تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف نے چار برسوں کی جلا وطنی کے بعد ملک کی معاشی بدحالی کے دوران اور پُرہنگامہ سیاست میں فاتحانہ واپسی کر کے قومی سیاست کا ایک اہم سنگِ میل عبورکر لیا ہے۔ ان کی ڈرامائی واپسی ہمارے سیاسی ماحول میں سویلین بالادستی کی کلاسیک مثال بن گئی ہے۔ یہ وہی نواز شریف ہیں جنہیں سویلین بالادستی کی آرزوئیں پالنے کی پاداش میں تین بار ایوانِ اقتدار سے نکالا گیا۔ عالمی اور مقامی مقتدرہ کی ایما پہ انہیں خاندان سمیت طویل جلاوطنیوں کی کلفتوں سے دوچار کرنے کے علاوہ بغاوت اور بدعنوانیوں کے مقدمات میں الجھا کر ہمیشہ کے لیے میدانِ سیاست سے آوٹ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ طاقت کے مراکز سے محاذ آرائی کے دوران وہ لمبی مدت تک پسپائی اور پیش قدمی کے مابین ٹھوکریں کھانے کے باوجود خاموش مزاحمت جاری رکھ کر اپنی سیاسی زندگی کو دوام دینے میں کامیاب ہوئے، یوں بالآخر حالات کے اُلٹ پھیر میں قوم کی اکثریت سمیت مقتدر حلقوں میں بھی انہیں ایک سچے سویلین لیڈر کے طور پہ قبول کر لیا گیا۔
مینارِ پاکستان پر ان کے استقبالیہ جلسے نے ہمیں وہ جذباتی مناظر دکھائے جو براک اوباما کے پہلے سیاہ فام امریکی صدر منتخب ہونے پر نظر آئے تھے۔ بلاشبہ تاریخ ساز جلسے سے اُن کا خطاب ایک فاتح کی جلالت و وقار اور طاقتور عوامی لیڈر کا لب و لہجہ لیے ہوا تھا جس میں سیاسی مخالفین کے لیے درگزر کے احساسات کے علاوہ پڑوسی ممالک کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں پر دوستی سمیت ملکی مسائل کی تشخیص اور قومی وجود کو مربوط بنانے والے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی گونج سنائی دی۔ اگرچہ سیاسی مخالفین اور ماضی قریب کے بعض اتحادی دھیمی آواز میں ان کی وطن واپسی کو ڈیل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ جن حالات میں نواز شریف واپس آئے ہیں‘ یہ مجھے ایک سنجیدہ اور مقبول لیڈرکی طرف سے مشکلات میں گھری ریاست کو سہولت فراہم کرنے کی مساعی کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتا۔
2019ء کے اواخر میں سات سال قید کی سزا کے دوران انہیں طبی بنیادوں پہ ضمانت دے کر ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن بھیجا گیا تھا‘ وہی لندن جہاں سے وہ اپنی شریکِ حیات کو بسترمرگ پہ چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ہمراہ قید کاٹنے کے لیے وطن واپس آئے تھے کیونکہ ان کی عدم موجودگی میں عدالت کی طرف سے انہیں سزا سنائی گئی تھی اور اس وقت بھی مخالفین کا خیال تھا کہ وہ گرفتاری کے خوف سے واپس نہیں آئیں گے اور یوں ان کی مزاحمتی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گی لیکن ان کی دلیرانہ واپسی نے مخالفین کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ کر دیا؛ چنانچہ وطن واپسی پہ لاہور ایئرپورٹ پر انہیں عملے نے سختی سے ڈیل کیا، بالکل ویسے ہی جیسے ستمبر2007ء میں جلاوطنی ترک کرکے واپس آنے پر مشرف دور میں انہیں راولپنڈی ایئرپورٹ پر نامناسب سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پھر ایئرپورٹ سے ہی انہیں واپس بھیج دیا گیا تھا۔ بلاشبہ تاریخ اسی طرح جابروں کی مجبوریوں کو بے نقاب کرتی ہے کہ ماضی کے برعکس اب پورا انتظامی ڈھانچہ ان کے سامنے سرنگوں تھا اور یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ فاتح کی حیثیت سے واپس لوٹے ہیں۔ یقینا یہ سب کچھ انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا بلکہ نواز شریف نے اپنی خاموش اور پُروقار مزاحمت کے ذریعے طاقت کے مراکز کو مسخر کیا ہے۔
اس ملک کے دیگر تمام وزرائے اعظم کی طرح‘ نواز شریف نے بھی کبھی اپنے عہدے کی مدت پوری نہیں کی۔ بدعنوانی کے الزامات سہنے کے علاوہ کئی بار انہوں نے اپنی حکومتوں کا تختہ الٹتے دیکھا لیکن ہفتہ‘ 21 اکتوبر کے روز سیاسی طور پر احیا شدہ نواز شریف جب اپنے آبائی شہر لاہور میں اترے تو خود نواز شریف کے سوا‘ سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ بلاشبہ ان کے تجربات انہیں احساسِ ذمہ داری اور ذات سے آگاہی کا شعور دینے کے علاوہ اجتماعی زندگی سے مربوط رکھنے والی فکر بھی عطا کریں گے؛ چنانچہ مقبول عوامی لیڈر کے طور پر نواز شریف کی قبولیت ہمارے ریاستی ڈھانچے پہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کمزور کرنے کی علامت اور سویلین بالادستی کی شروعات بن سکتی ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہی کا مطلب عوام کو جوابدہ ہونا ہے لہٰذا اس تناظر میں اپریل میں پارلیمنٹ کے اِن کیمرہ سیشن میں سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ کے دوران آرمی چیف نے کہا کہ عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں، پاک فوج ملکی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ 1973ء کے آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے اجلاس میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کرنے کے عہد کو دہرایا۔
ماضی قریب میں عوامی مینڈیٹ کو مسخ کر کے جس طرح کا ہائبرڈ نظام تخلیق کیا گیا، اس سے نمودار ہونے والی پارلیمان کو مبینہ طور چند اہلکار ریگولیٹ کرتے رہے؛ تاہم سویلین بالادستی کے علمبردار جمہوری سیاست دانوں نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پُرامن سیاسی اصلاحات کی خاطر آئینی نظام کو پٹڑی پر لانے کی جدوجہد جاری رکھی۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے داخلی نظام میں ابھرنے والی غیر معمولی تبدیلیاں عالمی سطح پہ رونما ہونے والے واقعات کا نتیجہ ہیں‘ خاص طور پر افغانستان سے انخلا کے بعد جنوبی ایشیا پر جب امریکی گرفت کمزور ہوئی تو ہماری داخلی سیاسی نظام کو پنپنے کی سہولت ملی؛ چنانچہ دفاعی اداروں کے مثبت تعاون کا کھلی بانہوں کے ساتھ استقبال کرنا چاہئے اور ہمیں اپنے کمزور سیاستدانوں کی قربانیوں اور خاموش مزاحمت کی بھی تعریف کرنا ہو گی، جنہوں نے قوم کو اداروں کے ساتھ ٹکرائو میں الجھائے بغیر آئینی نظام کی بحالی کے لیے پُرامن بقائے باہمی کی راہ نکالی۔ سویلین بالادستی کے حصول کی جدوجہد میں ہمیں لیاقت علی خان، فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سمیت ان تمام سیاسی کارکنوں، دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں اور وکلا کی قربانیوں کو بھی یادکرنا چاہئے جنہوں نے عوام کے حقِ حاکمیت کی جدوجہد کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ سویلین بالادستی کا تصور دراصل قانون کی حکمرانی سے پھوٹتا ہے، جو بالآخر کسی نہ کسی طور وسیع عوامی حمایت کی حامل لیڈرشپ میں منعکس ہوتا ہے۔ اس لیے قانون کی تدوین میں مقننہ کا کردار اہم ہے لیکن ہماری تقدیر کے مالکوں نے نظریۂ ضرورت کی ڈاکٹرائن کے ذریعے پہلے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو پابہ جولاں بنا دیا، پھر مقبول سیاسی قیادت کی کردار کشی کے اسباب مہیا کرکے قانون کی حکمرانی کے تصورکو التباسات میں الجھا دیا۔ آئین سے ماورا یہ بندوبست چونکہ مغربی طاقتوں کے مفاد میں تھا اس لیے عالمی برادری مختلف طریقوں سے توثیق دے کر ہمیں اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ سویلین بالادستی کے ماحول میں جنگ اور قومی سلامتی بارے ہر فیصلہ ایسی منتخب حکومت کرتی ہے جو عوام کو جوابدہ ہوتی ہے کیونکہ سویلین کنٹرول اجتماعی دانش پر مشتمل ایسا گداز عمل ہے جس میں ادارے کوئی بھی ایسی ذمہ داری یا فیصلہ از خود نہیں لیتے جو انہیں سویلین لیڈروں کی طرف سے سونپا نہ گیا ہو۔ چنانچہ جنگ سے لے کر اداروں کے سربراہان کے عزل و نسب اور تعمیر و ترقی تک، تمام چھوٹے بڑے معاملات منتخب اداروں کے سپرد رہتے ہیں لیکن پچھلی کئی دہائیوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر طاقت کا مرکز تبدیل رہا حتیٰ کہ ان جمہوریتوں میں بھی‘ جو طویل عرصے سے سویلین کنٹرول میں چلی آ رہی تھیں۔ کچھ ممالک میں تو منتخب حکومتوں کو برطرف کر کے عملی طور پر ریاستی مقتدرہ نے قومی زندگی کے زیادہ تر حصے پر کنٹرول پا لیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved