بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) جسے 'ون بیلٹ ون روڈ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‘ چین کا ایک اہم عالمی ترقیاتی منصوبہ ہے جس کے تحت مختلف ممالک کو تجارتی سطح پر منسلک کیا جا رہا ہے اوراب تک 49 تنظیمیں اور 154 ممالک اس منصوبے کا حصہ بن چکے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ دنیا کی دو تہائی آبادی کو آپس میں ملائے گا۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013ء میں اس وسیع منصوبے کا اعلان کیا جو شاہراہِ ریشم کے نقشِ قدم پر بنایا گیا ہے۔ اس کے زمینی راستے کو ''سلک روڈ اکنامک بیلٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو چین کو سڑک اور ریل کی مختلف راہداریوں کے ذریعے ایشیا کے تقریباً تمام ممالک سے ملاتے ہوئے یورپ تک جاتا ہے۔ ان راہداریوں کا ایک اہم حصہ چین پاکستان اقتصادی راہداری ہے جو گوادر سے خنجراب کے راستے 62 ارب امریکی ڈالر کی مالیت پر مشتمل ہے۔ پہلے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا انعقاد 2017ء میں جبکہ دوسرے فورم کا انعقاد 2019ء میں ہوا تھا جس میں دنیا بھر سے مختلف ممالک کے سربراہان کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی شرکت کی تھی۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دنیا کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا بہترین ذریعہ مانا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں چین پاکستان کا تزویراتی شراکت دار ہے۔
تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا انعقاد گزشتہ دنوں چین میں ہوا جس میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے شرکت کر کے پاکستان کی نمائندگی کی۔ بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں وزیراعظم صاحب نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت گزشتہ دس برسوں میں ہونے والی ترقیاتی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ مستقبل کے اہداف اور اس کلیدی منصوبے پر پاکستان کے بھرپور تعاون کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم صاحب نے عالمی معیشت میں مواصلاتی رابطوں کے موضوع پر منعقدہ اعلیٰ سطحی فورم سے بھی خطاب کیا جبکہ ان کی چین میں چین کے صدر شی جن پنگ، وزیراعظم لی چیانگ سمیت دیگر اہم شخصیات کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ آج دنیا کے متعدد ممالک کو سیاسی‘ اقتصادی‘سماجی اور تہذیبی چیلنجوں کا سامنا ہے اور انہیں جن مسائل کا طویل المدتی حل درکار ہے‘ بیلٹ اینڈ روڈ فورم انہی مسائل اور چیلنجز کو حل کرنے کے لیے وضع کیا گیا۔ ابتدا میں اس فورم میں چھیاسٹھ ممالک شامل تھے لیکن اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے مزید ممالک اس کا حصے بنتے گئے۔ بہت سے سربراہان کی نظر میں بی آر آئی دورِ حاضر اورمستقبل کے چیلنجوں کا حقیقت پسندانہ اور عملی حل ہے۔ چین نے اپنے ملک میں جو نظام اور جس طرح کی جدیدیت متعارف کرائی ہے‘ وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جب کوئی ملک اور قوم ترقی کا عزم کر لے تو وہ مشکلات اور مسائل کو نہیں دیکھتی بلکہ اس کی نظر اپنے اہداف پر ہوتی ہے اور اس کی یہ سوچ اور فکر آگے بڑھتے ہوئے کروڑوں افراد کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیتی ہے۔
چین میں ہونے والی تیز ترین ترقی بہت عرصہ تک ایک راز رہی لیکن اب یہ راز دنیا پر کھل کر عیاں ہو چکا ہے کہ چین کی ترقی صرف اور صرف محنت اور درست سمت میں تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے کے کلیے میں مضمر ہے۔ پاکستان میں ہر حکومت اور ہر حکمران نے ہمیشہ چین کی پالیسیوں کی حمایت کی اور اس کی کامیابیوں کو سراہا۔ چین کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ اکیلا نہیں چلتا بلکہ دیگر دوست اور علاقائی ممالک کو ساتھ لے کر آگے بڑھتا ہے۔ دیکھا جائے تو مختلف سیاسی نظریات کے باوجود پاک چین دوستی کے حوالے سے کوئی بھی اختلافی نقطہ نظر نہیں ہے۔ چین پاکستان کا مضبوط شراکت دار ہے اور دونوں ممالک فطری ہمسایے اور ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ اور ابہام نہیں پایا جاتا۔
اس منصوبے کے تحت مشترکہ مستقبل سے متعلق چین کے صدر کے وژن کے مطابق عالمی ترقی و سکیورٹی اور عالمی ثقافت سے متعلق انتہائی موزوں اقدمات کیے جانے کا امکان ہے۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی اپنے ہم منصب کو یقین دلایا کہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کے معاملے پر پاکستان ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ دونوں ممالک ماضی کی طرح مستقبل میں بھی قدم سے قدم ملا کر چلیں گے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی پاکستان کے کردار کو سراہا اور کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعلقات کا فروغ چاہتا ہے کہ اس کی ایک وجہ سی پیک بھی ہے جو پاکستان اور چین کے مضبوط تعلقات کا عکاس ہے۔
پاکستان ویسے تو قدرت کی بے شمار نعمتوں سے مالامال ملک ہے لیکن اس کے پاس جس تناسب میں کم عمر نوجوان موجود ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور اسی منفرد نکتے کی جانب دورۂ چین کے دوران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے دنیا کی توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے مختلف انٹرویوز اور خطابات میں اس بات پر زور دیا کیا کہ پاکستان کی لگ بھگ دو تہائی (چونسٹھ فیصد) آبادی تیس برس تک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں سے 29فیصد پندرہ سے انتیس سال کے درمیان ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور نوجوان اس شعبے کو بڑی عمر کے افراد کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں، اس لیے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو ہنر اور جدید تربیت سے آراستہ کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح پاکستان کے پاس گوادر کی شکل میں ایک اور زبردست ذریعہ موجود ہے جومعیشت کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ گوادر میں نیا بین الاقوامی ایئرپورٹ بننے سے بندرگاہ کو علاقائی تجارت اور رابطے کے مرکز کے طور پر کام کرنے کے قابل بنایا جا سکے گا۔ اہم تجارتی منصوبے ملکوں کی غربت کو کم کرنے میں خاصے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ چین نے خود بھی اپنے 80کروڑ سے زائد شہریوں کو غربت کی سطح سے باہر لانے کے لیے ایسی ہی معاشی پالیسی اپنائی۔
دوسرا اہم میدان تعلیم ہے جس میں چین سے مدد لے کر ہم خاصی بہتری لا سکتے ہیں۔ ہمارے بہت سے نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لیے چین جاتے ہیں۔ اسی طرح چینی عوام بھی پاکستانی تعلیمی اداروں میں زیرِتعلیم ہیں۔ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھنا چاہیے۔ دونوں ممالک کے اہم تعلیمی اداروں کے درمیان روابط میں مزید وسعت لانے سے مثبت اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں توانائی کی بھی بڑی مارکیٹ موجود ہے لہٰذا اس میدان میں ہونے والی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ پاکستان کو صرف بجلی نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ اور سستی بجلی درکار ہے۔ پاکستان میں شمسی توانائی کے شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں اور یہاں اوسطاً آٹھ سے نو گھنٹے مسلسل سورج کی روشنی دستیاب رہتی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا ایک اہم مقصد دنیا کے مختلف ممالک میں ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری بھی ہے جن سے نہ صرف مقامی سطح پر سہولتوں میں بہتری ا ٓسکے بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہو سکیں۔ اس منصوبے کے تحت انفراسٹرکچر پر بہت زور دیا گیا ہے جن میں بڑی شاہراہوں‘ پورٹس‘ پاورسٹیشنز‘ ایئرپورٹس اور ٹیلی کمیونیکیشن سے جڑے منصوبوں کی تعمیر اور اَپ گریڈیشن شامل ہے۔
اگر چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اسی رفتار سے آگے بڑھتا رہا تو پاکستان کو اس کے خاطرخواہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان نہ صرف چین کا بااعتماد ہمسایہ ملک ہے بلکہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند‘ شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری شمار کی جاتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved