تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-10-2023

سیاسی درجہ حرارت

ملک کی اندورنی فضا میں سیاسی درجہ حرارت‘ جو کل تک آسمان تک پہنچا ہوا تھا‘ اب یکدم زمین کی تہوں کو چھونے لگا ہے، لیکن وہ جو سینوں کے اندر اور ذہنوں میں پل رہا ہے اس سے اگر بیگانگی اختیار کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ صرف اور صرف حماقت ہو گی۔ ایک طرف حکومت ترسیلاتِ زر میں مسلسل کمی سے پریشان ہے مگر دوسری طرف اوور سیز سے بات کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ ہماری اوور سیز پاکستانیوں سے جب بھی بات چیت ہوئی، ان کے ساتھ سوشل میڈیا یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے رابطے ہوا تو اندازہ ہو گیا کہ نفرت اور غصہ اس وقت کس سطح تک پہنچ چکا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ حکومت ان کو کسی کھاتے میں ہی نہیں رکھتی۔ دوسری طرف یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ چھوٹے چھوٹے ایشوز پر ایسے اقدامات کیوں کیے جا رہے ہیں جن سے عوامی سطح پر غصے اور اشتعال میں مزید اضافہ ہو۔ کہیں پُرامن اساتذہ پر ڈنڈے برسائے جا رہے ہیں، انہیں جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے، کہیں سیاسی ریلیوں اور اجتماعات پر دھاوا بولا جا رہا ہے اور کہیں فلسطین کے حق میں نعرے بازی اور ریلی نکالنے پر گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ 'لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کی حقیقت تو سامنے آ ہی چکی، دوسری طرف میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد آج کل اپنی نجی محفلوں میں برملا ایسے دعوے کر رہے ہیں جو کسی جمہوریت پسند کو زیب نہیں دیتے۔ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ سیاسی مہارت، انتظامی بالادستی اور لامحدود اختیارات سے بیک وقت تین سے چار من پسندوں کے لیے انجینئرنگ مکمل کی جا چکی ہے اور اگلی ایک دہائی تک کے لیے بڑے سیاسی گھرانوں اور چند خاندانوں کے نامزد افراد کی پیشانی پر قسمت کی روشن مہریں ثبت کی جا چکی ہیں۔ رہا کانٹا تو اگلے تیس‘ چالیس دنوں کے اندر وہ بھی نکال کر اس طرح پھینک دیا جائے گا کہ کوئی نام لیوا بھی نظر نہ آئے گا۔ہمارے ملکی سیاسی منظرنامے میں اس طرح کی تبدیلیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جب سے آئین و قانون کے تکلفات سے آزاد ہوئے ہیں‘ یہ سلسلہ مزید دراز ہو گیا ہے۔ کبھی کبھی اس قسم کے انتظامات سے سنبھالا بھی مل جاتا ہے اور خدا کرے کہ اس مرتبہ کیا جانے والا تجربہ دامن وطن کو مزید کشادہ کرنے کا سبب بنے‘ جس کی ہم سب تمنا کیے ہوئے ہیں۔ لیکن اکثر اس قسم کے تجربات کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔ ہماری قومی تاریخ مختلف قسم کے سیاسی تجربات اور ان کی قیمت کے حوالے سے ایک زرخیز سرمائے کی حامل ہے۔
آج کل پیپلز پارٹی کے کیمپوں میں کچھ اداسی چھائی ہوئی نظر آتی ہے لیکن ان کی خاموشی بتا رہی ہے کہ یہ سب کچھ وقتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب آصف علی زرداری کریز پر موجود ہوں تو ان کی بیٹنگ کی باری کا سب کو انتظار رہتا ہے، اگر وہ بائولنگ کی طرف آتے ہیں تو ان کے بازوئوں کی حرکت شین وارن، ثقلین مشتاق اور مرلی دھرن جیسے جادوئی بائولرز کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اب جو میراث تقسیم ہو رہی ہے تو اس میں ان کا حصہ ان کے موافق نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما کبھی ڈھکے چھپے اور دبے دبے اور کبھی کھلے کھلے انداز میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بیان خاصا دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی جانب سے مسلسل تنقید پر سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی ہم پر 'میچ فکس‘ کا الزام لگا رہی ہے، یہ سولہ ماہ ہمارے ساتھ حکومت میں رہے ہیں، کیا اس وقت ان کو میچ فکس ہونے کا نہیں پتا تھا؟ اسی طرح ایک ٹی وی شو میں مسلم لیگ نواز کے مصدق ملک اور پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان آپس میں الجھ پڑے۔ پلوشہ خان نے جب شہباز حکومت کی سولہ ماہی کارکردگی کو نشانہ تنقید بنایا تو مصدق ملک نے تنک کر جواب دیا کہ آپ کی پارٹی بھی اسی حکومت کا حصہ تھی، آپ کے پاس بھی اتنی ہی وازرتیں تھیں جتنی ہمیں ملیں، آپ نے کیوں نہیں حالات کو ٹھیک کر لیا؟
آج کے انتظامی اور سیاسی ڈھانچے دیکھ کر بہت سے جمہوریت اور آئین سے محبت کرنے والے ایک دوسرے کی جانب ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے پہلے کبھی نہ دیکھی ہوئی کوئی چیز دیکھ رہے ہوں۔ ارے بھائی! ان مسحور کن فضائوں کو لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے حالات و واقعات کو سونگھنے کی کوشش کریں، قیامِ پاکستان سے اب تک‘ یہاں پر یہی کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اب اگر کوئی ناسمجھ یہاں کے رسم و رواج سے اتنا ہی بے خبر ہو چلا ہے تو اس پر سوائے اس کی کم علمی اور جہالت پر افسوس کرنے کے اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ ایوب خان سے یحییٰ خان اور ضیاء الحق سے پرویز مشرف کے ادوار کو تو ایک طرف رکھیے۔ یہاں کبھی محمد علی بوگرہ تو کبھی اسکندر مرزا اور غلام محمد جیسے حکمران دیکھنے کو ملے اور کبھی معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے۔ مشرف دور میں (ق) لیگ کی صورت میں پہلے میر ظفر اللہ جمالی سے روشناس کرایا گیا اور پھر شوکت عزیز کو ملک کی زمام کار سونپ دی گئی۔ اب بھی یہی خیال ہے کہ جس کے سر پر ہُما بیٹھ گیا‘ اس کے سر پر پگڑی سجا دی جائے گی، مگر دوسری طرف کچھ لوگ زمینی حالا ت کی تبدیلی کی طرف توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے اختر مینگل کا کہنا ہے کہ الیکشن میں تاخیر اس لیے ہو رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) جس طرح کے نتائج چاہتی ہے، پنجاب اور کے پی میں وہ نتائج ملنا مشکل ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولیٹکل انجینئرنگ کی باتیں محض افسانہ ہیں۔ سب کچھ الیکشن ڈے پر ہی فیصل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے چند بڑی مثالیں بھی ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ 1988ء کے عام انتخابات میں پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح پیپلز پارٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کا راستہ روکا جائے۔ اس کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے گئے، یہ سب کچھ جنرل (ر) حمید گل اپنے 'اعترافی بیانات‘ میں بتا چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مخالف سبھی جماعتوں کو یکجا کر کے آئی جے آئی بنائی گئی اور پھر تمام وزن اس کے پلڑے میں ڈال دیا گیا مگر الیکشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرکز میں بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور پنجاب میں میاں نواز شریف وزیراعلیٰ ۔ اس حکومت کا انجام نوشتۂ دیوار تھا۔ بیس ماہ سے زیادہ یہ حکومت نہیں چل سکی اور ملک دوبارہ ایک چوراہے پر جا کھڑا ہوا۔ اسی طرح پرویز مشرف نے مسلم لیگ نواز کو 'فکس‘ کرنے‘ اور اپنی حکومت کے تین سال بعد جب الیکشن منعقد کرائے تو تمام فیلڈ کو لیول کرنے کے بعد بھی ظفر اللہ جمالی کی وزارتِ عظمیٰ تیرہ ووٹوں کی دوری پر کھڑی تھی۔ اسی زمانے میں نیب نامی ادارہ بنا کر جو کام لیا گیا وہ بھی اب تاریخ کا حصہ ہے، مگر ووٹ پھر بھی پورے نہیں پڑ رہے تھے، آخر کار پیپلز پارٹی کے حصے بخرے کیے گئے اور پیٹریاٹ گروپ نکالا گیا مگر پھر بھی ایک ووٹ کم پڑ گیا جس پر جیل میں قید ایک آزاد ایم این اے کوضمانت پر باہر نکالا گیا اور اس طرح یہ حکومت سازی اپنے انجام کو پہنچی۔ جب کبھی اپنے لائق فائق مہربانوں کے لیکچر یا باخبر افراد کی باتیں اور خیالات سننے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا تو یہی نتیجہ نکلا کہ انجینئرنگ اور پسند‘ ناپسند کے معاملے میں کوئی بھی زبردستی حالات میں زبردست بگاڑ پیدا کر سکتی ہے۔ حالات تو پہلے ہی سنبھل نہیں رہے، بلوچستان اور کے پی میں بیرونی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے، پنجاب اور سندھ میں امن عامہ اور سٹریٹ کرائمز کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے، سب سے بڑھ کر مہنگائی اور بیروزگاری کو لاوا‘ اس لیے جو بھی فیصلہ ہو‘ خوب سوچ سمجھ کر اور تمام مضمرات کو سامنے رکھ کر ہو۔ ویسے بھی وراثت سے عاق کرنے کا شریعت میں کوئی تصور نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved