اکیسویں صدی کا تیسرا عشرہ اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ ہمارے درمیان ہے یا یوں کہیے کہ ہم اِس میں سمائے ہوئے ہیں۔ ویسے یہ عہد اپنے اندر ایسا بہت کچھ سموئے ہوئے ہے جس کے ہاتھوں ہمارا جینا کارِ محال کے درجے میں آگیا ہے۔ کہنے کو جینا آسان ہوگیا ہے لیکن اگر سوچئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آسانیوں نے ایسی مشکلات پیدا کی ہیں کہ انسان کہیں کا اور کسی کا نہیں رہا۔ فطری علوم و فنون میں بے مثال پیش رفت نے عمومی سطح پر زندگی بہت آسان کردی ہے۔ پہلے جو کام مہینوں میں ہوا کرتے تھے وہ اب چند گھنٹوں میں ہو جاتے ہیں۔ رابطے آسان ہو جانے سے انسان کے لیے دنیا بھر میں کہیں بھی اپنی ضرورت کے مطابق کسی سے بات کرنا یا ورچوئل ملاقات کرنا ایسے ممکن ہوا ہے کہ اپنی آنکھوں اور ذہن پر یقین نہیں آتا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اِس عہد کی ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ مادّی ترقی نے انسان کو ذہن کے استعمال سے فارغ کردیا ہے۔ بیسیوں کام ذہنی مشقّت مانگتے تھے مگر اب وہ مختلف آلات کی مدد سے آسانی کے ساتھ کرلیے جاتے ہیں۔ ایسے میں ذہن فارغ بیٹھا ہے۔ فارغ بیٹھا ہوا ذہن رفتہ رفتہ بگڑ جاتا ہے اور پھر کسی کام کا نہیں رہتا۔
کوئی بھی ذہن اُسی وقت تک کارگر رہتا ہے جب تک اُس سے کام لیا جاتا رہتا ہے۔ ذہن کو ڈھنگ سے بروئے کار لایا جاتا رہے تو اُس کی کارکردگی کا گراف بلند ہوتا رہتا ہے۔ ایسے میں اُس سے مزید کام لینے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ جب ہم اپنے بیشتر معاملات مشینوں کے حوالے کر دیتے ہیں تب ذہن کے پاس کرنے کو کچھ خاص رہتا نہیں اور اِس کے نتیجے میں زندگی فضول سی دشواریوں کی نذر ہوتی جاتی ہے۔ ہم نے از خود نوٹس کے تحت طے کرلیا ہے کہ اب ذہن سے کام لینے کی کچھ خاص ضرورت نہیں رہی۔ ایسا نہیں ہے! ذہن کی اہمیت کل جتنی تھی آج بھی اُتنی ہی ہے۔ ہاں‘ اُس سے لیے جانے والے کام کی نوعیت بدل گئی ہے۔ کل تک ذہن سو طرح کے کاموں میں الجھا رہتا تھا۔ اُسے بہت سوچنا پڑتا تھا۔ حساب کتاب کے معاملات میں بھی اُس کی الجھن بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ بہت کچھ یاد رکھنا پڑتا تھا۔ عمومی نوعیت یا روزمرہ معاملت میں بھی ذہن کو حاضر رکھنا پڑتا تھا۔ بہت سا حساب کتاب ذہن میں تیار رکھا جاتا تھا تاکہ ضرورت پڑنے پر آسانی سے بہت کچھ یاد آجائے اور بات آگے بڑھائی جا سکے۔ یہ تمام مراحل تو اب skip ہوچکے ہیں۔ جی ہاں‘ آج ذہن کو بہت کچھ یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ اُسے حساب کتاب کی الجھنوں سے بھی نجات مل چکی ہے۔ وہ روزمرہ معاملات میں بہت سی باتوں کو ترتیب سے پیش کرنے کا پابند بھی نہیں رہا۔ بازار میں ایسی بہت سی چیزیں دستیاب ہیں جو ذہن کو فضول مشق و مشقّت سے نجات دلاچکی ہیں۔عمومی سطح پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اب ذہن سے کام لینے کی ضرورت ہی نہیں رہی کیونکہ انسان بیسیوں کام ذہن کو زحمتِ کار دیے بغیر کر رہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب ذہن کو بھلادیا جائے، نظر انداز کردیا جائے۔ ذہن کبھی از کار رفتہ نہیں ہوسکتا یا یوں کہیے کہ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم ذہن سے کام لینے کے پابند نہ رہیں۔ ہمارا پورا وجود ذہن کے بَل پر ٹکا ہوا ہے۔
کیا فی زمانہ ذہن سے کام نہ لینے کی صورت میں کام چل سکتا ہے؟ چل سکتا ہے مگر صرف عمومی‘ مادّی معاملات میں۔ فطری علوم و فنون میں بے مثال پیش رفت نے ہمیں اِس قابل کردیا ہے کہ ہم بہت سے عمومی اور یومیہ کام ذہن کو زحمتِ کار دیے بغیر انجام دیں۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے مگر اِس سے آگے خرابی ہے۔ بہت سے عمومی کام ذہن کو زحمتِ کار دیے بغیر کرنے کے قابل ہونے کی صورت میں ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب ذہن کو ایک طرف بیٹھ جانا چاہیے۔ ذہن سے ہم وہی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں جو ریٹائرڈ افراد سے روا رکھا جاتا ہے۔
کیا ذہن کا بنیادی کام یہ ہے کہ اُس کی مدد سے حساب کتاب کیا جائے، بہت کچھ یاد رکھا جائے تاکہ وقت پر کام آئے؟ کیا ذہن عمومی سطح پر ہماری اِتنی ہی مدد کرسکتا ہے؟ جدید ترین آلات کی مدد سے ہم ایسا بہت کچھ بہت آسانی سے کر رہے ہیں جو تین‘ چار عشرے پہلے تک ذہن کیا کرتا تھا۔ تب ذہن پر بہت بوجھ ہوا کرتا تھا کیونکہ اُسے ہر وقت بھرا ہوا رہنا پڑتا تھا۔ شاندار اور بے مثال مادّی ترقی نے ذہن کو بے جا مشقّت سے نجات بخشی ہے۔ تو کیا یہ سوچ کر خوش ہوا جائے کہ اب ذہن سے کام لینے کی ضرورت ہی نہیں رہی؟ دکھائی تو کچھ ایسا ہی دے رہا ہے۔ لوگوں نے شاید طے کرلیا ہے کہ زندگی کے مشاعرے میں اب ذہن کو زحمتِ کلام نہ دی جائے۔اس حقیقت پر غور کرنے والے کم ہیں کہ اب ذہن کا کام بڑھ گیا ہے۔ کل تک ذہن کو جو فضول مشق کرنا پڑتی تھی اُس سے نجات ملی ہے تو اُس کے لیے زیادہ اور بہتر کام کی گنجائش نکل آئی ہے۔ ذہن کا بنیادی کام کیا ہے؟ سوچنا، سمجھنا اور معاملات کو درست ترتیب کے ساتھ انجام تک پہنچانا۔ قدرت نے ذہن اِس لیے نہیں بخشا کہ اِس سے محض حساب کتاب کا کام لیا جائے یا بہت کچھ یاد رکھا جائے۔ ذہن کی اصل ذمہ داری ہے ماحول کو سمجھنا اور متعلقہ فرد کے لیے بہتر زندگی کی راہ ہموار کرنے والے طریقے سوچنا، فضول سرگرمیوں سے بچانا اور زیادہ توانا منصوبہ سازی کے ذریعے آسانیاں پیدا کرنا۔
آج کے انسان کو مادّی معاملات میں ذہن کی ضرورت نہیں رہی مگر باطنی، روحانی اور اخلاقی معاملات میں تو یہ ضرورت محض باقی نہیں بلکہ بڑھ گئی ہے۔ ہم مادّی ترقی کی رَو میں بہتے ہوئے اپنے باطن اور اخلاقی اقدار کو بھول ہی گئے ہیں۔ زندگی کا روحانی پہلو ہماری نظروں سے یوں اوجھل ہے گویا اِس کا وجود ہی نہ ہو۔ اچھی خاصی مشقت سے نجات ملنے پر اب ذہن کو باطن کی اصلاح اور روحانی بالیدگی کے لیے بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ آج اِس بات کی گنجائش بڑھ گئی ہے کہ انسان زیادہ مطالعہ کرے، اپنے آپ کو بہتر اور معقول زندگی کے لیے تیار کرے۔ معقول زندگی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ گھر میں آسائش کی اشیا بھری ہوں۔ حقیقی معقول زندگی وہ ہے جس میں ذہن کو بروئے کار لاتے ہوئے اخلاقی بلندی کے بارے میں سوچا جائے، روحانی ارتقا یقینی بنانے پر توجہ دی جائے۔ کیا آج کا انسان ایسا کر رہا ہے؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا۔
لوگوں نے مادّی سکھ اور آسائشوں ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ زندگی محض پیٹ بھرنے کا نام نہیں۔ سر پر محض اچھی چھت کا ہونا کافی نہیں۔ فکر و نظر کی گہرائی کے ذریعے زندگی کی حقیقت تک پہنچنا بھی لازم ہے تاکہ اپنے خلق کیے جانے کا حق ادا کرنے کے بارے میں کچھ طے کیا جائے۔ اس مرحلے سے محض گزرنا نہیں بلکہ مسلسل گزرتے رہنا ہے۔ذہن کو سوچنے پر مائل کیجیے گا تو دیکھیے گا کہ ابھی ایسا بہت کچھ ہے جو صرف ذہن کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔ اخلاقی اقدار کی پاسداری کے احساس کا حامل ہونا توانا ذہن ہی کی مدد سے ممکن ہے۔ آخرت کے تصور اور اُس پر ایمان کی سلامتی کا مدار ذہن کی سلامتی پر ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید نے ہمیں آخرت کے بارے میں سوچنے سے بیگانہ کردیا ہے۔ اہلِ مغرب کی طرح غالباً ہم بھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے، اِس کی رنگینیوں سے خوب مستفید ہونا چاہیے اور اِس کے بعد کے مرحلے کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہیے۔
آج ذہن کی ذمہ داری دوچند ہوگئی ہے۔ مادّی ترقی ہی کو سب کچھ سمجھ لینے سے ہر معاشرے کی نئی نسل الحاد کی طرف جھکتی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ توانا ذہن اگر فکر و نظر کی گہرائی کا حامل ہو تو دنیا کی حقیقت کو سمجھ کر آخرت کے بارے میں ٹھوس رائے قائم کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں زندگی کا معیار بلند کرنے کی سمت پیش رفت ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ ذہن کو از کار رفتہ سمجھنے کے بجائے اُسے سوچنے پر مائل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اُخروی زندگی کے لیے معقول تیاری کی جا سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved