سوشل میڈیا کے فیورٹ‘ اسحق ڈالراور ملک کے ہر دلعزیز وزیرخزانہ جناب اسحق ڈار‘ غریب عوام کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مسلسل یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ان کی جماعت کو ووٹ دینے کے گناہگار عوام کو کہاں سے راحت مل رہی ہے؟ اور جیسے ہی انہیں پتہ چلتا ہے کہ کسی جھگی میں بلب جل رہاہے‘کوئی غریب بس میں بیٹھ کے اپنی ملازمت پر آنے جانے کا موقع حاصل کر رہا ہے یا کوئی بچہ چاکلیٹ سے لطف اندوز ہو رہا ہے‘ تو ان کی طبیعت فوراً مکدر ہو جاتی ہے۔ آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ سانسیں تیز ہو جاتی ہیں اور وہ اس وقت تک نارمل نہیں ہوتے‘ جب تک غریبوں کے ہاں دیکھی گئی ننھی ننھی خوشیوں کی کلیوں کو‘ مسل کر فارغ نہیں ہو جاتے۔ قارئین کو یاد دلا رہا ہوں کہ ڈار صاحب نے ‘ جب عوام پر پہلے بجٹ کی بمباری کی تھی‘ تو میں نے بچوں کو انتباہ کر دیا تھا کہ وہ آئس کریم یا چاکلیٹ کھاتے ہوئے‘ اپنے گھروں میں چھپ جائیں اور اس سے پہلے کھڑکیاں دروازے بند کر لیں تاکہ کسی طرف سے‘ چاکلیٹ یا آئس کریم کھاتے ہوئے بچے پر ڈار صاحب کی نظر نہ پڑ جائے۔ اگر کوئی بچہ ڈار صاحب کو‘ چاکلیٹ یا آئس کریم سے لطف اٹھاتا ہوا دکھائی دے گیا‘ تو پھر سارے بچوں کی خیر نہیں۔ وہ ایسا مالیاتی جادو دکھائیں گے کہ پھر بچہ کیا؟ بچے کا باپ بھی چاکلیٹ خریدنے کے خواب تک دیکھنا چھوڑ جائے گا۔ یا تو بچوں نے میری بات نہیں مانی یا بچوں کے والدین نے انہیں سمجھایا نہیںکہ ملک کا وزیرخزانہ کون ہے؟ ہونی‘ ہو کر رہی۔ ڈار صاحب نے کسی بچے کو چاکلیٹ کھاتے ہوئے خوش خوش دیکھ لیا اور اس کے بعد وہی ہوا‘ جو ہونا تھا۔ اب جو بچہ اپنے ابو سے چاکلیٹ مانگے گا‘ اسے باپ کی طرف سے ڈار صاحب کے نام پر جھڑکی ملے گی یا چپت۔ ڈار صاحب کے حاسدین کا یہ الزام سراسر غلط ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ہر طرف مہنگائی کے کانٹے اگا رہے ہیں۔ دکانداروں کو دہشت گرد بنا رہے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں میں بچھو رکھ رہے ہیں۔ جس سبزی یا دال میں ہاتھ مارو‘ بچھو لڑ جاتا ہے اور ہاتھ کی سوجن کئی دن ختم نہیں ہوتی۔ آئی ایم ایف اتنا بے رحم نہیں۔ اس کا کام دنیا کی نالائق حکومتوں کو پیسے دینا ہے تاکہ وہ مزید نالائقی کر کے‘ اس کے کاروبار کو چارچاند لگاتے رہیں۔ وہ ایک سرمایہ کار بنک ہے‘ جو مہاجن کی طرح مصیبت زدہ کسانوں اور دکانداروں کو قرضے دے کر‘ نہ صرف بھاری سود بٹورتا ہے بلکہ اپنے مالکوں کے سیاسی اور سٹریٹجک مفادات کو آگے بڑھانے کے راستے بھی ہموار کرتا ہے۔ وہ کبھی اپنے مقروض سے یہ نہیں کہتا کہ وہ عوام کو تکلیف پہنچائے۔ اسے صرف اپنے پیسے کا تحفظ اور منافع چاہیے اور پیسہ لگانے والے کے مفادات کا فروغ۔ آئی ایم ایف صرف یہ کہتا ہے کہ نالائق حکومتیں ‘ عوام سے وصولیوں کا نظام بہتر بنائیں تاکہ ان کی جیب سے پیسہ نکال کر‘ آئی ایم ایف کو دینے کے لئے جمع ہوتا رہے۔ آئی ایم ایف یہ کبھی نہیں کہتا کہ غریب کی جھگی میں بلب جلتا دیکھ کر بجلی مہنگی کر دو یا بچے کو چاکلیٹ کھاتے دیکھ کر‘ اس کے باپ کی جیب میں پٹاخہ پھاڑ دو۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے‘ ان سے ٹیکس وصول کرو۔ جو بجلی چوری کرتے ہیں‘ ان سے بل کی رقمیں نکالو اور جو لوگ کرپشن کرتے ہیں‘ ان کے ہاتھ روکو۔ ڈار صاحب ایسا کریں‘ تو برادری میں ان کا حقہ پانی بند ہو جاتا ہے۔ جتنے سرمایہ دار ہیں‘ وہ کوئی نہ کوئی ہیرپھیر ضرور کرتے ہیں۔ یہ بات میں نہیں کر رہا بلکہ موجودہ حکمرانوں میںدوسرے نمبر پر جو شخص سب سے زیادہ طاقتور ہے‘ اس نے ایک موقع پر مجھے بتایا تھا کہ پاکستان میں وہ سرمایہ دار کام ہی نہیں کر سکتا‘ جو اپنے بہی کھاتے ٹھیک بنائے۔اسے کچھ نہ کچھ ہیرپھیر کر کے‘ نفع کمانے کی گنجائش نکالنا پڑتی ہے‘ورنہ یہاں کی بیوروکریسی کسی کے لئے جائز طریقوں سے نفع کمانے کی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ اگر اس آبزرویشن کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیا جائے‘ تو سرمایہ دار بیچارے مجبور ہیں۔ بیوروکریسی انہیں ایمانداری سے کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ انہیں بیوروکریسی کا پیٹ بھرنے کے لئے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے۔ اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کر کے اتنا کچھ کمانا پڑتا ہے‘ جس سے بیوروکریسی کے مگرمچھوں بلکہ مینڈکوں تک ہر ایک کا پیٹ بھرجائے۔ کلرک ہو یا گریڈ 22 کا افسر‘ وہ ہر وقت مینڈک اور مگرمچھ کی طرح منہ کھول کر گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور کاروباری لوگوں کو ہر وقت روپوں کے بیلچے بھر بھر کے ان کے منہ میں ڈالنا پڑتے ہیں۔ سرمایہ داروں کی دکھ بھری کہانیاں سنی جائیں‘ تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔دل سے ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔دل رائج الوقت نظام سے بیزار ہو جاتا ہے۔ چاروں طرف اندھیرا چھانے لگتا ہے اور کاروباری لوگوں کو دادشجاعت دینا پڑتی ہے کہ وہ کیسے نامساعد حالات میں کاروبار کر کے‘ ہر طرف منہ کھول کر بیٹھے مینڈکوں اور مگر مچھوں کے پیٹ بھرتے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ بچتا ہے‘ اس سے اپنے گھر کی دال روٹی چلاتے ہیں۔ ظاہر ہے ‘ ڈار صاحب کا تعلق اسی مظلوم طبقے سے ہے۔ جب آئی ایم ایف کی طرف سے دبائو پڑتا ہے کہ وہ پاکستان کے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں سے ٹیکس وصول کریں‘ تو ڈار صاحب کا ہمدردی سے بھرا ہوا دل یہ بات نہیں مانتا۔ وہ مینڈکوں اور مگرمچھوں کا پیٹ بھربھر کے‘ جینے والے دکھی لوگوں پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے‘ مضبوط جسموں والے مزدوروں اور کسانوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ انہیں ان کی صحت پر رشک آتا ہے۔ محنت اور مشقت سے بنے ہوئے مضبوط پٹھے ‘ ڈار صاحب کو حوصلہ دیتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ ان کے جسموں میں مزیدبوجھ برداشت کرنے کی بے پناہ قوت موجود ہے۔ انہیں محنت کشوں کے کچے گھروندے اور ملازمت پیشہ بابوئوں کے چاکلیٹ کھانے والے بچے اور ان کے چھوٹے سے خستہ گھروں کا خیال نہیں آتا۔ کیونکہ انہوں نے نہ وہ آبادیاں دیکھی ہیں‘ جہاں غریب لوگ بستے ہیں اور نہ ان پسماندہ بستیو ں میں وہ کبھی گئے ہیں‘ جہاں کی تنگ و تاریک گلیوں کے راستے‘ بجری تارکول یا اینٹ روڑوں سے پختہ کئے گئے ہوں۔ یہ گلیاں گندے پانی سے بھری ہوتی ہیں۔ ان میں چلنے کے لئے اگر جوتوں کو پانی میں ڈوبنے سے بچانا ہو تو انہیں اتار کے ہاتھ میں پکڑنا پڑتا ہے۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ بنی نالیوں میں گھروں سے نکلنے والے صاف پانی کے بہنے کا بھی انتظام رکھنا پڑتا ہے تاکہ اس میں ڈینگی مچھر پروان چڑھ سکیں اور خادم اعلیٰ کے لئے عوام کی مزید خدمت کرنے کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ ڈار صاحب کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے‘ تو ان کا کام بہت مشکل ہے۔ انہیں آئی ایم ایف کو بھی خوش رکھنا ہوتا ہے۔ اپنے طبقے کے مظلوموں کو زندگی کے بے رحم تھپیڑوں سے بچانا بھی ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف اور مظلوموں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے‘ انہیں مختلف کھاتوں سے رقمیں بھی بچانا پڑتی ہیں۔ فوج کے حصے پر وہ ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ بیوروکریسی کی جیبوں میں جانے والی دولت کو چھونے کی انہیں اجازت نہیں۔ اراکین پارلیمنٹ اور وزیروںکے گھروں کی طرف دولت کے جو جھرنے جا رہے ہیں‘ ان پر وہ روک نہیں لگا سکتے۔ ان کی حالت روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے اس پرانے اکائونٹنٹ کی طرح ہے‘ جو ہمیں اپنے ادارے کا وزیرخزانہ لگتا تھا۔ہم اپنے مہینے کے دنوں کا شمار تنخواہ کے حساب سے کیا کرتے۔ کبھی ہمیں تنخواہ 65 تاریخ کو ملتی اور کبھی 75 کو اور جب مہینے کی تاریخیں 80 سے بھی بڑھنے لگتیں‘ تو ہم اس کے انسانی جذبات کو بیدار کرنے کی خاطر‘ طرح طرح کے دردبھرے واقعات سنایا کرتے اور وہ ہر ایک کی دردبھری باتیں سن کر ایک ہی فلسفیانہ جواب دیا کرتا ’’کی کراں؟ کتھوں لیاواں؟‘‘ڈار صاحب کی حالت دیکھ کر مجھے وہ اکائونٹنٹ یاد آ جاتا ہے اور ڈار صاحب تو چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں۔ پاکستان کا وزیرخزانہ ہونا واقعی بڑا مشکل کام ہے۔ وہ بچوں کے چاکلیٹ نہیں چھینے گا‘ جھگی میں جلتا ہوا بلب دیکھ کر نہیں سٹپٹائے گا‘ غریبوں کے گھر میں روٹی پکتی دیکھ کر نہیں تلملائے گا‘ تو اور کیا کرے گا؟ مجھے غریبوں سے بہت ہمدردی ہے۔ ڈار صاحب بھی غریبوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ کوئی اور انہیں اپنی جیب سے پیسہ نکالنے نہیں دیتا۔ ڈار صاحب ‘ غریب کی جیب پر ہاتھ نہ ڈالیں‘ تو اور کیا کریں؟ کوئی ڈار صاحب کے جوتے پہن کر دیکھے۔ اگر اس کا دل بھاگ جانے کو نہ چاہے‘ تو وہ احمق ہے۔ کچھ اور نہیں تو جوتا ہی سہی۔ وہ بھی ڈار صاحب کا؟ میاں صاحب کی گھڑی جتنا قیمتی تو ہو گا ہی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved