ن لیگ نے اپنی حکومت کے آغاز ہی سے عوامی حمایت کو کھونا شروع کردیا ہے۔ الیکشن مہم کے دوران میاں محمد نوازشریف اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ حکومت میں آ کر‘ عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی کا طوق اتار پھینکیں گے‘ کشکول توڑ دیں گے اور خود انحصاری کی پالیسی پر عملدرآمد کریں گے۔ ہزاروں افراد کے جلسۂ عام میں وہ جب جوش و جذبے سے یہ شعر پڑھا کرتے ’’اے طائر لا ہوتی اُس رزق سے موت اچھی… جس رزق سے آتی ہو‘ پرواز میں کوتاہی‘‘… تو جلسے میں موجود عوام تالیاں بجا کر اُن کا بھرپور ساتھ دیتے۔ مسلم لیگ ن کے منشور میں یہ ایک بنیادی نکتہ تھا کہ پاکستان کو قرض کے شیطانی چکر سے نجات دلانے کی طرف سفر کا آغاز کیا جائے گا مگر ہوا کیا ؟؟ آئی ایم ایف کی دہلیز پر پاکستان کا کشکول پہنچا۔ قرض کی بھیک ملی اور اب اس قرض کے سائیڈ ایفیکٹس پاکستان کے غریب لوگوں کو جھیلنے ہیں۔ آئی ایم ایف کا قرض ہمیشہ کڑی شرائط کے ساتھ ہی ملتا ہے۔ ان شرطوں کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ قرض کی پہلی قسط کے بعد دوسری اور پھر تیسری قسط ملتی رہے۔ ان شرائط کے جھٹکے عوام کو لگنا شروع ہو چکے ہیں۔ عام استعمال کی گھریلو اشیا پر بھی 2 فیصد اضافی سیلز ٹیکس کا نفاذ ہو چکا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں مجبور اور بدحال ہو چکے ہیں۔ اب ان میں اتنی سکت بھی نہیں کہ مزید مہنگائی کا بوجھ برداشت کریں۔ اس سے پہلے بجلی کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ ہوا مگر سپریم کورٹ کی مداخلت سے حکومت کو یہ عوام دشمن فیصلہ واپس لینا پڑا؛ تاہم عوام کو اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ بجلی کی قیمتیں آج نہیں تو کل حکومت کو بڑھانی ہی ہوں گی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عوام پھر سے مہنگائی کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اطلاعات پرویز رشید اپنے دھیمے لہجے میں فرماتے ہیں کہ مرض کو دور کرنے کے لیے کڑوی گولی بھی نگلنا ہی پڑتی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک کو چلانا اور پھر خوشحالی کی امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی مرض کا علاج شافی دوائوں کی بجائے سٹیرائیڈز سے کیا جائے۔ سٹیرائیڈز وقتی طور پر درد کو آرام پہنچاتے ہیں لیکن ان کے سائیڈ ایفیکٹس رفتہ رفتہ مرض کی بجائے مریض ہی کا خاتمہ کر دیتے ہیں کیونکہ سٹیرائیڈز استعمال کرنے سے مریض کے وائٹل آرگن جیسے دل‘ گردے‘ جگر ناکارہ ہو کر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں مرض کے ساتھ ساتھ مریض کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ جس کڑوی گولی کا مشورہ پرویز رشید دے رہے ہیں یہ بھی سٹیرائیڈز ہیں جن کے سائیڈ ایفیکٹس سے بچنا محال ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہیں‘ جن سے وہ جنگ و جدل کا سامان پیدا کیے بغیر ترقی پذیر ملکوں کے معاشی‘ سماجی اور سیاسی نظام کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف غریب ملکوں کو جن شرطوں پر قرضہ دیتا ہے وہ غیر جمہوری اور انسان دشمن ہیں۔ یہ شرائط کچھ تو بالکل واضح ہیں اور کچھ اتنی ڈھکی چھپی ہیں کہ ان کے پورا ہونے تک اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کا اثر ملک کی معیشت اور سماج پر کیا پڑے گا۔ آئی ایم ایف قرض لینے والے ممالک سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ عوامی بھلائی کے منصوبوں پر دی گئی سرکاری سبسڈی ختم کردیں‘ جیسے ہمارے ہاں یوٹیلٹی سٹورز پر سبسڈی دی جاتی ہے اور وہاں عام گھریلو استعمال کی اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں مثلاً گھی‘ دالیں‘ چاول‘ آٹا وغیرہ مارکیٹ سے کم نرخوں پر فروخت ہوتا ہے۔ اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبوں پر بھی کسی حد تک سرکاری سبسڈی دی جاتی ہے تاکہ غریب عوام کو بھی یہ سہولتیں مہیا ہوں۔ جب آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے سرکاری سبسڈی ختم کردی جاتی ہے تو اس کا براہ راست اثر غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ضروریاتِ زندگی اُن کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہیں۔ سبسڈی اس لیے ختم کی جاتی ہے کہ حکومت اس پیسے کو قرض کی واپسی کے لیے استعمال کرسکے۔ ضروریاتِ زندگی پر جنرل سیلز ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے۔ حالیہ فیصلے میں ضرورت کی عام چیزیں 2 فیصد جی ایس ٹی بڑھانے سے پہلے ہی مہنگی ہو گئی ہیں۔ چنانچہ حکومت کو سخت عوامی تنقید کا سامنا ہے۔ 2001ء میں ارجنٹینا میں آئی ایم ایف پیکیج کی شرائط کے تحت حکومت نے صحت اور تعلیم کے شعبے پر دی جانے والی سرکاری سبسڈی ختم کردی۔ اس سے ایک طرف تو عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہوئے‘ مہنگائی ہوئی‘ لوگ سڑکوں پر آ گئے اور ملک میں ایک سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ آئی ایم ایف کے پوشیدہ ایجنڈے کو سمجھنے والے معاشی ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی پالیسیاں رفتہ رفتہ معاشرے میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرتی ہیں۔ معاشی مسائل بڑھا کر معاشرتی اور سماجی سطح پر عوام میں بے چینی‘ عدم تحفظ کا احساس اور اپنے سیاستدانوں کے خلاف غم و غصہ بڑھاتی ہیں۔ یوں جمہوری اور سیاسی نظام پر بے یقینی سے فوجی حکومتوں کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے جس سرزمین پر قدم رکھے وہاں سیاسی اور جمہوری استحکام کبھی پیدا نہیں ہو سکا۔ اداروں کی نجکاری بھی آئی ایم ایف کی ایک شرط ہے اور حکومت نے یہ کڑی شرط پوری کرنے کے لیے 30 اداروں کی نجکاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ کیا اثرات مرتب کرے گا اور عوام میں مزید کتنی بے چینی پیدا کرنے کا باعث ہوگا، اس پر کسی اگلے کالم میں بات ہوگی فی الوقت تو ہمیں جناب پرویز رشید اور اسحق ڈار سے یہ کہنا ہے کہ جس کڑوی گولی سے وہ ہمارے مرض کا علاج کرنے جا رہے ہیں وہ بھی شاید اُسی طرح کے اثرات رکھتی ہے جس کا تذکرہ باکمال شاعر انور مسعود نے اپنی ایک نظم سائیڈ ایفیکٹ میں کیا ہے۔ سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے ممکن ہے خرابی کوئی ہو جائے جگر میں ہاں آپ کو یرقان بھی ہو سکتا ہے اس سے ہو سکتا ہے لاحق کوئی پیچیدہ مرض بھی گردہ کوئی ویران بھی ہو سکتا ہے اس سے ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اس سے زیادہ پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اس سے سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے…!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved