جہازوں میں لاکھوں کی تعداد میں فلسطین پر حملہ آور ہوئے۔ مغربی اتحادی ممالک کی فوجی اور سیاسی اعانت‘ سرپرستی‘ رہنمائی اور ہر نوع کا جنگی سازوسامان انہیں مہیا تھا۔ وہ نہتے فلسطینیوں پر وحشیوں کی طرح پل پڑے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی 75برس گزرنے کے بعد اب تک جاری ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
فلسطین کی دو تہائی سے زیادہ آبادی کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ وہ آج بھی اپنے ہی وطن میں محدود علاقوں میں مقید ہیں۔ بہت بڑی تعداد ہمسایہ عرب ممالک میں مہاجرین کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا میں فلسطینی جہاں بھی آباد ہیں‘ وہ اپنی مزاحمت‘ ادب‘ شاعری‘ قومیت‘ شناخت اور اپنی تاریخ کے حوالے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان کچھ جنگیں ہوئیں اور پھر انہوں نے صلح صفائی کر لی مگر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ آج تک جاری ہے۔ نسل پرستی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ مغرب اور اس کی پالتو صہیونی ریاست‘ اسرائیل نے جمہوریت‘ قانون اور برابری کی بنیاد پر ایک فلسطینی ریاست کو شروع سے ہی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہوا ہے۔ ایسا ہوگا تو پھر خود ہی سوچیں کہ حکومت کون بنائے گا۔ اس کا حل صہیونیوں نے اپنی ریاست کو مذہب کا پیراہن پہنا کر نکالا ہے۔ ''حقِ واپسی‘‘ کا نظریہ سازشیوں کی زنبیل سے برآمد کیا اور دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو شہریت دی۔ فلسطینی اور عرب باشندے سوائے ایک محدود تعداد کے جو صرف دکھاوے کے لیے ہے‘ حقِ شہریت نہیں رکھتے۔ یعنی ''حقِ واپسی‘‘ فلسطینی مہاجرین کے لیے نہیں۔ یاسر عرفات آخری سانسوں تک یہ حق مانگتے مانگتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
فلسطینیوں کی مزاحمتی جدوجہد کی تاریخ بہت طویل اور لہورنگ ہے۔ کسی قوم نے نہ وہ قربانیاں دیں اور نہ اس جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا جو فلسطینیوں کے جوان‘ بوڑھے‘ بچے اور عورتیں نسل در نسل پیش کرتے آئے ہیں۔ ان کی اپنے وطن کے حصول کے لیے قربانیوں اور جرأت کی لازوال داستان کو سلام۔ یہ ایک مغالطہ ہے جو اسرائیل کے حامیوں اور مغربی میڈیا کے ماہر اور بڑے کھلاڑیوں نے پھیلا رکھا ہے کہ ہر مرتبہ تشدد اور جنگ کی ابتدا فلسطینیوں کے مختلف گروہوں نے کی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ان کی بستیاں مسمار ہو رہی ہوتی ہیں۔ ان کا خون بہتا ہے۔ مغربی کنارے پر کئی معاہدے ہونے کے باوجود مقبوضہ علاقوں پر سینکڑوں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ غزہ کی چھوٹی سے زمینی پٹی پر 22لاکھ فلسطینی انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس محدود علاقے سے بھی وحشیانیہ بمباری کرکے انہیں مغربی سرحد کے قریب پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔
امریکہ اور یورپی ممالک کے سیاسی رہنمائوں کا فلسطینیوں کے حوالے سے رویہ دیکھ کر دنیا میں انصاف کی اقدار پر ہمارا یقین تو کب کا ختم ہو چکا۔ جس کو بھی کوئی غلط فہمی رہ گئی ہے‘ بہتر ہے کہ دور کر لے۔ وہ یک جان ہوکر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں‘ کوئی بھی پیچھے نہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں جنگ بند کرانے اور غزہ میں محصور لاکھوں انسانوں تک پانی‘ خوراک اور ادویات کی رسائی تک کی قراردادوں کو مسترد کردیا گیا ہے تاکہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری رہے اور اس چھوٹے سے علاقے کو بھی وہ فلسطینیوں پر تنگ کردے۔ مزاحمت تو پھر ہو گی اور جب تک ایک آزاد مقتدر فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوتی‘ جنگ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ یہ پیغام ہمارے بدعنوان مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی ہے۔ اب آپ کی مصلحت پسندی نہیں‘ مزاحمت چلے گی۔ آپ کی اور ان کی سفاکیت کے خلاف۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved