دنیا بھر میں کاروباری ادارے اُسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہو پاتے ہیں جب اُنہیں لیڈر میسر ہوں۔ قیادت ہر ایک کے بس کی بات نہیں ع
یہ اُس کی دَین ہے‘ جسے پروردگار دے
عمومی سطح پر لیڈر اور منیجر یا ایڈمنسٹریٹر کے فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ایک اچھا منیجر ناگزیر طور پر اچھا لیڈر نہیں ہوتا۔ کسی بھی منیجر کا بنیادی کام دستیاب وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے چیزوں کو کسی نہ کسی طور manage کرنے تک محدود ہوتا ہے۔ کسی بھی منیجر سے بالعموم یہ توقع نہیں رکھی جاتی کہ وہ غیر معمولی بصیرت کا بھی حامل ہو اور ادارے کو آگے لے جانے کے لیے موزوں ترین مشوروں سے نوازے، کچھ ایسا سوچے اور کرے جو پیش رفت ممکن بنائے۔ دنیا بھر میں منیجرز ناگزیر طور پر لیڈرز سے الگ ہوتے ہیں اور اُنہیں اُن کی حدود میں رکھ کر دیکھا اور جانچا جاتا ہے۔ ایک اچھا منیجر دستیاب وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے حصے کا کام عمدگی سے انجام دے کر ادارے کی کارکردگی بہتر بناسکتا ہے، منافع کی شرح بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے؛ تاہم وہ ادارے کے لیے ایسی راہ کا تعین نہیں کرسکتا جو طویل المیعاد بنیاد پر ادارے کیلئے منزل کی طرف سفر آسان بنائے۔ منیجر پر اس حوالے سے اخلاقی ذمہ داری بھی عائد نہیں ہوتی۔
جس طور کسی قوم کے لیے لیڈر ناگزیر ہوتے ہیں بالکل اُسی طور کسی بھی کھیل کی ٹیم اور کاروباری و غیر کاروباری اداروں کیلئے بھی لیڈر لازم ہوتے ہیں۔ لیڈر ہی طے کرتے ہیں کہ کس طور آگے جانا ہے۔ وہ اپنی بصیرت سے ادارے کو نئی راہیں دکھاتے ہیں، اُن کیلئے پیش رفت ممکن بناتے ہیں، زمانے سے ہم آہنگ رہتے ہوئے کام کرنے کی گنجائش پیدا کرتے ہیں اور یوں ادارے یا ٹیم کیلئے پنپتے رہنا ممکن ہو پاتا ہے۔ دنیا بھر میں نظمیاتِ کاروبار اور دیگر متعلقہ امور پر لکھنے والے اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ لیڈر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے۔ ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے اداروں اور ٹیموں کو دیکھ سکتے ہیں جو اپنے لیڈرز کی بدولت کامیابی سے ہم کنار یا ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ کسی بھی ٹیم کیلئے لیڈر آگے بڑھنے کی بھرپور لگن کے حصول کا بنیادی یا کلیدی ذریعہ ہوتا ہے۔ لیڈر اگر پُرجوش ہو، بصیرت کا حامل ہو اور اپنے حصے کا کام پورے اِخلاص و لگن سے کرتا ہو تو ناکامی قریب نہیں آسکتی۔ لیڈر ہی تو طے کرتا ہے کہ ٹیم یا ادارے کو کب کون سی راہ منتخب کرنی ہے، کس رفتار سے آگے بڑھنا ہے اور ایسا کیا کرنا ہے جس کی مدد سے بھرپور کامیابی کا حصول ممکن بنانا آسان ہو۔ ایک اچھے منیجر کو لیڈر بنانا آسان نہیں ہوتا۔ منیجر کا ذہن الگ سانچے کا ہوتا ہے۔ وہ لمحۂ موجود تک محدود رہتا ہے۔ لیڈر کے ذہن کا کینوس بڑا ہوتا ہے۔ وہ بہت کچھ سوچ سکتا ہے، آنے والے دنوں کے بارے میں بھی قدرے درست رائے قائم کرسکتا ہے۔ منیجر کا بنیادی کام موجودہ معاملات کو درست کرنے تک محدود ہوتا ہے۔ لیڈر کو بہت آگے جانے کے بارے میں سوچنا اور ادارے یا ٹیم کو تیار کرنا ہوتا ہے۔
لیڈر بنائے نہیں جاسکتے۔ قیادت کا وصف فطری طور پر پایا جاتا ہے۔ جو قیادت کرسکتے ہیں اُن کی فطری صلاحیت بہت چھوٹی عمر سے دکھائی دینے لگتی ہے۔ اُن میں اعتماد ہی الگ نوعیت کا ہوتا ہے۔ لیڈر کا حقیقی اور بنیادی وصف محض راہ دکھانا نہیں بلکہ راہ کا تعین بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی بصیرت کی مدد سے ایسا بہت کچھ دیکھ سکتا ہے جو ابھی واقع ہوا ہی نہیں۔ یہ وصف فطری تو ہوتا ہے؛ تاہم اِسے بھرپور مشق و مشقّت کے ذریعے پروان بھی چڑھانا پڑتا ہے۔ قائدانہ صلاحیت کم و بیش ہر انسان میں کسی نہ کسی حد تک ضرور پائی جاتی ہے؛ تاہم کچھ لوگوں میں یہ زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ یہ احساس کا معاملہ بھی ہے۔ اگر کسی کو یہ محسوس ہو جائے کہ خدا نے اُسے قائدانہ صفت سے نوازا ہے تو وہ اِس صفت کو صلاحیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی راتوں رات لیڈر نہیں بن جاتا۔ لازم ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ اپنے وجود کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر توجہ دی جائے۔ پڑھنے اور سوچنے کے معاملے میں سنجیدگی انسان کو آگے بڑھاتی ہے اور یوں وہ دوسروں کو آگے لے جانے کے قابل ہو پاتا ہے۔
ماحول بھی انسان کو قائدانہ کردار کے لیے تیار کرتا ہے۔ کسی بھی ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو کچھ لوگوں کو بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ بالکل گئے گزرے ماحول میں بھی بہت سے لوگوں کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کوئی مستفید ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔ ماحول سے استفادہ کرنے کا وصف ہر انسان میں نہیں پایا جاتا۔ جو لوگ بلیغ نظر اور اپنے آپ کو کسی بڑے کردار کے لیے تیار کرنے کا عزم رکھتے ہیں وہ اَن تھک محنت کے ذریعے بہت کچھ کر پاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماحول میں تو کچھ زیادہ دم نہیں ہوتا؛ تاہم اُسی ماحول سے کوئی ابھرتا ہے اور اُسے تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ یہ پورا کھیل ذوق و شوق اور سنجیدگی کا ہے۔ جس میں کچھ ہوتا ہے اُسے اپنی اہمیت کا احساس بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں قائدانہ رجحان اور صلاحیت کے حامل افراد خال خال ہیں۔ حقیقی قائدانہ صلاحیت کے حامل افراد کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ ماحول میں کچھ بھی ناموافق پاتے ہیں تو چڑ جاتے ہیں اور اپنی راہ سے ہٹ کر چلنے لگتے ہیں۔ جنہیں قیادت کے لیے خلق کیا گیا ہو اُنہیں اپنی اہمیت اور کردار کا احساس ہونا ہی چاہیے۔ قیادت کے وصف کو پروان چڑھانے پر توجہ دیے بغیر کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوا جاسکتا۔
کسی بھی شخص کو اُس کی بھرپور قائدانہ صلاحیت کے ساتھ قبول کرنے کی صورت ہی میں کوئی حقیقی مثبت تبدیلی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں ایک بنیادی خرابی یہ ہے کہ لوگ لیڈر کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ جب کسی کی بصیرت تسلیم نہ کی جائے، اُس کی بات نہ مانی جائے اور اُس کے اوصاف سے مستفید ہونے پر آمادگی ہی ظاہر نہ کی جائے تو خرابیوں کا جڑ پکڑنا فطری امر ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر سرکاری اور نجی‘ دونوں طرح کے کاروباری ادارے اپنی سکت کے مطابق کام نہیں کر پاتے۔ جب کسی میں قائدانہ صلاحیت دکھائی دے جائے تو اُس سے مستفید ہونے میں ہچکچاہٹ یا اَنا کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیڈر کی سی بالغ نظری ہر ایک میں نہیں ہوتی۔ ادارے اُسی وقت پروان چڑھتے ہیں جب لیڈر پر پورا بھروسا رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا ذہن بنایا جاتا ہے۔ اگر کسی میں قائدانہ صلاحیت نمایاں طور پر دکھائی دے تو ذاتی پرخاش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اِس جوہر سے مستفید ہونے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ اداروں پر بُرا وقت اُس وقت آتا ہے جب لیڈر سطحی نوعیت کے ہوں یا پھر اعلیٰ درجے کے لیڈر کو پورے من سے قبول نہ کیا جائے۔ ورکرز کی اندرونی لڑائی اداروں کو لے ڈوبتی ہے۔ جب لوگ ادارے کے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر صرف ذاتی مفاد کے دائرے میں رہتے ہوئے سوچنے کے عادی ہوجائیں تو ادارے کا پنپنا کسی طور ممکن نہیں رہتا۔ ادارے کے لیے خیر تو اِس امر میں مضمر ہے کہ لیڈر کو قبول کیا جائے، اُس کی بصیرت پر بھروسا رکھتے ہوئے اُس کی بات مانی جائے اور ادارے کے مفاد کو ہر شے پر مقدم رکھا جائے۔
کسی کی قائدانہ حیثیت کو قبول کرنے کا کلچر ہمارے ہاں ڈھنگ سے اب تک پروان نہیں چڑھایا جاسکا۔ لیڈر کے طے کردہ گیم پلان کے تحت ہی کھیلنا سُود مند ثابت ہوتا ہے۔ کسی بھی ادارے کے لیے جو گیم پلان تیار کیا جائے وہ سب کو قبول ہونا چاہیے۔ ہاں، کوئی خرابی دکھائی دے تو نشاندہی کے ذریعے اُسے دور کیا جاسکتا ہے۔ بہر کیف‘ اہمیت اِس بات کی ہے کہ لیڈر پر بھروسا رکھتے ہوئے آگے بڑھا جائے اور غیر ضروری طور پر انفرادی حیثیت میں کوئی بڑا قدم نہ اٹھایا جائے۔ لیڈرز کو قبول کرتے ہوئے اُن کی بصیرت پر بھروسا رکھنے کے فوائد دیکھنے ہوں تو ترقی یافتہ معاشروں‘ بالخصوص یورپی معاشروں کو دیکھا جائے اور اُن سے بہت کچھ سیکھا جائے۔ ایشیا میں جاپان کے بعد اب چین بھی قائدانہ صلاحیت کی اثر پذیری کی ایک اچھی مثال ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved