جو حال قوم کا ہے وہی قومی کرکٹ ٹیم کا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرنے کے جو نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں وہی نتائج منصوبہ سازی کے بغیر کھیل کے میدان میں اُترنے کے بھی برآمد ہوا کرتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ جو کچھ کرکٹ کے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں ہو رہا ہے اُسے دیکھ کر 1992 ء کا ورلڈ کپ یاد آئے بغیر نہیں رہتا۔ تب بھی قومی ٹیم نے کچھ اِسی انداز سے آغاز کیا تھا۔ تھوڑا سا فرق یا بہتری یہ ہے کہ تب پہلے پانچ کھیل کر قومی ٹیم نے تین پوائنٹ حاصل کیے تھے جبکہ اِس بار پہلے پانچ میچوں میں سے دو جیت کر چار پوائنٹ حاصل کیے جاچکے ہیں۔ تب پہلا میچ ہارے تھے، اس بار آغاز فتح سے ہوا ہے۔ تب پانچواں میچ جنوبی افریقہ سے ہارنے کے بعد آخری تین میچوں میں شکست کا آپشن نہیں بچا تھا، اب کے بھی سیمی فائنل تک رسائی کے لیے آخری چار میچوں میں سے ہر ایک میں بہر طور فتح یقینی بنانی ہے۔ تب بھی قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں پر شدید ذہنی دباؤ تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ ہاں‘ اب کے بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ قومی ٹیم کو ڈائی ہارڈ حریف بھارت کی سرزمین پر سُرخ رُو ہونا ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم حوصلے ہار چکی ہے۔ سری لنکا کے لیے بھی امکانات زیادہ روشن نہیں۔ افغانستان نے انگلینڈ کو اور پاکستان کو ہرایا ضرور ہے مگر پھر بھی اُس کے لیے زیادہ پُرامید ہونے کی گنجائش نہیں۔ ہالینڈ اور بنگلہ دیش کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایسے میں گرین شرٹس کو سیمی فائنل تک پہنچنے یعنی ٹاپ فور میں شامل ہونے کے لیے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ سے سخت مسابقت و مزاحمت کا سامنا ہے۔ ابھی خاصی اکھاڑ پچھاڑ ہونی ہے۔ ابھی سے یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ پاکستان پیچھے رہ جائے گا یا آسانی سے ٹورنامنٹ سے باہر ہو جائے گا۔ سوال ہوش و حواس برقرار رکھتے ہوئے دلجمعی سے محنت کرنے کا ہے۔
تبصرہ کار برملا کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی ٹیم اگرچہ خاصی پسپا دکھائی دے رہی ہے مگر یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ 1992ء کے ورلڈ کپ ہی میں نہیں بلکہ دوسرے بہت سے مواقع پر بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ گزشتہ ورلڈ کپ میں دو تین انتہائی ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے تھے جو کرکٹ کی روح کے منافی تھے۔ بھارت نے ایک میچ آسانی سے ہار کر پاکستان کی راہ مسدود کی تھی اور اِس پر بھارتی ٹیم کو شدید نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ کچھ ایسا ہی رویہ یورپ کی ٹیموں نے بھی ہمارے ساتھ روا رکھا تھا۔ اب کے بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ اگر پاکستان کی پیش رفت کا مدار کسی میچ کے نتیجے پر ہو تو 'نورا کشتی‘ کھیل ہماری راہ پھر مسدود کر سکتا ہے۔ بھارتی ٹیم بھی ایسا کرسکتی ہے۔ جب چار سال پہلے اُسے شرم نہ آئی تو اب کیوں آنے لگی؟ ایسے میں ہمیں کسی کے لیے کوئی آپشن کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
افغانستان کے خلاف میچ میں قومی کرکٹ ٹیم جس انداز سے کھیلی وہ کسی بھی اعتبار سے ایک بڑی ٹیم کے شایانِ شان نہ تھا۔ افغانستان کی ٹیم بہتر ہوگئی ہے۔ اُس کے پاس چند اچھے سپنرز بھی ہیں اور بیٹرز بھی بُرے نہیں۔ اعتماد کی سطح بھی بلند ہے مگر پھر بھی افغانستان کی ٹیم اِتنی بڑی نہیں کہ اُس سے اِس قدر خوف کھایا جائے۔ محمد نبی اور راشد خان اچھے سپنرز ہیں مگر اب ایسا بھی کچھ نہیں کہ اُن کے سامنے نہایت ڈر ڈر کر کھیلا جائے ۔ اِن دونوں سپنرز سے خوف زدہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نور احمد اور مجیب سے بھی خوف آنے لگا! افغانستان سے جو میچ ہم ہارے ہیں اُس میں پاکستان کی بیٹنگ ڈاٹ بالز کے ڈھیر تلے دب گئی۔ پوری اننگز کے دوران پاکستانی کھلاڑی اِس طور کھیلے گویا ہاتھ کسی نے باندھ دیے ہوں۔ کپتان بابر اعظم نے اگرچہ 74 رنز کی اچھی اننگز کھیلی؛ تاہم وہ بھی کھل کر نہ کھیل سکے اور ایسا کچھ نہ کر پائے جس سے ٹیم کے حوصلے بلند ہوتے۔
آج کی ایک روزہ کرکٹ میں اِس بات کی بہت اہمیت ہے کہ ڈاٹ بالز کم سے کم ہوں۔ اب 350 کا ہدف بھی کچھ زیادہ دشوار ثابت نہیں ہوتا۔ بیٹرز کے مزاج میں تیزی ہے۔ چھوٹی ٹیموں کے بیٹرز بھی تیز کھیلنے کے عادی ہیں۔ اب ہر فارمیٹ میں تیزی نمایاں ہے۔ ہر ٹیم میں ماسٹر بلاسٹرز یعنی ایسے کھلاڑی پائے جاتے ہیں جو کسی بھی وقت دھواں دھار بیٹنگ کے ذریعے میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔
آج کل قومی کرکٹ ٹیم جن مشکلات سے دوچار ہے اُنہیں دیکھ کر دو کھلاڑی بے ساختہ یاد آتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جو جاوید میانداد کا تھا۔ وہ سنگلز اور ڈبلز پر یقین رکھتے تھے۔ جب وہ کریز پر ہوتے تھے تب مخالف ٹیم کے فیلڈرز کی شامت آجاتی تھی۔ جاوید میانداد سنگلز کی گنجائش نکالنے کے ماہر تھے۔ وہ خلا ڈھونڈتے تھے اور وہاں شاٹ کھیل کر سنگلز کی شکل میں فیلڈرز کو بھاگ دوڑ میں مصروف رکھ کر تھکادیتے تھے۔ گنجائش دیکھ کر وہ چوکے اور چھکے بھی لگاتے تھے مگر اُن کے کھیل کا مدار سنگلز اور ڈبلز پر ہوا کرتا تھا۔ اِس صورت رن ریٹ کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیم پر دباؤ بھی بڑھتا جاتا تھا۔ مار دھاڑ کی ذمہ داری جاوید میانداد دوسروں کو سونپ دیتے تھے۔ اُن کی بیٹنگ کا بنیادی وصف یہ تھا کہ وہ کریز کا ایک اینڈ سنبھال کر رکھتے تھے۔ مخالف ٹیم بھی جانتی تھی کہ جب تک وہ کریز پر ہیں، فیلڈرز کو نچاتے رہیں گے۔ جاوید میانداد کی شکل میں قومی کرکٹ ٹیم کو ایک بڑا ستون میسر تھا۔ اُن کے جانے کے بعد شاہد آفریدی کی آمد ہوئی۔ شاہد آفریدی نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ وہ ایسے کھلاڑی تھے جس کے بارے میں پورے یقین سے کچھ بھی کہا نہیں جاسکتا تھا۔ یہی اُن کی سب سے بڑی خصوصیت تھی۔
بہت سوں کو دیکھا ہے کہ شاہد آفریدی کا موازنہ بڑے بیٹرز سے کرتے ہیں اور ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پر اُنہیں کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاہد آفریدی ایک خاص انداز کے کھلاڑی تھے۔ اُن کی آل راؤنڈ پرفارمنس بنیادی طور گیم چینجر کی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ کسی بھی وقت کریز پر محض پندرہ بیس منٹ ٹھہر کر میچ کا پانسا پلٹ دیتے تھے۔ میچ کے دھارے کا رُخ یوں بدلتا تھا کہ لوگ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔ شاہد آفریدی کے کریئر کو اِسی زاویے سے دیکھنا اور جانچنا چاہیے۔ وہ رنز کے اعتبار سے بڑی اننگز نہیں کھیلتے تھے مگر اُن کی چالیس پچاس رنز کی اننگز مجموعی تاثیر و تاثر کے اعتبار سے بہت بڑی ہوتی تھی۔ بارہ پندرہ بالز پر چالیس پینتالیس کی اننگز کھیل کر شاہد آفریدی میچ کو کہیں سے کہیں پہنچادیتے تھے۔ بھارت کے معروف آف اسپنر ہربھجن سنگھ نے سچ ہی کہا ہے ''شاہد آفریدی وہ کھلاڑی ہے جسے اپنی عزت کی کچھ پروا ہے نہ دوسروں کی عزت کی!‘‘ مزاج کی غیر یقینیت ہی شاہد آفریدی کا سب سے بڑا حوالہ تھی۔ وہ جب کریز پر آتے تھے تو مخالف ٹیم سوچ سوچ کر پریشان ہوتی تھی کہ وہ کیا کریں گے، میچ کو کہاں لے جائیں گے۔ شاہد آفریدی کو کریز پر زیادہ دیر ٹھہرنا پسند نہ تھا! وہ تو آتے ہی شروع ہو جاتے تھے۔ یہی اُن کا کھیل تھا۔ قومی کرکٹ تیم کئی ہارے ہوئے میچ شاہد آفریدی کے غیر یقینی مزاج کی بہ دولت جیت پائی۔
اِس وقت قومی کرکٹ ٹیم کو ایک جاوید میانداد اور ایک شاہد آفریدی کی ضرورت ہے۔ کھلاڑیوں کے مزاج میں تیزی در آئی ہے۔ یہ تیزی کبھی کبھی ''تُو چل، میں آیا‘‘ والی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ ایسے میں ایک ایسا کھلاڑی درکار ہے جو وکٹ پر ٹھہرے، چوکے‘ چھکے مارنے کی کوشش نہ کرے؛ تاہم سنگلز اور ڈبلز کی شکل میں سکور بورڈ کو متحرک رکھے۔ دوسری طرف ایک ایسا کھلاڑی درکار ہے جو ضرورت کے مطابق تیزی دکھائے، ماسٹر بلاسٹر کا کردار ادا کرتے ہوئے بیس پچیس گیندوں پر پچاس ساٹھ رنز سکور کرے اور میچ کا نقشہ بدل کر پویلین واپس چلا جائے۔ میانداد جیسا کھلاڑی ڈاٹ بالز سے بچتے ہوئے سنگلز اور ڈبلز کی شکل میں سکور آگے بڑھائے اور شاہد آفریدی جیسا کھلاڑی آندھی، طوفان کی طرح آئے اور اپنے حصے کا کام کرکے واپس چلا جائے۔
ایک بات اور‘ کپتان بابر اعظم کو سیکھنا پڑے گا کہ میچ منصوبہ سازی کے تحت کھیلے جاتے ہیں۔ کسی منصوبے کے بغیر کھیلی جانے والی الل ٹپ کرکٹ وہی نتائج پیدا کرتی ہے جن کا اِس وقت قومی کرکٹ ٹیم کو سامنا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved