قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ ''میں قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘‘ اور سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ خدمت کا میرا طریقہ کیا ہے اور اس میں تبدیلی بھی نہیں لائی جا سکتی کیونکہ اور کوئی طریقہ آتا بھی نہیں اور مستقل مزاجی کا تقاضا ہے کہ اسی طریقے سے خدمت کرتا رہوں اور یہ بھی خدمت کا تقاضا ہے کہ خود کو بھی اس خدمت میں شامل رکھوں تاکہ زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکوں کہ ایک نحیف آدمی ملک کی کیا خدمت کر سکتا ہے، خدمتگار جتنا زیادہ تنومند اور طاقتور ہوگا، اتنے ہی جوش و خروش سے خدمت کر سکے گا جبکہ قوم مجھے صحیح معنوں میں طاقتور دیکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ خود کو بھی طاقتور محسوس کر سکے۔ آپ اگلے روز مینارِ پاکستان لاہور پر ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
کوئی بھی لمبے عرصے تک کسی محب وطن کو واپس
آنے سے نہیں روک سکتا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کوئی بھی لمبے عرصے تک کسی محب وطن کو واپس آنے سے نہیں روک سکتا‘‘ اور حب الوطنی کی انتہا یہ ہے کہ وہ محب وطن خود ہی پاکستان واپس آنا نہ چاہتا ہو اور بیرونِ ملک ہی سے اپنے ملک کی خدمت سرانجام دینا چاہتا ہو؛ اگرچہ عدالت بھی اس کا شدت سے انتظار کر رہی ہو جس سے وہ چند ہفتوں میں واپسی کا وعدہ کر کے اور ضمانت دے کر گیا ہو، حب الوطنی کا اس سے بڑا ثبوت اورکیا ہو سکتا ہے؟ دعا ہے کہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ حب الوطنی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔ آپ اگلے روز طوفان الاقصی جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کا پاکستان آ کر باہر
جانے کا پروگرام نہیں: اسحق ڈار
سینئر مسلم لیگی رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کا پاکستان آ کر باہر جانے کا پروگرام نہیں‘‘ کیونکہ وہ صرف خدمت کے لیے آئے ہیں اور جب تک وہ اس خدمت کا کام پورا نہیں کر لیتے وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں جبکہ پاکستان سے باہر جانے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ حکومت سے ان کی چھٹی کرا دی جائے اس لیے جب تک یہ دونوں شرطیں پوری نہیں ہوتیں، ان کے باہر جانے کا زیادہ امکان نہیں ہے، ورنہ باہر جانے کے لیے پہلی شرط کا پورا ہونا ہی کافی ہے اور اگر پہلی شرط پوری ہونے سے پہلے ہی دوسری شرط پر عملدرآمد کر دیا گیا تو ایک طرح سے واپس آنے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز ایک بیان جاری کرنے کے علاوہ ایک ٹی وی شو میں گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف نے جیلیں کاٹیں، صبر کا
دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا: شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے جیلیں کاٹیں، صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا‘‘ اور وہ اپنے کیسز کا فیصلہ آنے کے بعد جیل ہی کاٹ رہے تھے جب صبر کرنے کے لیے لندن چلے گئے تھے اور چار سال تک وہاں مسلسل صبر کرتے رہے اور یہ ایک ریکارڈ ہے کیونکہ اتنا طویل صبر آج تک کسی نے نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی آئندہ کرے گا جس سے ان کا جیل کاٹنا بھی ثابت ہوتا ہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا بھی ؎
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کند
اور یہ دونوں خوبیاں کسی کسی ہی میں پائی جاتی ہیں، ماشاء اللہ! آپ اگلے روز لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام نواز شریف کو وزیراعظم
دیکھنا چاہتے ہیں: امیر مقام
مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا کے صدر اور سابق وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام نے کہا ہے کہ ''عوام نواز شریف کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ اور اس حوصلے پر قوم کو داد دینے کو جی چاہتا ہے اور تاریخ میں بلند حوصلہ قومیں ہی زندہ رہتی ہیں اس لیے یہ قوم ہمیشہ زندہ رہے گی کیونکہ اس کی قوتِ برداشت حد سے زیادہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک جفا کش قوم ہے جو ہر طرح کی سختی کا نہ صرف مقابلہ کر سکتی ہے بلکہ اسے بار بار برداشت کرنے کی مرادنگی کا بھی مظاہرہ کر سکتی ہے اور میں حیرت و استعجاب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جس نے اتنی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور جلسے میں شرکت کے لیے جانے والے قافلوں کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑا سے امتیاز انجم کی شاعری:
جتنا مرے قریب تھا اتنا ہوا ہے دور
آیا نہیں خیال بھی ایسا ہوا ہے دور
مرنے کے بعد دور تو ہونا ہے ایک بات
مرتا ہوں اس لیے کہ وہ زندہ ہوا ہے دور
تجھ کو بتاؤں ہجر کے معنی میں کس طرح
تیرا کوئی عزیز یا اپنا ہوا ہے دور
غم ہے کہ ایک یار تھا وہ بھی نہیں رہا
خوش ہوں کہ روز روز کا جھگڑا ہوا ہے دور
یاروں سے یار ملتے ہیں شام و سحر مگر
اپنا عجب نصیب ہے‘ چاہا ہوا ہے دور
٭......٭......٭
زمیں بدلتا ہوا آسماں بدلتا ہوا
میں خود بدل گیا کون و مکاں بدلتا ہوا
درونِ خیمۂ دل ہے سماں بدلتا ہوا
کوئی ہو رات کو جیسے مکاں بدلتا ہوا
تری کنیز‘ تری رازداں بدلتی ہوئی
مرا امیر‘ مرا مہرباں بدلتا ہوا
تری گلی سے نکلنے کا استعارہ ہے
مرا ستارہ سرِ آسماں بدلتا ہوا
کوئی سپاہی بے تیغ و تبر سرِ میداں
کوئی سپاہی مچان و کماں بدلتا ہوا
جنابِ پیر! جسے تُو نے آگہی بخشی
وہی مرید ہے کیوں آستاں بدلتا ہوا
حسین لڑکیاں کیسے بھلا سکوں گا میں
پہنچ تو جاؤں گا گھر گاڑیاں بدلتا ہوا
آج کا مطلع
اسے منظور نہیں چھوڑ جھگڑتا کیا ہے
دل ہی کم مایہ ہے اپنا تو اکڑتا کیا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved