عالمی معیشت پچھلے چند برسوں سے مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔ کورونا کے بعد روس یوکرین جنگ اور اب اسرائیل فلسطین جنگ نے عالمی معاشی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے‘ اس بارے میں مختلف آرا موجود ہیں لیکن اسرائیل فلسطین جنگ کا مکمل ذمہ دار اسرائیل ہے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے جہاں دنیا کو معاشی چیلنجز سے دو چار کیا ہے وہاں خود اسرائیل کیلئے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کے اثرات یقینی طور پر اسرائیل پر بھی پڑیں گے۔ موڈیز نے حماس اسرائیل جنگ کے تناظر میں اسرائیل کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کرنے کیلئے جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ اس سے پہلے منگل کے روز فچ ریٹنگ نے بھی حماس اسرائیل جنگ کے تناظر میں اسرائیل کی کرنسی ریٹنگ کا نئے سرے سے جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسرائیل کے بڑے نجی بینکوں کے مطابق حماس کے ساتھ جنگ اسرائیل کو بہت مہنگی پڑے گی۔ حماس کے ساتھ اسرائیل کے جنگی اخراجات کا ابتدائی تخمینہ تقریباً 6ارب 80کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں ابھی جنگ کی مدت کا تعین کرنا مشکل ہے تاہم اندازہ ہے کہ جنگی صورتحال کے بعد اگلے برس اسرائیلی بجٹ کا خسارہ 1.5فیصد پر پہنچ سکتا ہے۔ اس میں اسرائیل کی جانب سے تین لاکھ ریزرو فوجیوں کو طلب کرنے پر ہونے والے اخراجات بھی شامل ہیں۔ ان افراد کو فوجی خدمات کیلئے اپنی کُل وقتی ملازمت بھی چھوڑنا پڑے گی جس کے بڑے معاشی نقصانات ہو سکتے ہیں۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل نے پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں ریزرو فوجیوں کو طلب کیا ہے۔ دوسری جانب عالمی مالیاتی فنڈ نے بھی اسرائیل فلسطین کشیدگی سے عالمی معیشت کا غیریقینی صورتحال کی طرف جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ممکنہ زمینی حملوں کے مشرقِ وسطیٰ میں پھیلنے کے خدشات پر ایشیائی مارکٹیں مندی کا شکار دکھائی دیتی ہیں اور تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں 1400اسرائیلیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کی غزہ پر بمباری کے بعد پیدا ہونیوالے حالات پر تاجر اور سرمایہ کار گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ غزہ پر ہونے والی مستقل بمباری سے اب تک تقریباً چار ہزار سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ ہسپتال پر ہونے والی بمباری سے حالات مزید کشیدہ ہوئے ہیں۔ ادھر ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملہ کیا تو وہ براہِ راست اس جنگ میں شریک ہو جائے گا جس سے اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ پورا مشرقِ وسطیٰ وسیع تر تنازعات کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے پھیلنے کے خدشات کے باعث تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ اس کے باوجود ایشیا میں تیل کی تجارت میں ایک فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ خام تیل میں رِسک پریمیم کا خطرہ ایک بار پھر بڑھ گیا ہے‘ جب تک حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ جاری رہے گی تب تک خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خطرہ برقرار رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی شرحِ سود کچھ عرصہ کے لیے بلند رہے گا کیونکہ فیڈز‘ افراطِ زر قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑ سکتا ہے۔ پاکستان بھی اس تنازع سے متاثر ہو سکتا ہے۔ گو کہ پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے لیکن اس کی بڑی وجہ ڈالر ریٹ میں کمی تھی۔ اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں اور پاکستان میں ڈالر کی قدر مزید کم نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس ہفتے ڈالر کی قدر میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی۔ پچھلے ہفتے کے اختتام پر ڈالر تقریباً 277.60روپے کا تھا جبکہ اس ہفتے کے اختتام پر 278.80 روپے کا رہا۔ آنے والا ہفتہ اہم ہے۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ میاں نواز شریف کی واپسی کے بعد ایکسچینج مارکیٹ کس طرح کا ردِعمل دیتی ہے۔ فی الحال کچھ اچھی خبریں بھی ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ستمبر میں گھٹ کر 80لاکھ ڈالر رہ گیا ہے جو اگست میں 16کروڑ 40لاکھ ڈالر ریکارڈ ہوا تھا۔ اگست کے چار ارب 28کروڑ ڈالر کے مقابلے میں ستمبر میں درآمدات تین ارب 99 کروڑ ڈالر رہیں جبکہ برآمدات معمولی اضافے کے بعد دو ارب 43کروڑ سے بڑھ کر دو ارب 47کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ ستمبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 36کروڑ ڈالر رہا۔ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس حکومتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہے‘ ستمبر میں اکنامک آؤٹ لُک رپورٹ میں وزارتِ خزانہ نے بتایا تھا کہ اگست اور ستمبر کے دوران سالانہ بنیادوں پر ترسیلاتِ زر میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ امریکا‘ برطانیہ‘ یورپ اور چین پاکستان کی اہم برآمدی منڈیاں ہیں۔ ماہانہ کمپوزٹ لیڈنگ انڈیکیٹر سے مثبت رجحان دیکھا گیا ہے جو آنے والے مہینوں میں برآمدات میں اضافے کیلئے ایک اشارہ ہو سکتا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایسے وقت میں کم ہوا ہے جب ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے جس کے نتیجے میں ستمبر میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اسی طرح افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت غیرقانونی تجارت کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ نگران وزیراعظم کے دورۂ چین کو بھی خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ چینی صدر کی پاکستان کے نگران وزیراعظم سے ملاقات اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ملاقات بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو فورم کے تیسرے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوئی جس میں تقریباً 140ممالک کے رہنماؤں اور مندوبین نے شرکت کی۔ پاکستان سی پیک کا اہم ترین حصہ ہے۔ سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے کا ایک اہم منصوبہ ہے جس میں پاکستان میں سڑکوں‘ ریل کی پٹریوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے 65ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا اور پاکستان نے سی پیک کے تحت 25ارب ڈالر کے 50سے زائد منصوبے مکمل کیے ہیں جو کہ ایک بڑی معاشی کامیابی ہے۔ اس دورے میں پاکستان اور چین کی جانب سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو مزید تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ 20معاہدوں اور مفاہمت ناموں پر دستخط ہوئے ہیں۔ معاہدوں اور یاد داشتوں میں بنیادی ڈھانچے‘ کان کنی‘ صنعت اور صحت کے شعبے‘ خلائی تعاون‘ ڈیجیٹل معیشت‘ ترقیاتی تعاون اور زرعی مصنوعات کی برآمدات شامل ہیں۔ گوادر پورٹ کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ عمومی طور کسی بھی نگران وزیراعظم یا عہدیدارسے نئے معاہدے طے نہیں کیے جاتے کیونکہ اس کا اگلے برسوں کی سٹرٹیجک پالیسیز سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ چین یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں آنے والی اگلی حکومت نے جو معاشی پالیسیز اختیار کرنی ہیں‘ نگران حکومت اس پر پہلے سے ہی عمل کر رہی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارا ہمسایہ ملک چین رائزنگ پاور ہے جسے ہماری اشد ضرورت ہے۔ اس وقت چین‘ سعودی عرب حتیٰ کہ امریکہ بھی پاکستان میں مزید معاشی بدحالی افورڈ نہیں کر سکتا۔ رائزنگ اکنامک سپر پاور چین پاکستان کو ریگولر اکانومی میں بدلنے میں مدد دے سکتا ہے اور اس حوالے سے وہ دعوے بھی کر چکا ہے۔ پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر لانا چین کی اپنی ضرورت ہے۔ پاکستان کو رول ماڈل بنا کر شاید وہ دنیا کو اپنے بی آر آئی منصوبے کی طرف راغب کرنا چاہتا ہے۔ خوش قسمتی سے قدرت نے رائزنگ سپر پاور کے کچھ مفادات پاکستان سے جوڑ دیے ہیں‘ ہمیں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیے۔ چین کے فنی‘ تکنیکی‘ تجارتی اور معاشی تجربات ہمیں ایک ایمرجنگ اکانومی بنا سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved