تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     29-10-2023

چین فلسطینیوں کیلئے توانا آواز کیسے؟

جنگوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ہے۔ معمولی باتوں پر شروع ہونے والی جنگیں ہزاروں لاکھوں جانوں کے ضیاع کا باعث بنیں۔ معصوم و بے گناہ لوگ جنگ کا ایندھن بنتے رہے‘ تاریخ میں وحشت کی ایسی داستانیں بھی ملتی ہیں جب انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر کے اپنی فتح کا اعلان کیا گیا۔ اسلام نے تو انسانیت کے تقدس کی خاطر بہت پہلے جنگی اصول متعارف کرا دیئے تھے جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اسلام جنگ کے دوران بھی خواتین‘ بچوں اور بزرگوں کے احترام کا حکم دیتا ہے۔ بیمار‘ زخمی‘ معذور‘ اندھے‘ سیاحوں اور عبادت گاہوں کے مجاوروں کا مکمل تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح جنگ کے دوران قتلِ عام سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمﷺ نے پہلے سے ہدایت فرما دی تھی کہ کسی زخمی پر حملہ نہ کرنا‘ جو کوئی جان بچا کر بھاگے اس کا پیچھا نہ کرنا اور جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے‘ اسے امان دینا۔
اقوام متحدہ کا قیام اکتوبر1945ء میں معرضِ وجود میں آیا تاہم بعض مؤرخین کے مطابق اس سے دو سو برس قبل جنیوا معاہدوں کے تحت انسانی حقوق کے پیش نظر جنگی قوانین بنائے گئے‘ وقت کے ساتھ ساتھ ان قوانین میں اضافہ و ترمیم ہوتی رہی جس میں ہسپتال‘ سکول‘ عام شہری‘ امدادی کارکن اور ہنگامی مدد کیلئے محفوظ راستوں کی فراہمی کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا‘ مگر جب دو فریقوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو بالعوم جنگی قوانین کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا اور بے گناہ و معصوم شہری جنگ کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ آج بہت سے لوگ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر مصلحت کی چادر اوڑھ کر خاموش ہیں‘ مگر انہیں یاد ہونا چاہئے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیلی ریاست کے بارے کہا تھا کہ ''یہ امت کے قلب میں خنجر گھونپا گیا ہے‘ یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔
سات اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والا تنازع اب تک ہزاروں جانیں نگل چکا ہے‘ غزہ کی پٹی کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے محفوظ رہا ہو۔ چند روز پہلے جہاں 23 لاکھ لوگ آباد تھے آج وہ جگہ کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے‘ لاکھوں افراد کھانے‘ پینے اور ایندھن کی ضرویات سے محروم ہیں‘ درجنوں مساجد کو مسمار کر دیا گیا‘ اقوام متحدہ کے امدادی کیمپ حتیٰ کہ ہسپتال تک اسرائیل کی بمباری سے محفوظ نہیں ہیں۔ اسرائیل انتقام کی آگ میں اندھا ہو کر جنگ کے قوانین کو پسِ پشت ڈال رہا ہے۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کا خیال رکھنے اور جنگی قوانین کو پامال نہ کرنے پر بیانات جاری کرتا ہے‘ مگر اسرائیل اقوام متحدہ کو خاطر میں کب لاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی کون سنے گا؟
اسرائیل کے جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے پھیلاؤ کے خدشات موجود ہیں‘ اس اسرائیل و فلسطین جنگ میں مسلم ممالک کے برعکس روس خصوصاً چین کا کردار اہم اور واضح ہوتا جا رہا ہے۔ جو پانچ ممالک اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھتے ہیں ان میں چین اور روس کا کردار ہمیشہ سے اہم ترین رہا ہے۔ دو دن قبل امریکہ نے اسرائیل کو فائدہ پہنچانے کیلئے ایک قرار داد پیش کی‘ جس میں اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہونے پر زور دیا گیا تھا‘ تاہم چین اور روس نے مؤثر سفارت کاری کے ذریعے ویٹو پاور سے اسے ناکام بنا دیا‘ اس سے قبل بھی چین نے فلسطین پر ظلم و تشدد اور جنگ کے خاتمے میں ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے اور اس کی وجہ چینی صدر شی جن پنگ کی گلوبل سکیورٹی انیشی اٹیو پر عمل ہے۔ چینی قیادت جی ایس آئی کے تحت دنیا میں امن اور تنازعات کے خاتمے کی خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں چینی صدر اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کا کردار ہمیشہ سے قابلِ تعریف رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے میں چین کا عالمی ثالث کا کردار بے حد قابل ِاحترام اور مثالی رہا اور چین دنیا کے نقشے پر ایک گلوبل امن مذاکراتی ملک کے طور پر ابھرا۔ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے میں بھی چین کا کردار انتہائی اہم اور مثبت رہا ہے۔ چونکہ چین عرب جنگ میں براہ راست فریق نہیں اس لئے جنگ بندی اور امن میں چین بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ چین کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں اور عرب دنیا بھی چین کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے جبکہ دوسری طرف روس‘ امریکہ‘ ترکی اور ایران سمیت عرب ممالک سب اسرائیل عرب تنازعے میں براہ راست فریق ہیں اس لئے چین جیسی عالمی قوت اور امن پسند ملک ہی بہترین ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ دنیا چینی صدر شی جن پنگ کے امن ویژن یعنی جی ایس آئی سے فائدہ اٹھائے اور دنیا کو جنگوں اور تنازعات کو پاک کرنے میں چین کی پیشکش اور مخلصانہ کوششوں سے فائدہ اٹھائے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ سال جنگوں اور تنازعات سے پاک گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو کا تصور پیش کیا تھا‘ چین واحد ملک ہے جو ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے ساتھ مساوات پر مبنی تعاون کیا جائے۔ چین متنازع امور کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا ہے۔ چین کسی خاص ملک یا گروہ کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے برعکس مشترکہ سلامتی کا تصور اور ہر ملک کی سلامتی کا احترام کرتا ہے‘ طاقت کے استعمال کی بجائے چین سیاسی مکالمے کے ذریعے مسائل حل کرنے کا فارمولہ پیش کرتا ہے۔ چین بین الاقوامی سلامتی کے مسائل میں غیر جانبدار یا خاموش تماشائی بنے رہنے کے برعکس تنازعات کے حل کیلئے مثبت کردار کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ چینی اور امریکی ماڈل میں بنیادی فرق یہ ہے کہ چین باہمی و مشترکہ ترقی کی بات کرتا ہے جبکہ امریکہ کی تاریخ جنگ کے ذریعے قبضے اور تسلط سے عبارت ہے۔ ماضی قریب میں محض افغان اور عراق جنگ میں پندرہ لاکھ کے قریب لوگ جنگ کا ایندھن بنے جبکہ متاثرین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ دنیا جنگوں سے کنارہ کشی کر کے چینی ماڈل کو قبول کر رہی ہے‘18 اکتوبر کو بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں 140 سے زائد ممالک کے نمائندوں کی شرکت چینی معاشی ماڈل پر اتفاق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چین کے گلوبل ڈیویلپمنٹ انیشی ایٹو کو100 سے زائد ممالک کی حمایت حاصل ہے اور اقوام متحدہ میں قائم ''گروپ آف فرینڈز آف دی گلوبل ڈیویلپمنٹ انیشی ایٹو‘‘ میں70 سے زائد ممالک شریک ہیں۔ چین کی ثالثی کی بدولت ہی سعودی عرب اور ایران نے تاریخی مصالحت حاصل کی جو گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو کی ایک کامیاب مثال ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے حالیہ تنازعے میں دنیا دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک اسرائیل کاساتھ دے رہے ہیں جبکہ مسلم دنیا فلسطین کی حمایت کر رہی ہے‘ ایسے میں روس اور چین جیسے ممالک اسرائیل فلسطین تنازع کے دیرپا حل کیلئے دو ریاستی حل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جو بائیڈن کا دورہ اور اسرائیل کی کھلی حمایت کے بعد امریکہ باقاعدہ فریق بن چکا ہے‘ ایسی صورتحال میں جب57 اسلامی ممالک بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں چین فلسطینیوں کے حق میں توانا آواز ہے‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ چین سے زیادہ کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس پر فریقین اعتماد کر سکیں۔ دنیا اس سے قبل معاشی ترقی میں چینی صدر شی جن پنگ کے ویژن کو تسلیم کر چکی ہے‘ اب عالمی تنازعات کے خاتمے اور قیام امن میں دنیا ان کے ویژن کو تسلیم کر رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved