مسلمانانِ عالَم کے لیے المیہ یہ ہے کہ خَاتَمُ النَّبِیّٖن،رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے سفر معراج کی پہلی فِرُود گاہ ''بیت المقدِسٰ‘‘ پر آج صہیونیوں کا قبضہ ہے، اسے قرآنِ کریم نے ''اَلْمَسْجِدُ الْاَقْصٰی‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ شبِ معراج کو بیت المقدِس یا مسجدِ اقصیٰ کو نبی اول آدم علیہ السلام سے لے کر خَاتَمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہﷺ تک سب انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے قدموں کے لَمس کا شرف حاصل ہے۔ ''قُبَّۃُ الصَّخْریٰ‘‘کی ایک چٹان میں سوراخ کر کے تاجدارِ کائناتﷺ کی سواری براق کو باندھا گیا تھا۔ جبریلِ امین نے اذان اور اقامت کہی، تمام انبیائے کرام مقتدی بنے اورخاتم النبیینﷺ نے امامت فرمائی۔ امامِ اہلسنّت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے:
نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِرّ، عَیاں ہوں معنی، اوّل آخِر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر، جو سلطنت آگے کر گئے تھے
نوٹ: فِرُودگاہ کے معنی ہیں: ''قیام گاہ، اترنے کی جگہ‘‘۔
احمد ندیم قاسمی نے بڑی خوبصورت نعت لکھی ہے، اس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا ٭اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا ٭پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم ٭مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا ٭دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی ٭میں تو مر جاتا، اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا ٭لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا ٭میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا ٭تو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے ٭مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا ٭تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا، ہزاروں کا سہی ٭اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا۔
اس نعت کا مقطع یہ ہے:
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا
رسول اللہﷺ کے دوسرے خلیفۂ راشد امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں بیت المقدس فتح ہوا اور اس کی تولیت مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ 1948ء میں مغربی ممالک کے اقوامِ متحدہ پر اثر و رسوخ کے سبب اسرائیل کا ناسور وجود میں آیا اور اہلِ فلسطین کو اپنے وطن سے محروم کر دیا گیا ہے، وہ دربدر بھٹکتے پھر رہے ہیں، ان کی کئی نسلیں کرب سے گزری ہیں اور یہ ستم آج بھی جاری ہے۔ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی مگر امریکہ کی پشت پناہی کے سبب یہ جنگ مسلمانوں کی ناکامیوں پر مُنْتَج ہوئی۔ اسرائیل نے صحرائے سینا کے بیشتر علاقے سمیت شام کی گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا،جو آج تک قائم ہے۔ اسی طرح اردن کا مغربی کنارہ اور غزہ کا علاقہ بھی اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔ 1978ء می اُس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے مصر کے صدر انور السادات اور اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن کے درمیان معاہدہ کرایا جو ''کیمپ ڈیوڈ‘‘ معاہدے کے نام سے موسوم ہے۔ اس معاہدے کے تحت صحرائے سینا کا علاقہ مصر کو واپس دے دیا گیا اور مصر نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے اور اُس وقت کے مصری صدر انور السادات نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا۔ یاسر عرفات کی سربراہی میں الفتح کے نام سے تنظیمِ آزادیِ فلسطین قائم ہوئی، پھر وہ فلسطینی اتھارٹی کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے اور آج کل محمود عباس اس کے سربراہ ہیں۔شیخ احمد یاسین نے حماس کے نام سے تحریکِ آزادیِ فلسطین قائم کی اور آج بھی وہ زیر زمین موجود ہے۔ فلسطین اتھارٹی اُس حصے پر قائم کی گئی جو 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے اردن سے چھین لیا تھا، یہ دریائے اُردن کے مغربی ساحل اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ہے، مگر اسرائیل مسلسل تجاوز کرتا رہا اور غزہ کے علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے اپنی نوآبادیات قائم کرتا رہا۔ لاکھوں بے وطن فلسطینی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور جو فلسطین اتھارٹی کے زیرِ نگیں آباد ہیں، اُن کی جان و مال کو بھی ہر وقت خطرات لاحق رہتے ہیں اور اسرائیلی جب چاہتے ہیں، چڑھ دوڑتے ہیں۔ چشمِ فلک نے کئی بار اسرائیل کی جانب سے ننگی جارحیت اور ظلم و بربریت کے دردناک مناظر دیکھے، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو بھی نہ بخشا گیا۔
حال ہی میں غزہ کی پٹی میں ہنستی بستی آبادیوں کو اندھا دھند بمباری کر کے ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا، کسی کو نہیں معلوم کہ اس ملبے کے نیچے کتنے متنفس سسک سسک کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تازہ ترین یہ ہے کہ ہسپتالوں پر براہِ راست نشانہ بنا کر بمباری کی گئی اور بچوں، بوڑھوں، جوانوں، بزرگوں اور خواتین پر مشتمل ہزاروں نفوس کو حقِ حیات سے محروم کر دیا گیا۔ شہدا کی تعداد ہزاروں میں ہے، اموات اتنی ہیں کہ قبرستان تنگ پڑ گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے: مغربی میڈیا نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھوٹی خبریں نشر کیں، اسرائیل کو ظالم کے روپ میں دکھانے کے بجائے مظلوم بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے غزہ کے نیشنل ہسپتال پر بمباری کا الزام حماس کے سر تھوپ دیا، یہ ایک سپر پاور کے سربراہ کا انتہائی سنگدلانہ رویہ ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے، امریکہ کے بڑے نشریاتی ادارے سی این این اور فاکس ٹیلی ویژن جانب دارانہ خبریں نشر کر رہے ہیں، سچ کو چھپایا جا رہا ہے اور جھوٹ کو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ شاعر نے کہا ہے:
لشکر بھی تمہارا ہے‘ سردار بھی تمہارا ہے
تم جھوٹ کوسچ لکھ دو‘ اخبار بھی تمہارا ہے
پیرزادہ قاسم نے کہا ہے:
شہر طلب کرے، اگر تم سے علاج تیرگی
صاحبِ اختیار ہو‘ آگ لگا دیا کرو
حفیظ تائب نے بارگاہِ رسالت میں استغاثہ کرتے ہوئے کہا تھا:
سچ مرے دور میں جرم ہے، عیب ہے،
جھوٹ فنِّ عظیم، آج لاریب ہے
اک اعزاز ہے جہل و بے راہ روی
ایک آزار ہے، آگہی یا نبی!
دوسری طرف ستاون مسلم حکومتیں اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم بے بس ہیں، حربی اقدام تو دور کی بات‘ کوئی مؤثر سیاسی، سفارتی اور اقتصادی اجتماعی اقدام بھی سامنے نہیں آیا۔ مظلوم فلسطینیوں کے لیے ان کی ساری سوغات مذمتی قراردادیں ہیں اور بس! مسلم عوام صرف احتجاج کر سکتے ہیں، ریلیاں نکال سکتے ہیں، قراردادیں پاس کر سکتے ہیں، ابھی تک مظلوم فلسطینیوں کی بحالی اور امداد کے لیے کسی کا کوئی مؤثر کردار سامنے نہیں آیا۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
حیرت کی بات ہے! مغرب کے سرمائے سے پھلنے پھولنے والے این جی اوز، موم بتی مافیا اور لبرل بھی گونگے، بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں، انہیں بھی ان مظالم پر آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو: اُن کے مغربی سرپرست اور مُربّی ناراض ہو جائیں اور اُن کے راتَب بند ہو جائیں۔ نوٹ:راتَب کے معنی ہیں: ''روزانہ کی بندھی ہوئی خوراک، کھانا، راشن، روزینہ، وظیفہ‘‘۔ فلسطین کی اندوہناک صورتحال کے مقابلے میں ہمارے میڈیا کی اولین ترجیح بھی کرکٹ ورلڈ کپ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور (مسلمانو!) تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے، حالانکہ بعض کمزور مرد، عورتیں اور بچے (پکار پکار کر) یہ دعا کر رہے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کی اِس بستی سے نکال دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی کار ساز بنا اور کسی کو اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنا دے‘‘ (النسآء: 75)۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ دوسری قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی، جیسے کھانے والے خوانِ نعمت پر ٹوٹ پڑتے ہیں، ایک شخص نے کہا:کیا ہم اُس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: (نہیں!) بلکہ تم اُس وقت تعداد میں زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح (بے توقیر) ہو جائو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں''وَھْن‘‘ ڈال دے گا۔ سائل نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! ''وَھْن‘‘ سے کیا مراد ہے، آپﷺ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا‘‘ (ابودائود: 4297)۔
تاریخ کا المیہ یہ ہے: اس وقت دنیا مدبّر (Statesmanship) قیادت سے محروم ہے، تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ امریکہ اپنی حربی صلاحیت اور اقتصادی برتری کے سبب وحدانی سپر پاور بنا ہوا ہے، لیکن وہ عالمی برادری کی قیادت کی اخلاقی صلاحیت سے محروم ہے، کوتاہ قامت، تنگ نظر اور بونے قیادت کے مناصب پر فائز ہیں۔ وہ اپنی ذاتی اور قومی ترجیحات سے بلند تر ہو کر عالمی قیادت کی صلاحیت سے محروم ہیں، امریکی صدر بائیڈن معمر ہونے کی بنا پر بعض اوقات توازن کھو بیٹھتے ہیں، لیکن ڈیموکریٹک پارٹی میں ان کا کوئی توانا حریف سامنے نہیں آ رہا، اسی طرح ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ریپبلکن پارٹی میں کوئی چیلنج سامنے نہیں ہے۔ الغرض قیادت کا فقدان ہے، سارا یورپ بھی توانا قیادت سے محروم ہے، یورپی ممالک امریکہ کے تابع مہمل بنے ہوئے ہیں، یورپ بھر میں کوئی توانا قیادت نہیں ہے جو امریکہ کو معقولیت کی طرف مائل کرے، اس کا کام صرف آنکھیں بند کر کے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانا ہے۔ اہلِ مغرب کی طرف سے حقوقِ انسانی، حقوقِ اَطفال، حقوقِ نسواں اور جمہوریت پسندی کے نعرے صرف مخالفین کو دبائو میں لانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، درحقیقت انہیں ان اَقدار سے کوئی غرض نہیں ہے، ورنہ عالمی برادری پر لازم تھا کہ اسرائیل کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیتی اور اس کے خلاف عالمی سطح پر تادیبی اقدامات کیے جاتے۔ اس کے برعکس امریکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی قراردادوں کو یکطرفہ طور پر ویٹو کر رہا ہے اور اس نے عالمی ادارے کو مفلوج بناکر رکھا ہوا ہے۔ دراصل ویٹو کا اصول ہی جمہوریت اور جمہوری اَقدار کی نفی ہے کہ پوری عالمی برادری ایک طرف ہو، تب بھی ایک ملک اس کے اِجماعی فیصلوں کو یکسر منسوخ کر سکتا ہے۔
عالمی سطح پر صرف چینی صدر شی جن پنگ مدبّر نظر آتے ہیں، لیکن وہ خاموشی کیساتھ اپنی معیشت کو مستحکم کرنے پر پوری توجہ مرتکز کیے ہوئے ہے، نیز عالمی سطح پر وہ اپنے سیاسی و اقتصادی اثر و رسوخ کو پوری منصوبہ بندی، تدبر اور حکمت کیساتھ بڑھانے میں مصروف ہیں۔ وہ امریکہ کے برعکس محاذ آرائی سے بچتے بچاتے آگے بڑھ رہے ہیں، سی پیک، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ان کی اسی عالمی پالیسی کا حصہ ہیں، لیکن چین امریکہ کی طرح نہ جنگیں کاشت کرتا ہے اور نہ ان کا خریدار ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے آپ کو یوکرین کی جنگ میں الجھا دیا ہے، لہٰذا روس امریکہ کو سرِدست کوئی بڑا چیلنج نہیں دے سکتا اور یورپ امریکہ کی متابعت میں محصور ہو چکا ہے، اس لیے اس کے ہاتھ سے عالمی قیادت نکل چکی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved