میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ملکی سیاست تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ میاں نواز شریف کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کیلئے شاید عمران خان کو سائیڈ لائن لگایا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کی عوامی قبولیت دیکھنے کے بعد پیپلز پارٹی بھی سمجھ گئی ہے کہ آئندہ حکومت ممکنہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی ہو گی‘ اس لیے وہ ڈیل کا الزام لگا رہی ہے اور ایسے ہی الزامات تحریک انصاف کی جانب سے بھی لگائے جارہے ہیں۔ یہ بات لیکن کوئی بھی جماعت یاد کرنے کو تیار نہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے عمران خان کی اقتدار تک رسائی کیلئے پہلے میاں نواز شریف کو نااہل کیا گیا اور پھر ان کی جماعت میں توڑ پھوڑ کر کے جنوبی پنجاب محاذ بنایا گیا۔ پھر الیکشن نتائج پر اثر انداز ہونے کیلئے مبینہ طور پر آر ٹی ایس بٹھا دیا گیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب بھی وہی کھیل کھیلا جائے لیکن میاں نواز شریف کو کیسے نکالا گیا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اب حالات ان کیلئے سازگار ہیں۔ 24 اکتوبر کو وہ احتساب عدالت اور بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ میں خود کو سرنڈر کرنے کیلئے پیش ہوئے۔ ان کو عدالتوں سے توشہ خانہ‘ العزیزیہ اور ایون فیلڈ کیس میں قانونی طور پر ریلیف ملا۔ ویسے ابھی میاں نواز شریف کے خلاف کیسز ختم نہیں ہوئے‘ وہ پہلے کی طرح عدالتوں میں پیش ہوتے رہیں گے‘ لیکن یہ بات ان کے مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہی کہ اُنہیں یہ قانونی ریلیف کیوں مل گیا ہے؟ پنجاب کی نگران حکومت نے میاں نواز شریف کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطل کردی ہے۔ اس سزا کی معطلی پر پیپلز پارٹی کی طرف سے شدید ردِ عمل ظاہر کیا گیا جبکہ نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر کا کہنا ہے کہ کیس کا حتمی فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کریمنل پروسیجرل کوڈ کے سیکشن 401کے تحت حکومت کسی بھی مجرم کی سزا معطل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ اس معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اس ججمنٹ کو آفر کیا تھا‘ یہ فیصلہ کابینہ نے سوچ سمجھ کر لیگل ایڈوائس کے تحت کیا ہے۔ اس فیصلے پر کوئی اعتراض کیسے ہو سکتا ہے۔ اشتر اوصاف یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے خلاف کیسز عجلت میں بنائے گئے۔ قانون میں پیچیدگیاں ہوتی نہیں‘ پیدا کی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی دورِ حکومت میں میاں شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور خواجہ سعد رفیق کے خلاف دائر کردہ مقدمات سمیت ایسے کیسز کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے حوالے سے پیچیدگیاں قانون میں نہیں‘ پروسیجر میں تھیں۔
ریلیف تو تحریک انصاف کو بھی ملا ہے۔ سویلینز کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں‘ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ یہ فیصلہ چار ایک کے تناسب سے سنایا گیا‘ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1)(d) کو چار ججز نے آئین سے متصادم قرار دیا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ سانحہ نو مئی کے 103 ملزمان کا ٹرائل کریمنل کورٹ میں ہی چل سکتا ہے۔ عدالت نے جن شہریوں کا فوجی عدالت میں ٹرائل شروع ہوچکا ہے‘ اسے بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس کیس کا فیصلہ ٹھیک اس وقت آیا جب ایک دن پہلے فوجی عدالتوں نے سویلینز کے کیسز سننا شروع کیے تھے۔ یہ بحث پہلے بھی ہو چکی ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل ہونا چاہیے یا نہیں۔ کوئی اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے تو کوئی اس کودرست سمجھتا ہے۔ بنیادی طور پر ٹرائل کے تحت مقدمے چلائے جانے سے کیسز کا فیصلہ جلدی ہو جاتا ہے جبکہ فوجداری عدالتوں میں کیسز طول پکڑ جاتے ہیں اور کیس کا جلدی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جاتا رہا ہے کہ خصوصی عدالتیں کم سزا دیتی ہیں‘ ان کے پاس زیادہ سزا دینے کا اختیار نہیں ہے۔ ان کے پاس صرف یہ اختیار ہے کہ وہ اس کیس کا فوری فیصلہ کر دیں جبکہ دہشت گردی کی عدالتوں کے پاس زیادہ سزا دینے کا اختیار ہے۔ بہرحال چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اسی طرح کے فیصلے کی توقع تھی کیونکہ اس سے پہلے ان کا فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سب کے سامنے ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آتے ہی آزاد عدلیہ کا تصور بحال ہوتا ہوا نظر آرہا ہے جس میں اسی قسم کے خلافِ توقع اور غیرمعمولی فیصلے ہو سکتے ہیں۔
ایک اور قانونی معاملہ سائفر کا بھی ہے جس میں خصوصی عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فردِ جرم عائد کردی ہے۔ چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزمان خفیہ دستاویزات کی معلومات سے متعلق رابطوں میں ملوث پائے گئے۔ سائفر کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ اسے قومی سلامتی کے برخلاف ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ سابق وزیراعظم نے جان بوجھ کر سائفر تحویل میں رکھاجبکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ یہ کیس جھوٹا‘ من گھڑت اور سیاسی انتقام پر مبنی ہے اور وہ اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔ یعنی انہوں نے صحتِ جرم سے انکار کر دیا ہے‘ لیکن محسوس ہورہا ہے کہ اعظم خان اور اسد مجید کی گواہیاں ان کیلئے مزید مشکل پیدا کریں گی کیونکہ دونوں نے ہی عمران خان پر سائفر کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔ خصوصی عدالت نے گواہان کوطلب کرتے ہوئے سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔ اس کیس میں اگر عمران خان کی خلاف فیصلہ آتا ہے تو وہ سیشن کورٹ‘ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کر سکتے ہیں‘ یعنی ابھی ان کے پاس بڑا مارجن ہے۔ بات سیدھی سی ہے‘ جس کیس میں جو مجرم ثابت ہوگا اس کے خلاف قانون خود راستہ بنائے گا۔
حالیہ دنوں میں میاں نواز شریف کے اس بیان پر تنقید کی گئی کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ یہ درست بات ہے۔ کوئی بھی الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت کیسے کر سکتا ہے اور ویسے بھی میاں نواز شریف کو انتخابات کا کیا ڈر ہو سکتا ہے جب سروے ان کی مقبولیت کی گواہی دے رہے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 30فیصد پاکستانیوں نے ملکی معاشی بحران کے حل کے لیے میاں نواز شریف سے امید باندھ لی ہے جبکہ 22فیصد نے پی ٹی آئی چیئرمین کو واحد امید ٹھہرایا ہے۔ 30فیصد نے مایوسی کے ساتھ کہا کہ معاشی بحران کوئی حل نہیں کر سکتا۔ سروے کے مطابق میاں نواز شریف کی مینارِ پاکستان پر تقریر 34فیصد پاکستانیوں نے سنی۔ 80 فیصد نے تقریرکی تعریف کی جبکہ 50فیصد نے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کو ملکی مستقبل کے لیے بہتر قرار دیا اور 51فیصد نے اسے (ن)لیگ کی آئندہ عام انتخابات میں جیت کیلئے بھی مدد گار کہا جبکہ 70فیصد میاں نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی کے بھی حامی نظر آئے۔ سروے میں ملکی ترقی کیلئے میاں نواز شریف کو چیئرمین پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔ میاں نواز شریف سیاسی راستے پر مخالفین سے آگے نکل رہے ہیں اور قانونی راستے کے ذریعے اپنے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور یہی کام ان کے مخالفین کو کرنا چاہیے۔ جو قانون کا سامنا کرے گا‘ وہی انتخابات میں بہتر کارکردگی دکھا سکے گا۔ جیسا کہ میاں نواز شریف کو سروے میں مفاہمت کا مشورہ دیا گیا‘ انہیں یہ مشورہ قبول کرکے تمام سیاسی اکائیوں کے شکوے شکایتیں دور کر لینی چاہئیں۔ ایسا ہو گیا تو میاں نواز شریف کا سیاسی قد اور اونچا ہو جائے گا اور انتشار اور نفرت کی سیاست بھی دم توڑنے لگے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved