تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     25-10-2023

کرکٹ ہار پر افسردہ کیوں

بڑا عرصہ ہوا کرکٹ دیکھنی تقریباً چھوڑ دی ہے۔ ابھی پاکستان افغانستان والے میچ کا بھی وہ حصہ دیکھا جس میں افتخار احمد کھیل رہا تھا۔ پاکستان کی ہار کے بعد دفتر گیا تو ربیعہ احسن اور رانا اشرف افسردہ بیٹھے تھے۔ ربیعہ تو بہت ہی افسردہ بلکہ غصے میں تھی۔ وہ بڑی دیر تک بولتی رہیں ٹیم کیساتھ یہ ہوا اور ٹیم کیساتھ وہ ہوا۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ افغان لڑکے‘ جنہیں ہم نے کرکٹ سکھائی‘ کوچنگ کرائی‘ انہوں نے ذلیل کر کے ہرایا کہ شرم آرہی ہے۔ میں نے اس کا دل رکھنے کو کہا: انگلینڈ بھی تو افغانستان ٹیم سے ہار گیا جس نے پوری دنیا کو کرکٹ سکھائی تھی‘اگر ہم ہار گئے تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ یہ انہونی ایک دن ہونی تھی۔ دبئی میں دو دفعہ ہم میچ تقریباً ہار چکے تھے۔ ایک دفعہ آخری اوور میں محمد آصف نے چھکے مار کر میچ جتوا دیا تو اگلی دفعہ پھر آخری اوور نسیم شاہ نے دو چھکے مار کر میچ جتوا دیا۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ جس ٹیم کے خلاف میچ آخری اوور میں جا کر جیت پائیں تو کسی وقت بھی وہ ٹیم آپ سے میچ جیت سکتی ہے لہٰذا افغانستان کا جیتنا کچھ دنوں کی بات تھی۔ ہم نے کیوں سوچ رکھا ہے کہ جن لڑکوں کو ہم نے کرکٹ سکھائی وہ ہم سے احتراماً ًہارتے رہیں۔ آپ الٹا پاکستانی کوچز کو داد دیں جنہوں نے ان افغان لڑکوں کی اتنی اچھی کوچنگ کی تھی کہ انہوں نے پاکستان اور انگلینڈ تک کو ہرا دیا۔ میں نے کہا: دوسری ٹیمیں یا لڑکے بھی تو تیاری کرتے ہیں۔ وہ بھی میچ جیتنے آتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں میں جیت کی وہ بھوک نظر نہیں آتی۔ زیادہ تر عام بیک گراؤنڈ اور تقریباًمعمولی تعلیم کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں لہٰذا بقول ہمارے دوست اقبال دیوان ان کے اندر احساسِ کمتری زیادہ ہوتا ہے۔ Self-respectکی کمی ہوتی ہے اور انہیں احساس نہیں ہوتا کہ پورے ملک کیلئے جیت کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ اگرچہ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے لیکن جب آپ کو لگتا ہے کہ افغانستان سے بھی ہار جانا ایک معمول کی بات ہے تو وہ کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھ رہے۔ اگر آپ ان تین کھلاڑیوں کا بیک گراؤنڈ چیک کریں جنہوں نے لارڈ ز کے میدان میں میچ فکس کر کے چند ہزار پاؤنڈز کھرے کر لیے تھے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان کیلئے ملک کی عزت‘ کھیل کا وقار یا ذاتی برتری کے احساسات کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔ ایک‘ دو نو بالوں کے عوض یا وکٹ گنوانے کے بدلے آپ کو پانچ دس ہزار پاؤنڈز مل رہے تھے تو آپ کو لگا کہ آپ کا کام ہوگیا۔ جب آپ اپنا وقار چند ہزار پاؤنڈز میں بیچ دیں تو پھر اس امریکن کو گالیاں دینے کا کوئی تُک نہیں بنتا جس نے کہا تھا کہ پاکستانی توڈالرز کے بدلے ماں کو بیچ دیں۔ اگرچہ اس جملے نے ہم سب کو بہت دکھ دیا لیکن جب لارڈز میں کچھ برس بعد یہی کام چند ہزار پاؤنڈز میں کیا گیا تو کس منہ سے ہم امریکن کو غلط کہہ سکتے ہیں۔ دھرتی بھی تو ماں کی طرح ہوتی ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ ڈاکٹر ظفر الطاف 1999ء میں منیجر ورلڈ کپ بنے اور ٹیم کو انگلینڈ لے کر گئے اور پھر چیئرمین کرکٹ بورڈ بھی رہے۔ان سے کھلاڑیوں کی کئی کہانیاں سنی ہوئی ہیں۔ وہ کرکٹرز جو آپ کو مہان نظر آتے ہیں‘ وہ کس قسم کے کردار کے مالک ہیں‘ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں سننے کو ملتی تھیں کہ آپ دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ یہ باتیں آج کے لڑکوں بارے نہیں تھیں بلکہ ڈاکٹر صاحب نے 1960ء کی دہائی میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہوئی تھی۔ وہ انڈیا کے دورے پر جانے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ انہیں وہیں ٹیسٹ کیپ ملنی تھی۔ رات کو کہا گیا کہ صبح آپ نے کھیلنا ہے۔ ٹاس سے قبل کپتان نے بڑی شرمندگی سے کہا :ظفر آپ نہیں کھیل رہے کیونکہ کراچی کے محمد برادرز کا کہنا ہے کہ اگر ان کے بھائی کو ڈراپ کر کے نئے لڑکے کو موقع دیا گیا تو وہ میچ نہیں کھیلیں گے۔نوجوان ظفر الطاف اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ وطن واپسی پر کرکٹ چھوڑدی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کیا‘ مشرقی پاکستان میں اسسٹنٹ کمشنر کی پہلی پوسٹنگ ملی۔ پھر وہ حفیظ کاردار کے ساتھ کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری رہے، پھر سلیکٹر بنے ، منیجر کرکٹ ٹیم اور پھر چیئرمین کرکٹ بورڈ رہے‘ لہٰذا اُن کے پاس پاکستان کرکٹ کی تقریبا ًچالیس پچاس سالوں سے زیادہ کی تاریخ موجود تھی۔ سب کچھ پتا تھا‘لہٰذا جب وہ باتیں بتاتے تو حیرت سے منہ میں انگلیاں دبا لیتے۔اُس وقت اگرچہ کچھ کھلاڑی بہتر تعلیمی اداروں سے آتے تھے لیکن ٹیم کے اندر یاری دوستی‘رشتہ داری اور گروپنگ اُس وقت بھی چلتی تھی جیسے آج کل ہے۔ جاوید میانداد کی کپتانی کے خلاف بغاوت کرنیوالے زیادہ تر لاہور کے کھلاڑی تھے جن کے سربراہ عمران خان تھے۔ لاہور کراچی کی یہ تقسیم آج بھی ٹیم میں موجود ہے۔ جاوید میانداد اور عمران خان کے تعلقات کبھی آئیڈیل نہیں رہے۔ ہر دفعہ عمران خان ٹیم میں واپس آیا تو وہ کپتانی کی شرط پر واپس آیا۔جاوید میانداد کو ہر دفعہ کپتانی کی قربانی دینا پڑی۔ عمران خان کا اپنے کزن ماجد خان کو ٹیم سے نکلوانے کے پیچھے میرٹ کی بجائے ایک احساس تھا کہ وہ ماجد خان کی ٹیم میں موجودگی میں اسے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرسکتے تھے۔ماجد ان کے بڑے کزن تھے جو انہیں کرکٹ میں لائے تھے‘لہٰذا عمران کو ایشو رہتا تھا۔ جب ماجد خان کو ڈراپ کرنے کا فیصلہ عمران خان نے کرایا تھا تو ڈاکٹر ظفر الطاف بورڈ میں تھے۔ انہوں نے عمران خان کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ابھی ماجد خان میں دو تین سال کرکٹ باقی تھی‘اسے ریٹائر کرنا نہیں بنتا تھا۔ ہر کھلاڑی آؤٹ آف فارم ہوجاتا ہے لیکن عمران کو موقع کی تلاش تھی لہٰذا بھارت کی ٹیم کے خلاف جب ماجد پرفارم نہ کرسکے تو عمران خان کو موقع مل گیا کہ وہ اس سے جان چھڑائیں۔ شاید عمران خان اپنی جگہ ٹھیک تھا کہ بندہ کب تک بچپن کے ہیرو کی پوجا کرتا رہے۔ انسان زندگی میں جوں جوں Growکرتا ہے آپکے ہیرو بھی بدلتے رہتے ہیں۔ عمران خان کی اپروچ ٹھیک تھی کہ ٹیم کو سخت ڈسپلن میں رکھنا چاہیے تاکہ کھلاڑی پرفارمنس پر توجہ دیں۔ وہ ٹیم کو حوصلہ افزائی اور سخت ڈسپلن کی وجہ سے ورلڈ کپ جتوانے میں کامیاب رہے۔ اگرچہ گروپنگ اور یاری دوستی ہر دور میں موجود تھی لیکن پھر 1990ء کی دہائی میں اوسط درجے کے بیک گراؤنڈ سے آئے کھلاڑیوں کو جوئے کی لت پڑ گئی جو بڑے بڑے کھلاڑیوں کا مستقبل کھا گئی۔ ایزی منی کی سوچ نے جہاں ان کیSelf-Respect ختم کر دی وہیں وہ ٹیم کیساتھ ساتھ خود کو بھی ڈبو بیٹھے۔ہر دوسرا کھلاڑی راتوں رات امیر بننا چاہتا تھا۔ انکے نزدیک کرکٹ جنٹلمین کھیل نہیں تھا۔ ممکن ہے بہت سے کھلاڑیوں نے انگریزی کا یہ لفظ تک نہ پڑھا ہوکہ یہ جنٹلمین گیم ہے۔
ربیعہ کہنے لگی: پھر بھی دیکھیں نا...میں نے کہا: ایک بات تو بتائیں یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے ملک میں باقی تو سب کچھ ٹھیک نہ ہو لیکن کرکٹ کے گیارہ کھلاڑی اعلیٰ پرفارم کریں ؟یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کے ملک کی گورننس، عدالتیں، میڈیا، بیوروکریسی، ادارے یا عام لوگ اپنی زندگی میں پرفارم نہ کررہے ہوں لیکن گیارہ کھلاڑی ٹاپ پر ہوں؟ جب زوال پورے معاشرے پر آیا ہو تو سب اس کا شکار ہوتے ہیں۔ جب معاشی یا سیاسی طور پر آپ تباہ ہوں تو پھر محض گیارہ کھلاڑی آپ کو میچز نہیں جتوا سکتے تاکہ آپ خود پر فخر کر سکیں۔ کیا کرکٹ کے علاوہ کوئی اورشعبہ ہے جسے عالمی سطح پر کامیابی ملی ہو؟ربیعہ کہنے لگی: پھر کیا ہوگا؟ میں نے کہا: ہاکی کی طرح دھیرے دھیرے یہ کھیل بھی شاید زوال کا شکار ہوتا جائے کیونکہ ہم جدید کرکٹ نہیں کھیل رہے جیسے جدید ہاکی نہیں سیکھی یا کھیلی۔ شاید اگلے ورلڈ کپ تک ہم کوالیفائی بھی نہ کرسکیں۔ کبھی ہم ہاکی کے عالمی چمپئن تھے‘ آج ہمارے میدانوں سے ایسے غائب ہوئی کہ کوئی اس کا ذکر تک نہیں کرتا‘ نہ آج کسی کھلاڑی کا نام یاد ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved