حماس اور اسرائیل کی تازہ ترین جنگ ماضی میں اس طرح کے تنازعات کے مقابلے میں زیادہ تشدد کا سبب بنی ہے۔حماس کا ابتدائی حملہ ایک بڑا سرپرائز تھا اور اس نے اسرائیل کو شدید نقصان پہنچایا‘ جبکہ اسرائیلی ردعمل انتہائی وحشیانہ تھا‘ جس میں بجلی‘ پانی اور ایندھن کی تنصیبات کے ساتھ ساتھ غزہ کے علاقے میں ہسپتالوں‘ گرجا گھروں اور مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ مغربی کنارے کے علاقے میں فلسطینی جب حماس کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے اور اسرائیل کی پرتشدد پالیسیوں پر تنقید کی تو اسرائیلی فورسز نے ان کے خلاف بھی کارروائیاں کیں۔ یہ فلسطینیوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کیلئے مسلسل طاقت کے استعمال کے بارے میں اسرائیل کے روایتی نقطہ نظر کا مظہر تھا۔ اسرائیل کی اس پالیسی کو تازہ ترین جنگ میں دہرایا جا رہا ہے۔ مغربی طاقتیں اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ اُسی وقت کریں گی جب وہ اس بات پر قائل ہوں گے کہ اسرائیل نے غزہ کے علاقے میں فلسطینیوں کو کافی انسانی اور مادی نقصان پہنچالیا ہے۔ اگر ہم فلسطینی مسئلے کے منصفانہ حل پر کام کرنا چاہتے ہیں تو اس جنگ نے سفارت کاری میں کچھ حقائق کی نشاندہی کی ہے جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تازہ ترین حماس اسرائیل جنگ کے دوران دو قسم کی سفارت کاریوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ سب سے پہلے‘ معروف مغربی ممالک کی طرف سے سفارت کاری۔ دوسرا‘ مسلمان‘ خاص طور پر عرب ممالک کی طرف سے کی جانے والی سفارتکاری۔
امریکہ‘ انگلینڈ‘ فرانس‘ اور جرمنی اسرائیل کی سلامتی کی مکمل حمایت کے ساتھ اسرائیل کی حمایتی پالیسی پر عمل کرنے میں واضح اور مکمل طور پر واضح ہیں۔ کئی اعلیٰ امریکی عہدیداروں اور امریکی صدر نے اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کو واضح کرنے کے لیے اسرائیل کا دورہ بھی کیا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم اور ایک اعلیٰ جرمن عہدیدار نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ ان اور دیگر مغربی ممالک کو اسرائیل کی حمایت اور حماس کی مذمت کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم نے حماس کو کارروائیاں روکنے پر قائل کرنے کیلئے کچھ عرب ریاستوں کا بھی دورہ کیا۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پہلی دو قراردادوں کو ویٹو کر دیا۔ جنگ بندی کی قرارداد کی اس طرح کی مخالفت اس وقت تک جاری رہنے کی توقع ہے جب تک کہ ممالک اس بات پر قائل نہ ہو جائیں کہ حماس کو کافی سزا دی گئی ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو مزید ہتھیار فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
جب ہم مسلمان‘ خاص طور پر عرب ریاستوں کی جنگی سفارت کاری کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شاید ہی ان کی طرف سے کوئی پرعزم اور واضح نقطہ نظر ملتا ہے۔ کسی بھی عرب ریاست نے حماس کی حمایت نہیں کی جس کا موازنہ اسرائیل کی مغربی حمایت سے کیا جا سکے۔ عرب ریاستوں کا ردعمل کمزور اور خاموش رہا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے 18 اکتوبر کو جدہ میں ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا۔ مندوبین نے بیانات دیئے اور جنگ بندی اور ایک آزاد خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور کی‘ تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ تیل سے مالا مال عرب ریاستوں نے غزہ میں جان و مال کے تحفظ کیلئے کچھ سفارتی اقدامات کیے ہیں۔
عرب ممالک فلسطینی کاز کی حمایت کرتے ہیں اور وہ فلسطین اسرائیل مسئلے کو حل کرنے کیلئے دو ریاستی فارمولے کے حق میں ہیں‘ تاہم زیادہ تر عرب ریاستیں حماس کی حمایت سے گریز کرتی ہیں۔ اسی طرح جنوبی لبنان میں مقیم حزب اللہ کیلئے عوامی حمایت سے بھی گریز کرتی ہے کیونکہ یہ تنظیم فلسطین کی آزادی کیلئے مسلح مزاحمت کے جواز کو بھی برقرار رکھتی ہے۔ عرب ریاستیں نہیں چاہتیں کہ حماس مضبوط ہو اور انہیں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر دیکھا جائے۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر یہ دونوں تحریکیں مضبوط اور پرزور ہو جاتی ہیں تو یہ عرب دنیا میں بنیاد پرست قوتوں کو مضبوط کریں گی جو قدامت پسند‘ امریکہ نواز بادشاہت پسند حکومتوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ اس کے بجائے‘ وہ الفتح/پی ایل او کی طرف زیادہ مائل ہیں جو مغربی کنارے کے علاقے کو کنٹرول کرتا ہے‘ لیکن یہ سیاسی ذرائع سے فلسطینی ایجنڈے کی پیروی کرتا ہے۔ اس نے بہت پہلے ہی اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کی پالیسی ترک کردی تھی حالانکہ اس نے اسرائیل کو فلسطینی سرزمین اور فلسطینیوں کے حقوق پر قبضہ کرنے والے کے طور پر بیان کیا ہے۔ عرب ممالک مغربی کنارے کے علاقے میں الفتح/پی ایل او اتھارٹی کے ساتھ مطمئن ہیں۔ غزہ میں حماس اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تقسیم فلسطینی مقصد کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔
بہت سے عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لے آئے ہیں اور کچھ اسرائیل کے ساتھ باقاعدگی سے سفارتی تعامل کو فروغ دینے کے عمل میں ہیں۔ یہ ان ممالک کو حماس کی حمایت میں کھل کر سامنے آنے سے بھی روکتا ہے ۔ مزید برآں‘ یہ عرب ممالک مغربی ممالک‘ خاص طور پر امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں‘تاہم یہ ریاستیں مغربی ممالک کے ساتھ فلسطینی حقوق کا مسئلہ بھی اٹھاتی ہیں اور جب مغربی ممالک فلسطینیوں کیلئے ان کی درخواستوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو وہ فلسطینیوں کے حقوق کے مطالبے پر اصرار کرنے کے بجائے خاموش رہتے ہیں۔
1977-78 ء میں مصر کے صدر انور سادات اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لے آئے اور اسرائیل کو علاقائی امن میں شراکت دار کے طور پر قبول کیا۔ اسرائیل کے ساتھ مصر کے تعلقات معمول پر آنے پر ابتدائی عرب ردعمل منفی تھا اور ان عرب ریاستوں نے مصر کا بائیکاٹ کیا‘ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ مصر عرب سفارتی حلقے میں واپس آگیا اور 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں کئی دیگر عرب ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔ 2020ء میں‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین اور سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی بات چیت کا آغاز کیا۔ اگرچہ سعودی عرب نے فلسطین کے مسئلے کے حل کیلئے دونوں ریاستوں کے تصور کی حمایت کی لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست سفارتی بات چیت قائم کرنے کے آپشن کی تلاش شروع کردی‘ تاہم غزہ میں تازہ ترین اسرائیلی فوجی کارروائی کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ اپنی بات چیت معطل کردی۔ موجودہ جنگ کا ایک اہم نتیجہ تمام عرب ریاستوں کی سڑکوں پر فلسطینیوں اور حماس کی وسیع پیمانے پر حمایت اور عرب حکومتوں کی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کے درمیان تضاد ہے۔ اب عرب سڑکوں پر حماس کے حامی ردعمل کے ساتھ حکومتوں کو اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔
عرب ریاستوں کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے بڑے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے اور مغربی ممالک کو اسرائیل کو ہر طرح کی زمینی اور فضائی کارروائیوں سے روکنا چاہیے۔ حماس بھی اپنی فوجی کارروائیوں کو روک دے گی۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ریڈ کراس کو غزہ میں بنیادی انسانی خدمات فراہم کرنی چاہئیں۔ اسرائیل کو غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنی چاہیے۔ مصر کو غزہ کے ساتھ اپنی علاقائی سرحد کو سامان‘ خدمات اور لوگوں کی نقل و حرکت کیلئے کھلا رکھنا چاہئے۔ بعد میں‘ بڑی طاقتوں کو دو ریاستی فارمولے کو نافذ کرکے فلسطینی مسئلے کا طویل مدتی حل تیار کرنا چاہئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved