امام اعظم ابوحنیفہؒ کے جلیل القدر شاگردوں امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم اور امام محمد بن حسن شیبانی کی امام اعظم سے بعض مسائل میں اختلافی آراء منقول ہیں، لیکن اس سے اپنے امام اور استاذ گرامی کی تعظیم میں کوئی فرق نہ آیا، بلکہ امام اعظم نے خود اپنے شاگردوں کو یہ حق دے رکھا تھا کہ وہ قائل کی ذات کو نہ دیکھیں، دلیل کی قوت کو دیکھیں۔
صحابۂ کرام جو مکتبِ نُبوّت سے تربیت یافتہ تھے، وہ دین کے مسائل کا جواب دینے میں کس قدر محتاط تھے، مندرجہ ذیل حدیث سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے: ''حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے سوال ہوا: ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا، ابھی نہ اُس سے ازدواجی تعلق قائم ہوا تھا اور نہ مہر مقرر ہوا تھا کہ اس عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فوراً جواب نہ دیا، بلکہ توقف کیا اور وہ لوگ ایک مہینے تک یا کئی باراُن کے پاس جواب معلوم کرنے کے لیے آتے رہے، تو (طویل سوچ بچار کے بعد) انہوں نے جواب دیا: میں کہتا ہوں: اُسے دوسری عورتوں کی طرح پورا مہر ملے گا، نہ کم نہ زیادہ، اُسے شوہر کی میراث بھی ملے گی اور اُس پر عدتِ وفات بھی ہو گی، (پھر انہوں نے کہا:) اگر یہ جواب درست ہے تو یہ اللہ کی توفیق سے ہے اور اگر (بالفرض) یہ جواب غلط ہے تو میری طرف سے ہے اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے بَری ہیں، اس موقع پر اشجع کے کچھ لوگ اٹھے، اُن میں جَرّاح اور ابوسنان بھی تھے، انہوں نے کہا: اے ابن مسعود! ہم گواہی دیتے ہیں: ''بِرْوَع بِنْتِ وَاشِق‘‘ اور ان کے شوہر ''ہِلَال بِن مُرَّۃ اَشْجَعِی‘‘ کے ساتھ یہی صورتِ حال پیش آئی تھی، تو رسول اللہﷺ نے مسئلہ اسی طرح بتایا تھا، جس طرح آپ نے بتایا ہے، راوی بیان کرتے ہیں: یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بہت خوش ہوئے کہ اُن کا فیصلہ رسول اللہﷺ کے فیصلے کے موافق ہوا‘‘ (ابودائود: 2116)۔ اس سے معلوم ہوا: صحابۂ کرام کے دل میں اللہ کا کتنا خوف تھا اور وہ شریعت کا مسئلہ بتانے میں کس قدر محتاط تھے، اگر انہوں نے رسول اللہﷺ سے براہِ راست ایسا مسئلہ نہ سنا ہوتا تو پوری سوچ بچار کے بعد اپنے اجتہاد سے جواب دیتے اور یہ واضح کر دیتے کہ اگر یہ جواب درست ہے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہے اور اگر خدا نخواستہ خطا ہے، تو اس کی ذمہ داری اُن پر عائد ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّمﷺ اس سے بَری ہیں۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو، جس کا براہِ راست کتاب و سنّت میں جواب دستیاب نہ ہو اور ائمۂ سابقین سے بھی کوئی روایت ثابت نہ ہو تو فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے، بلکہ بحث و تمحیص، غور و خوض، تلاش و جستجو اور عمیق فکر و نظر کے بعد فتویٰ دیا جائے، نیز اپنے ہم عصر اہلِ فتویٰ سے بھی مشاورت کر لی جائے، اُس کے بعد خطا کے امکان کو ردّ نہ کیا جائے، کیونکہ خطا سے مُبَرّا صرف شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہی ہو سکتا ہے۔ اہلِ فتویٰ صحابۂ کرام، تابعین عظام اور ائمۂ مجتہدین کا یہی طرزِ عمل تھا کہ پوری دلجمعی کے ساتھ کتاب و سنت میں مسئلہ تلاش کرتے، خلفائے راشدینؓ کے اقوال کا پتا چلانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرتے، مکمل جد و جہد اور اجتہاد کے بعد جب اطمینان ہو جاتا تو فتویٰ دیتے تھے، الغرض اسلاف کا فتویٰ دینے کا یہی شِعار تھا۔ ایسے مسائل جو کتاب و سنّت میں منصوص نہیں ہیں اور خلفائے راشدین و صحابۂ کرام سے منقول نہیں ہیں، نیز تمام تر ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے راجح دلائل کے ساتھ اپنے معاصرین یا سابقین سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ خطا سے معصوم کوئی بھی نہیں ہے، امکانِ خطا کا یہ معنی نہیں کہ ہر ایک سے ہمیشہ خطا واقع ہوتی ہے، ہمارے اکابر کے اکثر اجتہادی مسائل صائب آراء پر مشتمل ہیں اور آج بھی ہم ان کی تقلید کرتے ہیں۔
بعض اوقات جب ایک مسئلے میں دو رائے آ جائیں تو ضروری نہیں کہ ایک صواب اور دوسری خطا ہو، بلکہ بعض اوقات دونوں آراء صحت پر مبنی ہوتی ہیں، ایک راجح اور دوسری مرجوح ہوتی ہے یا مجتہد اپنی رائے میں ایک کو صائب سمجھتا ہے، اُس میں کسی ذاتیات یا عِناد کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ تمسخر و استہزا اور مخالف کی بے ادبی کرنا جہالت کی علامت ہے؛ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جب قوم نے ایک مقتول کے قاتل کو معلوم کرنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے فرمایا: ایک گائے ذبح کر کے اس کا گوشت مقتول کے بدن کے ساتھ مَس کرو، وہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کی بابت بتا دے گا، اس پر بنی اسرائیل نے کہا: ''کیا آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں‘‘، یعنی گائے کے ذبح کرنے کا مقتول کے زندہ کیے جانے سے کیا تعلق ہے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ''میں اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ نادانوں میں شامل ہو جائوں‘‘، پس تمسخر کرنا جاہلوں کا کام ہے، علماء کے لیے مناسب نہیں کہ تمسخر کریں، کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے۔ پس علماء کے درمیان دلائل کی بنیاد پر رائے کا اختلاف یا کسی اور عالم سے مسلکی اختلاف اور چیز ہے اور بے ادبی اور چیز ہے، بے ادبی کسی حالت میں جائز نہیں ہے، دلائل کی بنیاد پر اختلاف جائز ہے۔
اختلاف کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو، اس میں سنجیدگی، متانت اور وقار چاہیے۔ لڑائی، جھگڑا، گالی گلوچ اور طعنہ زنی سے بچنا لازمی ہے، یہاں تک کہ کفر و شرک اور بدعت و ضلالت کے حامیوں سے اعلانِ برأت تو ضروری ہے، لیکن ان کے ساتھ بھی بحث و مباحثے میں تند و تیز اور تکلیف دہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا لازمی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان کے ساتھ اَحسن طریقے سے بحث کرو‘‘ (النحل: 125)۔ کیونکہ مقصدِ حق کی تفہیم اور تبلیغ ہے، اس کے لیے نرم خوئی، دل جوئی، شفقت اور ہمدردی، خوبصورت اندازِ بیان اور مشفقانہ لب و لہجہ ہی مفید ہے۔ درشتی اور تلخی، بداخلاقی اور سخن پروری اس راہ میں نہایت مضر اور بے نتیجہ ہے، دل آزار اور جگر خراش باتوں کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون جیسے سرکش اور گمراہ کے پاس حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو دعوتِ حق کے لیے بھیجتے ہوئے حکم فرمایا: ''تم دونوں فرعون کے پاس جائو، کیونکہ وہ سرکش ہو گیا ہے، پس نرم لہجے میں بات کرو، شاید وہ نصیحت قبول کر لے اور اُس کے دل میں خَشیتِ الٰہی پیدا ہو جائے‘‘ (طہ: 43 تا 44)۔ فرعون کے متعلق اللہ تعالیٰ کو تو یقینی علم تھا کہ وہ راہ راست پر نہیں آئے گا، اس کے باوجود معصوم انبیاء کو تلقین کی جا رہی ہے کہ اس سے نرمی سے بات کرو، ظاہر ہے کہ ہم میں سے کوئی پیغمبرسے بڑھ کر ہمدرد اور مصلح نہیں ہو سکتا اور نہ اسے معلوم ہے کہ اس کا مخاطَب ہر صورت میں باطل پر قائم رہے گا، توعام حالات میں سخت اور دل آزار گفتگو کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے۔
جنگ جَمَل میں حضرت طلحہؓ، حضرت علیؓ کے مقابل لشکر میں شامل تھے، وہ اسی جنگ میں شہید ہوئے، ان کے صاحبزادے حضرت عمرانؓ جب حضرت علیؓ کے پاس آئے تو اپنے قریب بٹھاکر فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اور تمہارے والد کو ان لوگوں میں شامل کریگا جن کے بارے میں قرآن میں ہے: ''اور ان کے دلوں میں جو رنجشیں ہوں گی، ہم ان سب کو نکال دینگے، (وہ) مَسندوں پر بھائیوں کی طرح آمنے سامنے بیٹھے ہونگے‘‘ (الحجر:47)، اس محفل میں موجود دو شخص کہنے لگے: یہ دیکھو! کل تک تو آپس میں لڑتے رہے اور جنت میں جاکر بھائی بن جائینگے، کہا: انصاف پر مبنی اللہ کا فیصلہ ایسا ہو سکتا ہے، یہ سن کر حضرت علیؓ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: تم دونوں میرے ساتھ رہنے کے لائق نہیں ہو، یہاں سے اٹھو اور کہیں اور چلے جائو، اگر میں اور طلحہؓ ایسے نہیں ہونگے تو پھر کون ہو گا؟‘‘ (ادب الخلاف، ص: 25)۔
حج کے موقع پر رسول اللہﷺ چار رکعت والی نماز کو مسافر ہونے کی وجہ سے دور کعت پڑھا کرتے تھے، حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمر فاروقؓ کا بھی یہی طریقہ تھا، خلافت کے بعد کچھ سالوں تک حضرت عثمان غنیؓ بھی اسی پر عمل کرتے رہے، لیکن پھر انہوں نے چار رکعت پڑھنا شروع کر دیا، صحابہ کرام میں سے بہت سے صحابہ نے اس سلسلے میں ان پر تنقید کی، ان میں سرفہرست حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تھے، لیکن جب نماز شروع ہوئی تو وہ بھی شامل ہو گئے اور چار رکعت ادا کی، اُن سے اس کی بابت سوال ہوا توفرمایا: '' لڑنا جھگڑنا بری بات ہے‘‘ (مصنف عبدالرزاق: 4269)، یعنی اختلاف اور تنقید اپنی جگہ، لیکن اسے افتراق اور انتشار کا ذریعہ بنا لینا اور دوسروں پر اپنی رائے مسلّط کرنا درست نہیں ہے۔
حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے درمیان ایک مسئلے میں شدید اختلاف تھا، اس کے باوجود حضرت عبداللہؓ نے ایک دن حضرت زیدؓ کو سواری پر دیکھا تو اس کی لگام پکڑکر چلنے لگے، حضرت زیدؓ نے کہا:اے عم زادِ رسول! اسے چھوڑ دیجیے، انہوں نے کہا: نہیں! ہمیں اہل علم اور بڑوں کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت زیدؓ نے کہا: اچھا اپنا ہاتھ دکھلائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو حضرت زیدؓ نے اسے بوسہ دیا اور کہا: ہمیں اہلِ بیت کے ساتھ ایسا ہی کرنے کاحکم دیا گیا ہے اور جب ان کا انتقال ہوا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: علم اسی طرح اٹھتا جائے گا، آج علم کا ایک بڑا حصہ زمین میں دفن ہو گیا۔ (ادب الخلاف: 25)
حضرت امیرِ معاویہؓ سے ایک مسئلہ دریافت کیا گیا: ''ایک شخص نے کسی کو اپنی بیوی سے بدکاری کرتے دیکھا اور غصے سے بے قابو ہوکر اُسے قتل کر دیا‘‘، حضرت معاویہؓ کو یہ مسئلہ حل کرنے میں مشکل پیش آئی، کیونکہ یہ مسئلہ ان کے سامنے پہلی بار آیا تھا، قاتل کی سزا اگرچہ قصاص ہے، لیکن یہ قتل جن حالات میں صادر ہوا، اُسے نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پس اُنہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو خط لکھاکہ وہ حضرت علیؓ سے اس مسئلے کی بابت دریافت کریں، پس حضرت علیؓ نے اُنہیں اس کا جواب عنایت فرمایا‘‘ (موطا امام مالک: 2731)، یہ سب کو معلوم ہے کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین اختلافات تھے اور جنگیں بھی ہوئیں، لیکن دینی مسئلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرنے میں انہوں نے کوئی عار محسوس نہیں کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے سے بڑا عالم سمجھ کر اُن کی طرف رجوع کیا اور اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے میں کوئی تردّد نہیں کیا۔ پس کیا ہم بھی اپنے کسی مخالف کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved