تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     25-10-2023

بھارت کا سیاہ اقدام

جس انداز میں اسرائیل آج غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر قہر ڈھا رہا ہے‘ ان کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے‘ ان کے بنیادی حقوق سلب کر رہا ہے اور ناکہ بندی کر کے ان کی خوراک‘ ادویات اور پانی تک پر پابندی لگا چکا ہے‘ بالکل اسی طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر گزشتہ سات عشروں سے زمین تنگ کی ہوئی ہے۔ کشمیریوں کیساتھ انہی کی سرزمین پرغیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ کبھی ٹارچر سیلز میں تشدد کر کے ان کی جان لے لی جاتی ہے تو کبھی پیلٹ گنوں کے وار سے ان کی بینائی چھین لی جاتی ہے۔ کشمیریوں کے انسانی حقوق غصب کرنے کا سلسلہ اس دن شروع ہوا تھا جب بھارت نے آج سے 76 برس قبل 27 اکتوبر کو اپنی فوجیں غیر قانونی طور پر بلاجواز مقبوضہ کشمیر کے سرینگر ایئر پورٹ پر اتاری تھیں۔ یہ دن نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے سیاہ ترین دن تھا بلکہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیداروں اور عالمی تنظیموں کے منہ پر بھی یہ زوردار طمانچہ تھا جو ایک جانور یا پرندے کے مرنے پر تو بریکنگ نیوز چلا کر وائٹ ہائوس سے بیان جاری کروا دیتے ہیں لیکن فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر‘ وہاں پر عام شہری، بچے، عورتیں، بوڑھے، مریض اور معذور‘ سبھی کو سرعام قتل و غارت کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس پر کسی کو انسانی حقوق کا خیال آتا ہے نہ ہی نام نہاد سیکولر ریاستیں بھارت کی غیر قانونی جارحیت کی مذمت کرتی ہیں۔ بھارت کی اس غیر قانونی اور جبری مداخلت کے خلاف احتجاج کے طور پر ہر سال مقبوضہ کشمیر سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں کشمیری 27 اکتوبر کا دن یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس سال بھی یہ دن بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاج کرتے اور دنیا کی توجہ سات دہائیوں سے زیادہ پرانے اس اہم مسئلے کی جانب مبذول کرائی جائے گی۔
یہ دن کشمیری عوام اتنی آسانی سے نہیں بھلا سکتے کیونکہ اس دن ان کی سرزمین پر ڈاکا ڈالا گیا تھا۔ بھارت‘ جو اس وقت امریکہ اور مغربی ممالک کی آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے‘ اُس وقت بھی رعونت کی انتہا پر تھا اور اسی فرعونیت کے تحت اس نے اپنی فوجوں کو سرینگر کے ہوائی اڈے پر اسلحے کے ڈھیر کے ساتھ اتارا تھا۔ اس دن سے آج تک مقبوضہ کشمیر میں معصوم شہریوں پر بھارتی درندوں کے ظلم کی اتنی داستانیں رقم ہو چکی ہیں کہ الامان‘ الحفیظ۔ قلم کی سیاہی خشک ہو جائے لیکن بھارتی درندگی کی جو مثالیں رقم ہو چکی ہیں وہ لکھ لکھ کر بھی ختم نہ ہوں۔ غزہ پر ہونے والے مظالم کی تصاویر اور وِڈیوز تو دنیا کے سامنے کسی نہ کسی طرح آ ہی رہی ہیں کہ وہاں پر عالمی میڈیا بھی کسی نہ کسی طور کوریج کر رہا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کو تو مکمل طور پر بلیک آئوٹ کیا گیا ہے، اسے ایک 'نو گو ایریا‘ بنا دیا گیا ہے۔ پریس کے عالمی نمائندوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو وادیٔ مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ کوریج تو درکنار‘ جانے اور متاثرہ کشمیریوں سے بات چیت کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ وہاں کے ہسپتالوں میں کتنے مریض ہیں‘ علاج کی کیا سہولتیں میسر ہیں‘ بچوں اور خواتین کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے‘ کسی کو یہ سب جاننے اور پوچھنے کی آزادی نہیں ہے۔ بھارت جو چاہتا ہے وہی دنیا کو دکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری بھارت کے مذموم عزائم اور کشمیریوں کی نسل کشی کے بھیانک ایجنڈے کی تہہ تک تاحال نہیں پہنچ سکی۔ آج اگر آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جانے اور کھل کر رپورٹنگ کرنے کی اجازت مل جائے تو بھارت کی ساری کی ساری گیم ہی الٹ جائے۔
درحقیقت یہ جنگ اسی روز شروع ہو گئی تھی جس روز بھارتی فوج کے ناپاک قدم کشمیر کی جنت نظیر وادی پر اترے تھے اور جس دن بھارت کی ایئرفورس کے جہاز سرینگر کے ہوائی اڈے پر نظر آئے تھے۔ اسی دن کشمیر کی آزادی کی جنگ کو ایک سمت اور ایک مہمیز مل گئی تھی۔ کشمیریوں کو اُسی روز معلوم ہو گیا تھا کہ بھارت اسلحہ اور جبر کے ذریعے ان پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور ان کی آزادی کے خواب کو چکنا چور کرنے کے لیے اس نے یہ سارا کھیل رچایا ہے، وہ طاقت کے نشے میں جنت نظیر وادی پر قبضہ کرنے پر تُل چکا ہے ۔ دوسری جانب بھارتی حکمرانوں اور افواج کو معلوم نہ تھا کہ ان کا مقابلہ ایک ایسی قوم سے ہے جو کٹنا اور مرنا تو گوارا کر سکتی ہے لیکن جھکنا گوارا نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سات سے زائد عشرے گزر جانے کے بعد بھی اور مقبوضہ وادی میں بھارت کی جانب سے بھیجی گئی نو لاکھ سے زائد افواج بھی کشمیری حریت پسندوں کے جذبات کو زیر نہیں کر سکی ہیں۔ اس عرصے میں بھارت نے ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا ‘ ہر ہتھیار چلا کر دیکھ لیا‘ ہر طرح کا ظلم روا رکھ کر دیکھ لیا‘ ہر طرح کی اذیت دے کر دیکھ لی لیکن کشمیریوں کی آنکھوں سے آزادی کا خواب اور زبان سے نعرۂ حریت مٹانے میں وہ کامیاب نہ ہو سکا۔
بھارت کے بدنامِ زمانہ عقوبت خانوں میں کشمیریوں پر جو جبر و ستم روا رکھا گیا‘ شاید دنیا کے کسی دوسرے ملک میں وہ حربے نہ آزمائے گئے ہوں لیکن کشمیریوں کے جذبۂ حریت کے سامنے وہ تمام پُرتشددکارروائیاں ماند پڑتی گئیں۔ آج بھی کشمیریوں کا جذبہ وہیں کھڑا ہے جہاں 76 برس قبل‘ ستائیس اکتوبر کو کھڑا تھا جبکہ بھارتی فوج کا نہ صرف جوش ماند پڑ چکا ہے بلکہ وہ پے درپے شکستوں اور مایوسیوں کا شکار بھی نظر آتی ہے۔ 27 اکتوبرکا دن کشمیر کی تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ پاکستان کی جانب سے دنیا بھر کے سفارت خانوں میں بھارتی فورسز کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جبری قبضے کو بے نقاب کرنے اور بھارت کے چہرے سے نقاب اتارنے کے لیے اس دن بھرپور احتجاج کیا جاتا ہے‘ آواز بلند کی جاتی ہے اور دنیا کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔
جس مجرمانہ مکاری اور جارحیت کے ذریعے بھارت نے جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ جمایا‘ اس کی قلعی اس قبضے کے کچھ ہی ہفتوں بعد کھل گئی تھی کہ بھارت کا یہ اقدام نہتے انسانوں کی آواز کو دبانے اور ان کا گلا گھونٹنے کے لیے ہے۔ اسی طرح عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھارت نے ایک اور ڈرامہ رچایا کہ وہ ریاست کے باشندوں کو آزادانہ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کے انتخاب کا حق دے گا؛ تاہم یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا اور ساڑھے سات عشرے گزر جانے کے بعد بھی تشنۂ تکمیل ہے۔ اقوامِ متحدہ کی کشمیر سے متعلق منظور کی گئی قراردادوں میں ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں ممالک کشمیر سے اپنی افواج کو نکالیں اور عالمی مبصرین کی موجودگی میں کشمیریوں کو اپنے فیصلے کا اختیار دیا جائے۔ اس سلسلے میں مارچ 1949ء میں یو این او کے کمیشن نے ایک میٹنگ اس غرض سے منعقد کی کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت پاکستانی اور بھارتی افواج کو کشمیر سے واپس بلانے کا پروگرام طے کیا جائے۔ پاکستان نے اپنا پروگرام پیش کر دیا مگر بھارت روایتی ٹال مٹول پر اتر آیا اور اپنی فوجیں ریاست کی حدوں سے باہر نکالنے سے صاف مکر گیا۔
27اکتوبر کا دن کشمیری اس لیے بھی بلیک ڈے کے طور پر مناتے ہیں کہ اس روز بھارتی فوج نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخل ہو کر کشمیریوں کی امنگوں کا قتل عام کیا تھا اور برصغیر کی تقسیم کے منصوبے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں اپنا تسلط قائم کرنے کا آغاز کیا تھا۔ پاک بھارت دیرینہ تنازع اور کشیدگی کی اصل وجہ بھی مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا جبری قبضہ ہے جو وہاں کے عوام کے حقوق سلب کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ تبھی حل ہو سکتا ہے جب کشمیری عوام کی رائے کو اولیت اور اہمیت دی جائے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیے بغیر بھارت کے پاس کوئی چارہ نہیں کیونکہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان موت سے نہیں ڈرتے اور جہاد اور شہادت کی خواہش ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ بھارت یہ بھی جان لے کہ کشمیریوں پر کسی قسم کا جبری حل مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ کاوش رائیگاں جائے گی۔ اس کا فائدہ نہ ماضی میں ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved