بعض لوگوں کے اس دنیا سے چلے جانے کا یقین نہیں آتا چاہے برسوں گزر جائیں۔ پہلے نعیم بھائی‘ پھر ڈاکٹر ظفر الطاف‘ پھر لیہ کے مرشد رانا اعجاز محمود چل دیے۔ پتہ نہیں کتنا عرصہ لگا خود کو سمجھانے میں کہ اب ان سے ملنے کیلئے اپنے مرنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ اگر میں ان تینوں کے دُکھ کو ملا کر دیکھوں تو مجھے لگتا ہے ارشد شریف کی موت کی تکلیف اور دکھ زیادہ ہے۔ ایک تو ارشد شریف کا قتل جن حالات میں ہوا وہ بالکل مختلف تھے۔ دوسرے ایک خوبصورت مسکراہٹ کا مالک ارشد ابھی نوجوان تھا‘ ابھی پوری زندگی اس کے سامنے پڑی تھی۔ تیسرے موت غیرفطری انداز میں ہوئی‘ اسے گولی سے مارا گیا۔ اس لیے ارشد شریف کی موت کا صدمہ اتنی آسانی سے نہیں جائے گا۔
اسلام آباد میں ڈاکٹر ظفر الطاف اور ارشد شریف وہ لوگ تھے جن سے میری دوستی اس شہر میں آتے ہی ہو گئی تھی۔ دوستیاں بھی عجیب ہوتی ہیں‘ شہر میں اگر میں کسی پر بھروسا کر سکتا تھا تو پہلے یہی دو لوگ تھے‘بعد میں میجر عامر جیسے دوست اس فہرست میں شامل ہوئے۔ آپ مشکل میں ہیں تو ممکن نہیں کہ ڈاکٹر ظفر الطاف اور ارشد شریف یا میجر عامر خود کو آپ کیلئے مشکل میں نہ ڈالیں۔ ان تینوں میں کئی باتیں مشترک تھیں۔ ان کے بہت دوست تھے اور ان کے ہر دوست کو یہ یقین تھا کہ وہ ان کا سب سے قریبی دوست ہے۔ کتابیں پڑھنے کے بہت شوقین تھے۔ ارشد شریف کی آدھی تنخواہ کتابوں اور دوستوں کو کھانے کھلانے پر خرچ ہوتی تھی تو ڈاکٹر صاحب بھی کتابیں خریدکر اور دوستوں کو روزانہ لنچ کرا کے خوش ہوتے۔ دونوں بلا کے ذہین تھے۔ ایسی خوشگوار اور ذہین کمپنی کہ آپ گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھیں اور مجال ہے بور ہوں۔ اگلے دن آپ پھر ان سے ملنے پہنچے ہوئے ہوں۔
ارشد شریف کی اندوہناک موت کا جہاں اس کے پانچ بچوں‘ ماں اور بیوہ کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے وہیں ہمارے جیسے دوست بھی رُل گئے ہیں‘ جن کے ساتھ اُس کا دن کے دس بارہ گھنٹے کا ساتھ تھا۔ شہر کا کون سا کیفے یا ریسٹورنٹ ہوگا جہاں ہم نہیں جاتے تھے۔ ویک ڈیز ہوں یا ویک اینڈ‘ ارشدشریف‘ ضمیر حیدر‘ عدیل راجہ‘ علی عثمان‘ خاور گھمن‘ شاہد بھائی اور میں۔ باقی یار دوست بھی کبھی کبھار ہمیں جوائن کرتے اور ہماری محفلیں جوان رہتیں۔ ویک اینڈ پر شاہد بھائی‘ ارشد شریف یا میرے گھر پر محفل جمتی۔ ایک کھلا ڈُلا انسان جو دوستوں پر خرچ کر کے خوش ہوتا۔ انہیں کھلا پلا اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر انہیں کمفرٹ دیتا۔
ہم میں سے کبھی کسی نے نہ سوچا تھا کہ ارشد شریف یوں اچانک ہماری زندگیوں سے غائب ہو جائے گا۔ زندگی سے بھرپور ایک خوبصورت دل کا انسان جو آئیڈیلزم پر یقین رکھتا تھا۔ جس کے خیالات پر آپ اعتراض کرسکتے تھے لیکن وہ اپنے خیالات پر جان دے سکتا تھا‘ پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔آپ ارشد شریف کو پیار سے فتح کرسکتے تھے‘ بندوق کی نالی سے نہیں ‘اور وہی کچھ ہوا۔ ارشد نے جان دے دی لیکن اس کے قاتل اسے اپنے سامنے جھکا نہیں سکے۔ جو لوگ ارشد شریف پر پاکستان میں مقدمے کرا رہے تھے‘ اُسے دھمکیاں دلوا رہے تھے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ ڈرنے والا نہیں۔ ارشد شریف کو ہینڈل کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ اسے دلیل سے قائل کیا جائے یا پھر پیار سے۔ وہ دھمکی سے ڈرنے والا نہیں تھا۔ سب دوست گواہ ہیں کہ میرا ارشد شریف سے ان ایشوز پر تلخی کی حد تک بحث مباحثہ ہوتا تھا۔ کئی دفعہ ناراضگیاں بھی ہو جاتیں تو دوسرے تیسرے دن اُس کا فون آ جاتا‘ باس کیا منہ بنایا ہوا ہے۔ کدھر ہو۔ بس کافی ہوگیا آئو لنچ کرتے ہیں اور پھر ہم یوں ملتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ کبھی کبھار ارشد کو دوستوں کی محفل میں بہت غصہ آجاتا تو باقی سب دوست اس کے احترام یا ڈر کی وجہ سے چپ رہتے تو اُس وقت اگر کوئی اُسے کنٹرول کرسکتا تھا تو وہ میں تھا۔ میرے لیے ہمیشہ اُس کے دل میں بڑے بھائی والا پیار اور احترام تھا۔ ایک آدھ دفعہ ایشو ہوا تو پوری فیملی نے اُسے کہہ کر دیکھ لیا‘ اُس نے کسی کی نہ مانی۔ عدیل راجہ نے کہا‘ سب نے کوششیں کر کے دیکھ لیں اب تم ہی آخری ہو جس کی وہ سنتا ہے۔ میں ارشد سے ملا‘ تین گھنٹے تک سمجھاتا رہا‘ وہ غصے میں بولتا رہا‘ آخر تین گھنٹے بعد اس نے صرف اتنا کہا: سوچوں گا۔ شام کو راجہ عدیل کا فون آیا کہ آخر تمہاری بات اُس نے مان لی ہے۔ یہ زعم مجھے ہمیشہ رہا کہ ارشد شریف میری بات نہیں ٹالتا۔ ارشد شریف پہلی دفعہ مشکلات میں نہیں گھرا تھا۔ ماضی میں کئی دفعہ اُس پر مقدمے درج ہوئے‘ پولیس ہو یا ایف آئی اے‘ ہر جگہ مقدمے ہوتے رہے‘ لیکن ارشد شریف ایک بہادر انسان کی طرح اپنی جنگ لڑتا رہا۔ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے تو اُن کی حکومت نے بھی ایک خطرناک پرچہ ایف آئی اے میں درج کرایا۔اب کی دفعہ جب وہ خطرات میں گھرا تو مجھے اندازہ تھا کہ اب معاملات بہت مختلف ہیں۔ اب معاملہ ایف آئی اے یا پولیس کا نہیں تھا۔ اب میرے لیے بڑی مشکلات تھیں۔ مجھے ارشد شریف کا اندازہ تھا کہ اُسے اس وقت کسی خطرے سے ڈر نہیں لگ رہا۔ اس کو وہ جنگ اکیلے بھی لڑنا پڑتی تو وہ لڑنے کو تیار تھا۔ مجھے اس دن کا ڈر تھا جس دن ارشد شریف کو احساس ہونا تھا کہ اس کیساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ ارشد شریف کو یہی دکھ تھا کہ اگر ان لوگوں کو ہی لانا تھا تو پھر اتنے عرصے تک انہیں اور دیگر صحافیوں کو کیا کہانیاں سنائی گئیں۔ ارشد شریف سے میری یہی باتیں ہوتی رہتی تھیں کہ دھوکے کھانے کے بعد آپ نے سبق سیکھنا ہوتا ہے ‘بدلہ لینے نہیں نکل پڑنا ہوتا۔
میں ایک دیہاتی بیک گراونڈ کا انسان اس خوف کا شکار تھا کہ میرا دوست تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہا ہے اور دوست کو کنویں میں گرتے دیکھ کر اسے بچانے کی کوشش کرنی ہے۔ اسے دیگر نام نہاد دوستوں کی طرح کنویں کے اندر دھکا نہیں دینا۔ اسے ٹھنڈا کرنا ہے۔اس کی کونسلنگ کرنی ہے۔ اس کی جان بچانی ہے۔ میرا دوست جنید مہار گواہ ہے کہ میری ارشد شریف سے فون پر کیا گفتگو ہوئی جب وہ پہلی دفعہ انڈرگراؤنڈ گیا۔ایک بڑے بھائی اور دوست کے طور پر میرا رول بنتا تھا۔ میں خود دس سال کا تھا جب میرے والد کی وفات ہوئی۔ عمر بھر یتیمی کاٹی تھی۔ مجھ سے بہتر کون جان سکتا تھا کہ میری بیوہ ماں نے گائوں میں کیسے ہم پانچ چھ بہن بھائیوں کو ہمارے باپ کے بغیر اکیلے پالا پوسا۔ میرے اوپر ایک نفسیاتی دبائو تھا کہ کہیں ارشد شریف کے پانچ بچوں کو بھی اس صورتحال سے نہ گزرنا پڑے۔ جو قوتیں ارشد شریف کی دشمن ہو چکی تھیں میرا اُن پر بس نہیں چل سکتا تھا‘ میرا بس ارشد شریف پر ہی چلتا تھا ‘لہٰذا میں اُس کا مزاج جانتے ہوئے اُسے ہینڈل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرا خیال تھا One should live to fight for another day.یہی بات ارشد کو کہی کہ دو تین ماہ کی بات ہے‘ حالات بدل جائیں گے۔ کچھ دن ٹوئٹر سے دور رہو۔ دوست کی جان بچانے کی ان کوششوں کی وجہ سے ایک سیاسی پارٹی کے ہمدردوں نے میرے خلاف سوشل میڈیا پر آج تک مہم چلائی ہوئی ہے۔ مجھے گالیاں دی گئیں کہ ارشد شریف کو بزدلی کا سبق سکھا رہا تھا۔ مجھے علم تھا کہ کچھ سیاسی لوگوں کو ارشد شریف زندہ سے زیادہ مردہ درکار تھا۔ ان سیاسی قوتوں کو لگا کہ میں اُن کی کوششوں کو ناکام بنا رہا ہوں۔اگرچہ آخر پر وہ کامیاب اور میں ہی ناکام ہوا۔
ارشد شریف کے بغیر ایک سال جیسا گزرا ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ ایسا گہرا زخم جو کبھی نہیں بھرے گا۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کے قاتلوں کا کیا بنا؟ ارشد شریف کو انصاف کیوں نہیں ملا؟ مجھے کوئی شک نہیں کہ جن ظالموں نے ارشد شریف کے پانچ معصوم بچوں سے ان کا باپ چھینا وہ تسلی رکھیں‘ قدرت انصاف کرتی ہے۔ ایک دن انصاف ہوگا‘ ضرور ہوگا اور ایسا انصاف ہوگا جو ہم اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved