ہم اخلاق اور اقدار و روایات کے عہدِ تنزُّل میں جی رہے ہیں، جدید الیکٹرانک و سوشل میڈیا نے اخلاقی زوال کے سفر کو تیز تر کر دیا ہے، یہ اخلاقی اور نفسیاتی بیماری معاشرے کے تمام طبقات کا احاطہ کیے ہوئے ہے، سوائے اُن خوش نصیب افراد کے جنہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور دینی تربیت نے ان آفات سے بچا رکھا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ علماء سے معاشرے کے اَوسَط معیارِ اخلاق سے بہتر کی توقع رکھتے ہیں اور یہ بجا ہے، لیکن اب یہ بھی تیزی سے زوال پذیر ہے۔
انسانی خوبیوں میں اُس کے خاندانی پسِ منظر، ماحول اور ذاتی محاسن کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں، اُن میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں بہتر تھے، وہ اسلام سے مشرف ہونے کے بعد بھی دین کی سمجھ حاصل کر کے بہتر ثابت ہوئے‘‘ (صحیح مسلم: 2638)۔ اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ ماحول، پسِ منظر، نسبی اور شخصی فضیلت انسان کے جوہرِ قابل کو مزید نکھارتی ہے۔ صحابۂ کرام اس کی روشن مثال ہیں۔
اس کی مثال میں تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنی ذات سے دیتا ہوں، میرے والد صاحب کے چار بھائی تھے، گائوں سے ہٹ کر اپنی آبائی زمین میں سب بھائی طویل عرصے تک مشترکہ خاندان کے طور پر رہتے رہے، پھر جب اولاد بڑی ہو گئی، سب تعلیم و روزگار کے سلسلے میں منتشر ہو گئے، تو سب بھائی الگ ہو گئے۔ ہم سب آپس میں چچا زاد اور بعض خالہ زاد بھی تھے، دوسری چچیاں بھی کسی نہ کسی خاندانی رشتے سے جڑی ہوئی تھیں۔ ہم بچپن اور لڑکپن میں آپس میں کھیلتے بھی رہے، سکول میں بھی ایک ساتھ تعلیم پائی، لیکن گالی کا کوئی تصور ہمارے خاندان میں نہیں تھا، کیونکہ ہر گالی یا تہذیب سے گرے ہوئے لفظ کا نشانہ دوسرے سے پہلے خود بنتے۔ بعد میں مدرسے میں بطورِ استاذ یا کالج یونیورسٹی میں بحیثیتِ پروفیسر پڑھاتے ہوئے غصے میں زیادہ سے زیادہ زبان پر اُلّو یا گدھے کا لفظ آتا تھا اور وہ بھی بہت نادر، نالائق یا بدتمیز کے الفاظ بھی ہمارے غصے کے اظہار کے لیے کافی تھے۔ اب حال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اور اَشرافیہ کے لوگ ملک کے اعلیٰ اداروں میں تعلیم پاتے ہیں، پھر اُن میں سے بعض آکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ ہیں، ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اُن کی زبانوں پر تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ کیسے آ جاتے ہیں، لازماً پسِ منظر میں کہیں نہ کہیں کوئی تربیتی اور تہذیبی نقص موجود ہے، اسی کو جینیاتی ورثہ یا مینوفیکچرنگ فالٹ کہتے ہیں۔
یہ عنوان میں نے اس لیے قائم کیا کہ آج کل سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کی توہین، تمسخر و استہزا، طعن و تشنیع، عیب جوئی، غیبت، بدگمانی، بہتان تراشی اور کردار کُشی رائج الوقت فیشن بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا تصور لوگوں کے ذہنوں سے نکل گیا ہے، مخالفین کی صورتیں بھیانک حد تک بگاڑی جاتی ہیں، یہ ساری باتیں شریعت میں ممنوع ہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب مذہبی تنظیموں سے وابستہ بعض جذباتی لوگ بھی یہ کام کر رہے ہیں اور اپنی دانست میں وہ اسے دین کی خدمت سمجھتے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ خدمتِ دین پر انسان اللہ تعالیٰ سے اجر کا امیدوار ہوتا ہے اور حرام پر اجر کی امید رکھنا بھی حرام ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''جس نے گناہ کے ذریعے مال کمایا اور اُس سے صلۂ رحمی کی یا صدقہ کیا یا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا (تو اس پر ثواب کی توقع تو درکنار) اُسے جہنم میں ڈالا جائے گا‘‘ (الترغیب و الترہیب: 2670)۔ علامہ شامی نے فتاویٰ ظہیریہ کے حوالے سے لکھا: ''ایک شخص نے فقیر کو حرام مال دیا اور اس پر اس نے ثواب کی امید رکھی، تو کافر ہو جائے گا اور اگر فقیر کو بھی اس کی بابت معلوم تھا (کہ یہ مالِ حرام ہے) اور اس نے اُس کے لیے دعا کی اور دینے والے نے آمین کہا، تو دونوں کافر ہو جائیں گے‘‘ (ردالمحتار، ج: 5، ص: 529، دمشق)، اس فقہی رائے کو شدید ترین تنبیہ سمجھا جائے۔
رسول اللہﷺ نے جس انسانی اثاثے سے انسانی تاریخ کا فقید المثال انقلاب برپا کیا، اس کے لیے سب سے پہلے افراد تیار کیے، ان کے نفوس کا تزکیہ کیا، ان کے قلوب و اذہان کو رذائل سے پاک کیا، اُن میں جوہرِ اخلاص کُوٹ کُوٹ کر بھرا، انہیں راہِ حق میں مشکلات کو برداشت کرنا سکھایا، پھر وہ آپﷺ کی تربیت کے سانچے میں ڈھل کر کُندن بن گئے۔ چشمِ فلک نے آج تک اتنا پاکیزہ انسانی معاشرہ نہیں دیکھا۔ ان میں انانیت نام کو بھی نہ تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص، مساعی اور کارناموں میں برکتیں عطا فرمائیں اور اپنی غیبی نصرت سے نوازا۔
پُرجوش نوجوان یقینا دینی تنظیمات اور تحریکات کا سرمایہ ہوتے ہیں، مگر جوش کو ہوش پر غالب نہیں آنے دینا چاہیے، جنون کو خِرد کے تابع ہونا چاہیے اور جذبات کو شریعت کی حدود کا پابند رکھنا چاہیے۔ ان کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ ان کو دیکھ کر لوگ دین کی طرف مائل ہوں، لبرل، مادر پدر آزاد، دین سے بیزار اور دیندار لوگوں کے رویوں میں فرق نمایاں نظر آنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کا نقّال نہیں، بلکہ اپنے عہد اور مابعد کے ادوار کے لیے آئیڈیل اور رول ماڈل بننا چاہیے، بعض لوگ دوسروں کے غلط رویوں کو اپنی غلطیوں کے لیے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں، یہ شِعار دین کی تعلیمات کے برعکس ہے۔ احادیث مبارکہ میں ہے: (1) حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم مقلّدِ محض (یعنی لکیر کے فقیر) نہ بنوکہ تم (دوسروں کی بداعمالیوں کو دیکھ کراپنے لیے جواز پیدا کرو اور) کہو: اگر لوگ (ہم سے) اچھا برتائو کریں گے، تو ہم بھی اُن سے اچھا برتائو کریں گے اور اگر وہ ہم پر زیادتی کریں گے، تو ہم بھی ان پر زیادتی کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو (خیر پر) جمائے رکھو کہ اگر لوگ تم سے اچھا برتائو کریں تو تم بھی اُن سے اچھا برتائو کرو اور اگر وہ زیادتی کریں تو تم (اس کے جواب میں کسی پر) زیادتی نہ کرو‘‘ (ترمذی:2007)، (2) ''حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے عقبہ! جو تجھ سے تعلق توڑے، تم اُس سے تعلق جوڑو اور جو (ضرورت کے موقع پر) تمہیں محروم رکھے، تم (اس کی ضرورت کے موقع پر) اُسے دو اور جو تم پر زیادتی کرے، اُسے معاف کر دو‘‘ (مسند احمد: 17452)۔
اسلام کسی مجرّد حقیقت یا تصوراتی ہیولے کا نام نہیں ہے، جس طرح انسان کی حقیقت حیوانِ ناطق یا حیوانِ عاقل کسی معیّن انسان کی صورت میں ڈھل کر نظر آتی ہے، اسی طرح اسلام بھی مسلمان کی شخصیت اور سیرت و کردار کے سانچے میں ڈھل کر نظر آتا ہے۔ آج کل مسئلہ یہی ہے کہ ہم قرآن و سیرت کے مثالی مسلمان کا مقابلہ اپنی معاصر دنیا کے چلتے پھرتے انسانوں سے کرکے اپنی برتری جتاتے ہیں اور دنیا پر غلبہ پانے کا خواب دیکھتے ہیں، ایسی خوبصورت خواہشات اور حسین خوابوں کی تعبیر پانا مشکل ہے، اس کے لیے ہمیں اپنے آپ کو اسلامی کردار میں ڈھالنا ہو گا، محض تاجدارِ کائناتﷺ کے بطنِ مبارک پر پتھر باندھنے یا حضرت عمر فاروقؓ کے لباس کی بابت مسجد نبوی میں سوال اٹھائے جانے کے واقعات سنانے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ اپنے کردار کو ان مثالوں میں ڈھال کر معاشرے کو مثالی بنانا ہوگا، ہماری بدنصیبی ہے کہ آج ایسی مثالیں کمیاب بلکہ کافی حد تک نایاب ہیں۔
علم کے فیضان اور روحانی اثرات و برکات کی راہ میں نفس پرستی، عُجب اور انانیت حائل ہو جاتی ہے، جبکہ علم تواضع سکھاتا ہے اور تکبر عَجز و تواضع کی ضد ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج کل بعض علما پر عُجب کا غلبہ ہو گیا ہے اور وہ اپنی انا کے خول میں بند ہیں۔ ہم نے بچپن میں فارسی کی پہلی کتاب شیخ سعدی کی ''کریما‘‘ پڑھی تھی، اُس کی ابتدا میں یہ شعر تھا:
تکبر عزازیل را خوار کرد
بہ زندانِ لعنت گرفتار کرد
ترجمہ: '' تکبر نے شیطان کو خوار کر دیا اور تاقیامت ملعون قرار پایا‘‘۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جس نے دین کا علم اس لیے حاصل کیا کہ علما پر فخر و مباہات کرے یا نادان جاہلوں سے (بے مقصد) بحث کرے یا لوگوں کے رخِ عقیدت کو اپنی جانب مائل کرے تو اللہ اُسے جہنم میں داخل فرمائے گا‘‘ ( ترمذی: 2654)۔
انانیت پر مبنی مناظرہ بازی نے دین کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا، جتنا دعوت بالحکمت اور موعظۂ حسنہ کے ذریعے پہنچا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے جدالِ احسن یعنی مہذّب و مدلّل بحث و تمحیص کو بھی آخری درجے میں رکھا ہے۔ قرآنِ کریم میں بعض انبیائے کرام علیہم السلام کے مناظرے مذکور ہیں، لیکن وہ تہذیب کے دائرے میں تھے اور کہیں بھی انانیت کا شائبہ نظر نہیں آتا تھا، بلکہ مقصد یہ ہوتا کہ کسی طرح سے حق کا پیغام لوگوں کے دل و دماغ میں جاگزیں ہو جائے، آج کل کے مناظرے تو فریقِ مخالف کی اہانت اور اپنی تعلّی کا مظہر ہوتے ہیں، اس لیے فیضان و تاثیر نہ ہونے کے برابر ہے، دعوت بالحکمت اور موعظۂ حَسَنہ سے مراد یہ ہے کہ دین کی بات اس انداز میں کی جائے کہ مخاطَب کے دل میں اتر جائے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
صحابۂ کرام میں بھی مسائل میں اختلاف ہوتا تھا، جب تک رسول اللہﷺ اُن کے درمیان موجود تھے، وہ ہر مسئلے میں آپﷺ سے رجوع کرتے اور آپ کا ارشاد قولِ فیصل ہوتا، اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح ہمارے ائمۂ کرام میں بھی مسائل پر بحث ہوتی تھی، بحث کی نوبت اس وقت آتی ہے جب کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ آراء ہوں اور ہر رائے کسی دلیل پر مبنی ہو، جس کی دلیل راجح اور قوی تر ہوتی، اُسے قبول کر لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک ابن انس، امام محمد بن ادریس شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین ایسے جلیل القدر ائمۂ کرام کی اپنے فقہی اقوال سے رجوع کی مثالیں کتبِ فقہ میں موجود ہیں۔ پہلے اُن کے سامنے ایک دلیل آئی اور کسی فقہی مسئلے میں ایک رائے قائم کی، پھر جب اُس سے راجح دلیل آئی تو اَنَانیت آڑے نہیں آئی اور پہلے قول سے رجوع کر لیا، پھر جب اُس سے بھی اَرجَح (راجح ترین) دلیل آئی تو اُسے اختیار کر لیا، اگر طرفین کی دلیلیں مساوی درجے کی ہوتیں تو بعض صورتوں میں وہ اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے، لیکن کوئی کسی پر کم علمی یا حق سے انحراف کا فتویٰ نہیں لگاتا تھا، نیز باہمی احترام بھی برقرار رہتا تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved