سوچنے کی ویسے کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اہلِ فکر کی اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔ جن کے پاس طاقت کے تمام ذرائع‘ جیسا کہ سیاست‘ حکومت‘ دولت اور دیگر مرئی اور غیر مرئی وسائل ہیں‘ وہ مفکر‘ فلسفی‘ دانشور اور اہلِ علم کے سب درجوں کے سرخیل ہیں۔ ہمیں تو کوئی حیرانی نہیں‘ نہ کوئی پریشانی کہ ہم بنتی بگڑتی سیاسی تاریخ کے تماش بین ہیں۔ دائروں کا سفر دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھر ا گئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی ڈرامے کا ایک ہی منظر برف کی طرح جم گیا ہے۔ سب کردار اپنی جگہوں پر پتھر ا گئے ہیں۔ اس کو مغربی‘ یورپی کلاسیکی موسیقی کے ہدایت کار اور سازندوں سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ وہ چھڑی کے خفیف اشاروں سے پورے آرکسٹرا کو چلاتے ہیں۔ رکنے کا اشارہ کریں تو ایسی خموشی طاری ہوجاتی ہے جیسے ہال میں کسی کا کوئی وجود نہیں۔ مزید اشارے پر کچھ ساز بند اور کچھ حرکت میں آجاتے ہیں۔ خیرہمارے سیاسی ڈرامے کی یاوا گوئی اور بیتھوون کی دھن نمبر پانچ میں کیا مماثلت ہوسکتی ہے۔ کوئی مثال بنتی ہی نہیں۔ چلو اس بہانے اگر موقع ملے تو یہ دھن کبھی تنہائی میں سن لیں تاکہ تخلیق اور فن کے کچھ راز آشکار ہوجائیں۔ سیاسی ڈرامہ بازیوں سے ہم یوں ہی جان چھڑاتے ہیں کہ بہت کچھ دیکھ چکے‘ اور بار بار وہی کردار‘ وہی چہرے مہرے‘ وہی گھسی پٹی باتیں‘ وہی درباری ہرکارے‘ وہی غلام گردشوں کے مناظر اور پھر وہی کٹھ پتلیاں جنہیں جھاڑ پھونک کر تیار کیا جاتا ہے۔ سب کو ملک بچانے‘ غربت مٹانے‘ روشنیاں جلانے‘ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے لایا جاتا ہے۔
ہماری اور ملک کی تقدیر ان رہنماؤں نے کیا بدلنی تھی کہ ان کے پیش نظر اپنی اور اپنے خانوادے کی فلاح رہی ہے۔ ان کرداروں کی دولت‘ عروج اور ہمارے ملک اور قوم کی بدحالی کے چرچے دنیا میں تقریباً نصف صدی سے چل رہے ہیں۔ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے کہ جنہیں دولت اور طاقت کا نشہ چڑھ جائے ان کی نظر میں علم‘ بصیرت اور تاریخ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ اس ملک میں بہت سے خواب فروش آئے‘ اکثر اوقات مسلط کیے گئے‘ کیسا دلکش عوامی ماحول ان کے لیے پیدا کیا گیا‘ لگے کہ دنیا میں ان جیسا مقبول لیڈر نہ کبھی پیدا ہوا‘ نہ ہوگا۔ مگر ان کی تباہیوں کے معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی اثرات ہر سُو پھیلے ہوئے ہیں۔ سب کچھ کرگزرنے کے بعد ملبہ ہمیشہ پہلے والوں پر ڈالا جاتا ہے۔ ان سے یا ان کے ساتھیوں سے ہم سچائی کی کیا امیدباندھ سکتے ہیں۔ کچھ آپ ہی فیصلہ کریں کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے لے کر آج کی قومی سیاست تک انہی روایتی سیاسی گھرانوں کا راج ہے۔ یہ نصف صدی سے کہیں زیادہ کی تاریخ ہے۔ اس سے آپ کو دائروں کے سفر کی بات سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔ کچھ تو تاریخی اور سماجی عمل سے ابھرے اور پاکستان سے بھی پہلے عوام اور سماج سے جڑے ہوئے تھے۔ اکثر تو گزشتہ چالیس برسوں کے اندرایسے تیار کیے گئے جیسے کسی کارخانے میں مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ یہ کارخانے کی بات میں کیا کر بیٹھا۔ بہرحال سیاست ہماری ایسی رہی ہے جہاں بت تراشنا‘ اس میں طاقت بھرکر کھڑا کرنا۔ ہماری سیاسی کہانی کچھ اتنی سادہ بھی نہیں‘ کافی پیچیدہ ہے مگر مرض کا علاج ایک ہی دوا سے بار بار کیا جائے تو سیانے حکیم کہتے ہیں کہ وہ اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے۔ کاریگر قسم کے معالجوں کودوا کو مختلف رنگوں اور سائزوں کی پڑیوں میں بند کرکے مریضوں کو دیتے دیکھا ہے کہ انہیں یقین آجائے کہ طبی سائنس نے بے شمار تجربوں‘ تحقیقات اور سرمایہ کاری کے بعد عوام کی فلاح کے لیے متعارف کرائی ہے۔ کسی زمانے میں جونہی گرم موسم خنکی مائل ہوتا تو مجمع باز حکیم بازاروں اور چوراہوں میں کپڑے بچھا کر دنیا کے ہر مرض کے علاج کے لیے دس پندرہ رنگ برنگی شیشیاں رکھ دیتے۔ کمال دوائی کا نہیں اس مجمع باز کا ہوتا تھا کہ چھوٹی بوتلیں تو اپنی جگہ پر رہتیں‘ بغل میں بیٹھا بچہ جمورا گدڑی سے نکال کر فرمائش کرنے والوں کو دیتا رہتا۔ آپ کہیں غلط نہ سمجھ بیٹھیں۔ اس مجمع بازی کا ہماری سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ بس یونہی گزرے ہوئے زمانوں کے لوگوں کی فنکاریاں ہمارے ذہن میں آجاتی ہیں تو ذکر کردیتے ہیں۔ بات کرنے کی مہارت‘ اداکاری‘ لفظوں کا چنائو اور کچھ عوامی امراض کا انتخاب وہ ایسے کرتے کہ دیکھنے اور سننے والوں کی نظر میں دنیا میں ان سے بڑا حکیم اور معالج نہ کبھی پیدا ہوا‘ نہ ہوگا۔
مجمع بازوں کے مقابلے میں ہمارے سیاستدانوں کے پاس زبان و کلام میں کوئی جدت پیدا نہیں ہوسکی۔ وہی گھسی پٹی باتیں‘ دقیانوسی جملے اور پرانی کار کردگی کے الف لیلوی قصے جنہیں سُن کر اب بے وقوف کیا‘ احمق بھی یقین نہیں کرتے۔ مغالطوں اور غلط فہمیوں کی دنیا میں کوئی اہلِ طاقت و سیاست گھِر جائے تو بس یوں سمجھیں کہ کبھی نہیں نکل سکے گا۔
ہفتے کے روز ہم نے ایک خصوصی طیارے کی اُڑان دبئی سے شروع ہوکر پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے اور پھر اسلام آباد میں اترتے دیکھی۔ اس کے بعد طیارہ لاہور پہنچا جہاں ائیر پورٹ سے ایک ہیلی کاپٹر جلسہ گاہ کی جانب ر وانہ ہوا۔ کیا مناظر تھے۔ کیا ہنر مندی تھی اور کیا پاکستان کو پھر وہیں سے شروع کرنے کا انتظار تھا جہاں میاں نواز شریف چار سال پہلے چھوڑ گئے تھے۔ ملک کا مقدرپھر سے بدلنے کی باتیں سنیں۔ نونکاتی پروگرام کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا۔ وہاں موجود عوام کے جوش و جذبے سے زیادہ میڈیا پر ان کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ ان کے لچھے دار تبصرے سن کر یقین آگیا کہ میاں صاحب اور ان کے ہم نوا بالکل وہی ہیں جو تھے‘ اورانہیں ایک بار پھر سے گدی نشینی کے اشارے مل چکے ہیں۔ مغالطہ البتہ یہ ہے کہ میاں صاحب تجربہ کار‘ جوڑ توڑ کے بادشاہ اور سیاسی خاندانوں کو اپنی طرف کھینچ لانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور انہیں اگر ایسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا چوتھا موقع فراہم کیا جائے تو زیر عتاب سیاسی رہنما اور اس کی جماعت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہی بصیرت ہے‘ یہی علم سیاست ہے‘ یہی فکرِ قوم و ریاست ہے تو پھر آپ کا اور ہمارا خدا حافظ‘ اور وہی تو ہے جس کے ہر عذاب سے ہم پناہ مانگتے ہیں۔
ذرا سیاست بازی کی گاڑی کو بریک لگائیں‘ عوام کی طرف بھی دیکھ لیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اور اس کا آئینی طریقہ بھی موجود ہے۔ بہت ہوچکا دائروں کا سفر۔ قومیں اور ملک آگے نکل گئے۔ ہمارے اکابرین انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔ راستہ سب کے لیے ہموار ہو‘ سب کو موقع ملے اور عوام کو چنائو کا ہر موقع ملتا رہے تو پھر مجمع بازی خودبخود دم توڑ دیتی ہے۔ وہی رہ جاتے ہیں جن کا تعلق عوام سے ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved