''کتنے آدمی تھے؟‘‘۔ ویسے تو یہ بالی وُڈ کی مشہور فلم ''شعلے‘‘ کا ایک ڈائیلاگ ہے لیکن پاکستان کی سیاست میں یہ فقرہ گزشتہ کئی دہائیوں سے خاصی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اب کسی بھی سیاسی جلسے کے بعد لوگ یہ نہیں پوچھتے کہ مقرر نے کیا کہا، بلکہ سب سے پہلا سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ ''کتنے آدمی تھے؟‘‘۔ میاں نواز شریف کی چار سال بعد وطن واپسی کے بعد لاہور میں مسلم لیگ نواز کا استقبالی جلسہ کیسا تھے، اس میں کتنے لوگ شریک تھے، لوگوں کا جوش اور جذبہ کیسا تھا، کس نے کیا کہا، کس قسم کے انتظامات تھے، ان پوائنٹس پر ہفتے کے روز سے ہی اپنی اپنی بساط اور مزاج کے مطابق ملک کے ہر لکھاری کا ذہن اور قلم رواں ہو چکا ہے۔ آج بہت سے اخبارات ا ور چینلز نے سرکاری اور انتظامی اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے شرکا کی تعداد بھی بتا دی ہے اور سیاسی بیان بازی بھی جاری ہے مگر نہ تو کسی کا ہاتھ پکڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے بولنے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، کیونکہ ہر ایک نے اپنی چادر دیکھ کر ہی پائوں پھیلانا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جلسہ عام کے شرکا کی تعداد ایک لاکھ تھی یا کوئی اگر یہ کہہ دے کہ نہ صرف پورا پنجاب بلکہ پورا پاکستان اس جلسے میں امڈ آیا تھا، شیخوپورہ سے لاہور اور مریدکے سے شاہدرہ تک‘ دوسری طرف مانگا منڈی سے چوبرجی تک اور کاہنہ سے بھاٹی دوازے تک لوگ ہی لوگ تھے تو وہ درست ہی کہتے ہوں گے۔ اگر وہ اپنی اس بات پر بضد ہوں کہ جلسے میں کم از کم پانچ لاکھ بلکہ دس لاکھ لوگ تھے تو ان کی اس ڈائری کو بھی تسلیم کر لیجئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ درست ہی کہہ رہے ہوں۔ اسی طرح اگر کوئی یہ منوانے پر بضد ہو کہ جلسہ گاہ میں الو بول رہے تھے، چہار جانب ہُو کا عالم تھا تو اس سے بھی بحث نہ کیجیے کہ اب یہی ہماری سیاست کا وتیرہ بن چکا ہے کہ جنہوں نے حمایت کرنی ہے‘ انہوں نے ہر چیز سے ماورا ہو کر صرف حمایت کرنی ہے اور جنہوں نے مخالفت کرنی ہے‘ انہوں نے تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر صرف مخالفت کرنی ہے۔
شاہدرہ کے ایک بازار میں چند ہفتے قبل مریم نواز صاحبہ کے جلسے کے بعد کچھ چینلز اور وی لاگرز وہاں موجود کچھ لوگوں سے جب جلسہ کے حاضرین کی تعداد بارے پوچھا تو اس وقت بھی لوگوں نے اپنی اپنی پسند کے مطابق کے جواب دیے تھے۔ پچاس سال سے اوپر ایک شخص کی وہ وِڈیو اس وقت بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جو قسمیں کھا کھا کر بتا رہا تھا کہ مسلم لیگ کے شاہدرہ جلسے میں اس وقت دو لاکھ لوگ موجود ہیں، یہ وائرل وڈیو آج بھی نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے، اب یہ اس شخص اپنی پارٹی یا اپنے سیاسی لیڈر سے اس قدر محبت رکھتا ہے کہ اس کی آنکھیں ایک چھوٹے سے بازار میں دو لاکھ کا مجمع دیکھ رہی ہیں تو اس میں انہونی کیا ہے، اس لیے ہر کسی کی بات سننی چاہئے، ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سوچ وفکر، محبت و عقیدت اور بساط و حیثیت کے مطابق اپنے جذبات کا اظہار کر رہا ہو۔ اس لیے اگر کوئی مجھ سے یہ امید رکھے کہ میں یہ بتائوں گا کہ مینارِ پاکستان کے جلسے میں شریک حاضرین کی تعداد کتنی تھی تو اس سلسلے میں مجھے معاف ہی رکھیے۔ میں بس اتنا کہوں گا کہ میزبان جماعت اگر کہتی ہے کہ پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ تھے تو درست ہی کہتی ہو گی کیونکہ جو معلومات اس کے پاس ہیں ہم جیسے کم علموں کے پاس کہاں پہنچ سکتی ہیں۔ ہمارے جیسے لوگ جو کار‘ سرکار کے قریب سے گزرنے پر ہی کانپنا شروع ہو جاتے ہیں‘ انہیں کیا علم کے کتنے لوگ لائے گئے تھے؟
کہتے ہیں کہ گھر کے لوگوں کو ہی صحیح پتا ہوتا ہے کہ کتنے مہمان آئے تھے یا کتنے مہمانوں کیلئے کھانے کا بندوبست کیا جائے گا۔ اس لیے کچھ لوگ جلسہ کے مالکان کو خوش کرنے کیلئے بڑھا چڑھا کر بتائیں گے کہ اس قدر لوگ تھے کہ لگتا تھا سارا آزاد کشمیر اور سارا جنوبی و وسطی پنجاب بھی لاہور پہنچ گیا۔ کچھ لوگ‘ جنہیں مذکورہ جماعت سے خدا واسطے کا بیر ہے‘ وہ کہیں گے کہ آنے والے شرکا کیلئے بارہ بارہ کلو کی پانچ سو دیگیں بریانی کی پکائی گئی تھیں، جن میں سے ڈیڑھ سو اسی طرح پڑی رہ گئیں اور ان کو کھولنے کی نوبت ہی نہیں آئی، اسی سے اندازہ کر لیجئے کہ کتنے لوگ مینار پاکستان پہنچے ہوں گے۔ جلسہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو یا جلسے کے شرکا کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو، اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کیوں اور کس لیے پاکستان بلائے گئے ہیں۔ انہیں کس نے نے لندن سے سعودی عرب، وہاں سے دبئی، دبئی سے اسلام آباد اور پھر لاہور ایئر پورٹ پر شاہی پروٹو کول دیتے ہوئے ریسو کیا۔ لاہور ایئر پورٹ سے کسی شہنشاہِ وقت کی طرح انہیں مغل شہنشاہوں کے تعمیر کردہ شاہی قلعہ لاہور میں اتارا گیا اور وہاں سے پوری پنجاب انتظامیہ اور سرکاری اداروں نے جس طرح ان کا استقبال کرتے ہوئے انہیں مینار پاکستان کی جلسہ گاہ کے سٹیج تک پہنچایا‘ اصل میں دیکھنے والی بات تو یہ ہے۔ اگر کوئی ہمارے جیسے کم فہم سے پوچھے تو وہ یہی کہے گا کہ میاں نواز شریف کے مینار پاکستان جلسے جیسے پچاس مزید جلسے ایک طرف‘ اور ان کو ملنے والا شاہی پروٹوکول ایک طرف۔ اگر کسی نے جلسوں کا موازنہ کرنا ہے، اس کی طاقت اور پذیرائی دیکھنی ہے تو محض شرکا کی تعداد پر نہ جائیں بلکہ اس استقبال کو دیکھئے، ان انتظامات کو دیکھئے جو بتا رہے تھے کہ ''کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘‘ ۔ اس مصرع کی اگر مزید تشریح درکار ہو تو پنجاب کے انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ان اہلکاروں سے پوچھئے کہ جو گزشتہ ایک ماہ سے اپنے مہمان کا استقبال کرنے کی تیاریوں میں اپنے گھر بار کو ہی بھول چکے تھے۔
اس جلسے کی گونج اتوار کے روز بھی برابر سنائی دیتی رہی۔ صبح صبح خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ کچھ سرکاری لوگوں نے ناشتے کی میز پر نواز شریف صاحب کو دس لاکھ افراد کی خبر دی، جن کی تائید میز پر بیٹھے سینئر لیگی رہنمائوں نے سر ہلا کر کی۔ ان کی بات کو بھی سچ سمجھئے کیونکہ بحث یا انکار کرنے کی جرأت نری حماقت ہو گی۔ سچائی تو ایسی چیز ہے کہ اگر سمندر کی تہہ میں بھی پڑی ہوئی، انتہائی سیاہ اور گہرے بادلوں یا دبیز دھند سے وقتی طور پر چھپ گئی ہو، تب بھی ایک دن نکھر کر اور اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ اندھیرا خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو‘ رات کتنی ہی کالی اور خوفناک کیوں نہ ہو جائے‘ بادل کتنے ہی گہرے اور سیاہ کیوں نہ ہوں‘ ایک دن یہ مطلع چھٹ کر رہتا ہے اور قدرت کا رات‘ دن کا نظام سورج کی کرنیں اچھالتے ہوئے ایک اچھی اور مہربان صبح کا پیغام دیتا ہے۔ چاند‘ سورج، رات دن اور اچھے برے حالات کی یہ منزلیں رب کریم‘ قادر مطلق نے طے کر رکھی ہیں لہٰذا ان میں بال سے بھی باریک فرق نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس لیے کوئی خواہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو‘ اس نظامِ کائنات کے طے کردہ اصولوں سے وہ باہر نہیں نکل سکتا۔
لاہور کے جلسے بارے اگر مجھے کچھ افسوس ہے تو صرف اپنے آبائی ضلع قصور کے حوالے سے کیونکہ وہاں کی مسلم لیگی قیادت نے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی تھی کہ پورے پنجاب سے سب سے زیادہ شرکا قصور سے ہوں گے اور اس کا نظارہ کرنے کیلئے میڈیا کی کچھ ٹیموں کے ہمراہ ہم بھی نجانے کتنی دیر تک فیروز پور روڈ پر کھڑے اس عظیم الشان قافلے کا انتظار کرتے رہے جس کے دعوے کیے جا رہے تھے کہ صرف قصور سے ساٹھ ہزار لوگ میاں نواز شریف کے جلسے میں شرکت کرنے کیلئے پہنچیں گے۔ ہمیں اپنے آبائی ضلع کی عزت سب سے پیاری تھی‘ خاص طور پر اپنے حلقہ انتخاب کے سر پر سجنے والے تاج کو دیکھنے کا شوق تھا جو دھرے کا دھرا رہ گیا؛ یعنی ''دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشا نہ ہوا‘‘۔ ہمارے استاد گوگا دانشور کا انگلیوں پر حساب کتاب کرنے کے بعد یہ کہنا تھا کہ اگر ایک کوچ میں چالیس لوگ بٹھائے جائیں تو ساٹھ ہزار لوگوں کیلئے کم از کم 1400 بڑی بسوں یا کوچز کی ضرورت ہو گی جبکہ چودہ سو بسیں تو پورے ملک سے بھی لاہور میں داخل نہیں ہوئیں۔ اب اگر گاڑیوں کا حساب لگائیں تو ایک کار میں اوسطاً چار افراد ہوں تو اس کیلئے پندرہ ہزار گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تعداد تو ہمیں پورے شہر میں بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملی جس کی تصدیق لاہور کی ٹریفک پولیس نے بھی کر دی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved