اپریل 2022ء میں رجیم چینج کے بعد معاشی بدحالی کے علاوہ صرف ایک برس میں سکیورٹی فورسز کے کم از کم 282 اہلکاروں کی شہادت کا کبھی نہ مٹنے والا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ ان میں سے 40 شہادتیں صرف دسمبر 2022ء میں ہوئیں اور ستمبر 2023ء کے اواخر میں عید میلاد النبی کے موقع پر رنج و الم سے بھرپور دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہوئے۔ ان کا ماسٹر مائنڈ کون ہے‘ یہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں لیکن لگتا ہے کہ ہمارا ازلی دشمن اب اس خطے کا نیا سامراج بن کر ہمارے سینے پر چڑھ چکا ہے اور اپنے فطری اور دیرینہ اتحادی اور دوست اسرائیل کی طرح ہر قسم کی باز پرس سے بھی آزاد ہو چلا ہے۔ نجانے کس نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں کہ ہم اسکا نام لیتے ہوئے بھی جھجک کا شکار ہیں۔گزشتہ دنوں ڈسکہ میں پیش آئے ایک ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کے بعد آئی جی پنجاب نے پریس کانفرنس کی تو اس میں ذمہ داران کو پکڑنے کے اعلان کیساتھ ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں بیرونی ہاتھ ملوث تھے، قتل کی منصوبہ بندی پاکستان سے باہر کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ پریس کانفرنس میں ثابت کریں گے کہ دنیا کے امن کا دشمن کون سا ملک ہے، نیز یہ کہ ہمارے پاس جیو لو کیشن ،جیو فینسنگ اور دیگر شواہد موجود ہیں۔ خود کو عالمی قوانین سے بالا سمجھنے والے شرپسند ملک کی بدنامِ زمانہ ایجنسی نے ڈسکہ میں ایک بزدلانہ آپریشن کیا۔ اگرچہ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا مگر ان کا اشارہ واضح طور پر بھارت کی طرف تھا۔ دوسری جانب کینیڈا کی جانب سے بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں پر کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزام کے حوالے سے ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا:
India's 'network of extra-territorial killings' has gone global.
صرف کینیڈا ہی نہیں‘ پاکستان اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں بھارت کی نظر میں کھٹکنے والے افراد کی پُراسرار اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو 20 فروری کو راولپنڈی میں بشیر احمد عرف امتیاز عالم‘ جن کا آبائی تعلق کپواڑہ سے تھا‘کو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ 26 فروری کو گلستان جوہر کراچی میں خالد رضا کو اسی طریقہ کار کے تحت قتل کر دیا گیا۔ مارچ میں مستری زاہد ابراہیم کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی دہشت گردی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں آئے روز ذاتی دشمنیوں اور رنجشوں پر لوگوں کا قتل کیاجانا ایک معمولی بات بن چکی ہے لیکن یہ تینوں افراد وہ لوگ تھے جن کا ماضی میں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک اور بھارتی تسلط کے خلاف جہاد میں اہم کردار رہا ہے۔ اس لیے ان کی پُراسرار اموات کو سرسری نظروں سے دیکھ کر نظر نداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے قبل جون 2021ء میں لاہورکے علاقے جوہر ٹائون میں ایک کار بم دھماکے میں بھی ماضی کی ایک مشہور تنظیم کے سربراہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ گیارہ اکتوبر کو نمازِ فجر کے وقت سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کی ایک مسجد میں مشہور مذہبی لیڈر مولانا شاہد لطیف اور ان کے ساتھیوں پر دورانِ نماز تین مسلح افراد نے اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے مولانا شاہد لطیف اور دو افراد موقع پر شہید ہو گئے جبکہ چند افراد زخمی ہوئے۔ جیسے پہلے بتایا کہ آئی پنجاب نے اس حوالے سے پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ تمام دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن اس کی تفصیل ابھی میڈیاا ور دنیا کے سامنے نہیں لائی گئی جس کی وجوہات متعلقہ اتھارٹیز ہی جانتی ہوں گی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کی ہر ٹارگٹ کلنگ کے بعد بھارتی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا اکائونٹس پر ایک ہنگامہ ہو جاتا ہے اور جس انداز میں ان واقعات کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے اور جیسے نریندر مودی کے بیان کہ 'گھر میں گھس کر ماریں گے‘ کو شیئر کیا جاتا ہے‘ اس سے ان واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے حوالے سے رہا سہا شک بھی دور ہو جاتا ہے۔
کینیڈا نے تو ہردیپ سنگھ نجر سمیت خالصتان تحریک کے ایک اور سرکردہ لیڈر کی ٹارگٹ کلنگ پر دنیا بھر کو بتا دیا کہ اس میں بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ملوث ہیں۔ اس سے قبل اسرائیل نے بیرونی ممالک میں اپنے حریفوں کو ٹھکانے لگا کر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کی تھی اور کئی قتل تو اس پُراسرار انداز میں کیے گئے کہ دہائیوں تک ان کا کسی کو علم ہی نہ ہو سکا۔ ایک‘ ڈیڑھ دہائی قبل حماس کے ایک رہنما کو موساد کے ایجنٹوں نے جعلی برطانوی پاسپورٹ پر قطر میں داخل ہو کر انتہائی خفیہ طریقے سے ایک جدید قسم کے زہر سے شہید کیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہی سمجھا گیا کہ شاید موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے مگر پھر سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج نے اسرائیل کی اس خفیہ کارروائی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت بھی اب اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے مفاد کے خلاف کام کرنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ کی راہ پر چل نکلا ہے۔ مشہور پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کی خالصتان کے حق میں جیسے ہی وڈیو سامنے آئی‘ چند ہی دنوں بعد اسے ایک مافیا گینگ کے رکن کے ہاتھوں قتل کرا دیا گیا۔ لاہور میں پی آئی اے روڈ پر ایک سکھ خالصتانی لیڈر کو صبح کی سیر کے دوران اس کے با وجود قتل کر دیا گیا کہ اس کے دو محافظ اس کے ساتھ موجود تھے۔ پشاور میں عوامی اور سماجی طور پر انتہائی مقبول دس سکھ لیڈران کو داعش کی خدمات حاصل کر کے قتل کرایا جا چکا ہے اور سب جانتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں نشانہ بننے والے ان سکھوں کے قتل میں داعش کا نہیں بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کا مفاد تھا۔
چند روز پہلے تربت میں ملتان سے تعلق رکھنے والے چھ مزدوورں کو دہشت گردوں نے گھات لگا کر قتل کر دیا۔ قتل کیے گئے یہ محنت کش مزدور اپنے گھروں سے سینکڑوں کلو میٹر دور روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے لیکن 'را‘ نے اپنے سدھائے ہوئے پالتوئوں کی مدد سے ان بے گناہوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھادیا۔ بھارت اور اس کی دہشت گرد ایجنسیاں پاکستان میں کس قدر فعال ہیں اس کا ایک اندازہ تو کلبھوشن یادیو جیسے بھارت کے حاضر سروس نیوی آفیسر کی گرفتاری سے ہو جاتا ہے، اگر ماضی قریب کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو بھارت کا خون سے تر دامن صاف نظر آنے لگتا ہے۔ اس حوالے سے 2016ء ایک خونیں سال تھا جب 13 جنوری کو کوئٹہ پولیس سنٹر پر ایک خود کش حملے میں پندرہ جوان شہید ہوئے۔ 20 جنوری کو باچا خان یونیورسٹی پر بھارتی سپانسرڈ دہشت گردوں کے حملے میں 20 افراد شہید اور60 زخمی ہوئے۔ 29 جنوری کوژوب چھائونی پہ حملے میں سات جوان شہید ہوئے۔ چھ فروری کو کوئٹہ میں ایف سی کے قافلے پر حملے میں23جوان شہید ہوئے۔ سات مارچ کو چار سدہ میں ایک حملے میں تین پولیس کانسٹیبل اور سات شہری شہید ہوئے۔ 16مارچ کو پشاور میں سرکاری ملازمین کی بس پر خود کش حملہ ہوا جس میں17 افراد شہید اور57 شدید زخمی ہوئے۔ 27 مارچ کو گلشن اقبال لاہور میں خود کش حملہ ہوا جس میں 74 افراد شہید اور338 زخمی ہوئے۔ 8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے اندر ہوئے خود کش حملے میں70 وکلا شہید ہوئے۔ 2 ستمبر کو مردان ضلع کچہری میں خود کش حملے میں 14 افراد شہید اور 52 زخمی ہوئے۔ 13 ستمبر کو شکار پور پولیس پر خودکش حملہ ہوا، 16 ستمبر کو مہمند کی ایک مسجد میں دھماکا ہوا جس میں 23 افراد شہید ہوئے ۔ 24 اکتوبر کو پولیس ٹریننگ سنٹر کوئٹہ پر حملہ ہوا اور پانچ سو کے قریب ریکروٹس کو یر غمال بنا لیا گیا۔ اس کارروائی میں 60 پولیس اہلکار شہید اور 190 زخمی ہوئے۔ 28 اکتوبر کو ایف سی کے ایک لیفٹیننٹ کرنل اور ساتھیوں کو آواران میں گھات لگا کر شہید کیا گیا۔ 29 اکتوبر کو ناظم آباد کراچی میں جبکہ 12 نومبر کو خضدار شاہ نورانی کے مزار پر دو خود کش حملوں سے 52 افراد شہید اور 123 زخمی ہوئے۔ 26 نومبر کو مہمند کے ایف سی کیمپ پر حملہ کر کے دو جوانوں کو شہید اور چودہ کو زخمی کر دیا گیا۔ اسی روز گوادر میں بھی دو سکیورٹی جوانوں کو شہید کیا گیا۔ یہ سب 2016ء یعنی محض ایک سال کے اُس دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہیں جو نریندر مودی اور اس کے ایجنٹوں نے پاکستان کے خلاف بر پا کیے رکھی۔ ہم کب تک اس بھارتی دہشت گردی پر یونہی خاموش بیٹھے رہیں گے اور ہمارے حکام پریس کانفرنسز میں اس کا نام تک لینے سے گریز کرتے رہیں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved